جمعرات یعنی 24اپریل کو بھارت کے پارلیمانی انتخابات کا چھٹا مرحلہ مکمل ہوا جس میں لوک سبھا کے 117حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔ اِسی دوران حکمران کانگرس پارٹی اور حزبِ مخالف کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی کے درمیان الیکشن جیتنے کے لئے سخت مقابلہ جاری ہے۔ دونوں پارٹیاں عوام کی تائید حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں نکال رہی ہیں۔ اِسی قسم کا طاقت کا ایک مظاہرہ جمعرات کے روز ہی اترپردیش کے شہر بنارس اور اُس کے گردونواح میں دیکھنے میں آیا۔ بی جے پی کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کیلئے امیدوار اور گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرامودی اپنے حلقے میں جب کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کے لیے آئے تو بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بنارس کی تمام سڑکیںاُن کے حمائیتیوں سے بھر گئیں۔ ہر طرف زعفرانی رنگ کے جھنڈے لہرا رہے تھے اور ہزاروں افراد پر مشتمل اس مجمع کے ساتھ مودی نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے۔ 7اپریل سے شروع ہونے والی اِس انتخابی مہم میں نریندرامودی مُلک کے تقریباً تمام حصوں میں بڑے بڑے انتخابی جلسے منعقد کر چکے ہیں جن میں مبصرین کے مطابق حاضرین کی تعداد لاکھوں سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ اِس کے مقابلے میں کانگرس کی انتخابی مُہم جوش و خروش اور حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے ہلکی رہی ہے البتہ جمعرات کے ہی روز اترپردیش کے دارالخلافہ لکھنؤکے ایک حلقہ میں کانگرس کے ایک امیدوار ڈاکٹر رِیتا، ہُوگناجوشی کے حق میں کانگرس نے ایک بڑی ریلی نکالی۔ اِس ریلی کی قیادت راہول گاندھی نے خُود کی۔اس ریلی کی وجہ سے کانگرس کی انتخابی مہم میں جان پڑ گئی ہے اور اِس کے حمائیتوں میں زیادہ جوش و جذبہ نظر آتا ہے۔
نریندرامودی کے جلسوں اور ریلیوں میں شرکاء کی بُہت بڑی تعداد کی موجودگی کو بی جے پی کے حلقے ''مودی ویو (Modi Wave)‘‘ کا نام دے رہے ہیں اور اِس کے پیشِ نظر اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ موجودہ انتخابات میں لینڈ سلائڈ وکٹری حاصل کریں گے۔ موجودہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں کے غیر معمولی تناسب کو بھی بی جے پی ''مودِی ویو‘‘ کا مظہر سمجھتی ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ نریندرامودی کے جلسوں اور جلوسوں میں عوام کے جمِ غفیر کی موجودگی نے ثابت کر دیا ہے کہ اُن کی بہت بھاری اکثریت نریندرامودی کو بھارت کا اگلا وزیر اعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ جمعرات کے روز نریندرامودی کی حمایت میں بنارس میں لاکھوں افراد پر مشتمل ریلی کو بی۔جے۔پی ایک ثبوت کے طور پر پیش کر رہی ہے لیکن بی جے پی کی مخالف سیاسی پارٹیوں نے اِس دعویٰ کر رد کر دیا ہے۔ بھوجن سماج پارٹی (BSP)کی سربراہ اور اُتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایا وتی نے دعویٰ کیا ہے کہ بنارس کی ریلی میں شریک لوگوں کی اکثریت کا تعلق باہر سے تھا اور بی جے پی نے اپنی مقبولیت ثابت کرنے کیلئے اُنہیں مقامی لوگ ظاہر کیا تھا۔ مایا وتی نے اِس تاثر کو پوری شدت سے رد کر دیا کہ مُلک میں کوئی ''مودی ویو‘‘ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بی جے پی اپنی متعصبانہ اور فرقہ وارانہ سیاست کی بدولت انتخابات میں شکست کھائے گی۔ ''عام آدمی پارٹی‘‘ کے سربراہ اروند کجری وال کا بھی یہی خیال ہے۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں نے اپنی تجوریاں بی جے پی کیلئے کھول دی ہیں اور بی جے پی اِس پیسے کی مدد سے میڈیا کو خرید کر اپنے حق میں ''ویو‘‘ کا ایک جعلی عکس پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھی ''مودی ویو‘‘ کو بھارتی میڈیا کی اختراع قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے جمعرات کے روز آسام کے دارالحکومت گوہاٹی کے ایک حلقے میں اپنا ووٹ ڈالتے ہُوئے یہ بیان دِیا۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ 1991ء سے اِسی حلقے سے راجیہ سبھاکے رُکن چلے آرہے ہیں۔ترنا مُول کانگرس کی ممتا بیز جی اور اے آئی اے ڈی ایم کے (AIADMK)کی سربراہ جیالالیتا اور مغربی بنگال اور تامل ناڈو کی باالترتیب وزیر اعلیٰ نے بھی ''مودی ویو‘‘ کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیاہے۔ اُن کے خیال میں بھارت میں کوئی ''مودی ویو‘‘ نہیں ہے۔ البتہ ''اینٹی کانگرس ویو (Anti-Congress Wave)‘‘ ضرور موجود ہے۔ یاد رہے کہ یہ دونوں بڑی علاقائی پارٹیاں کانگرس اور بی جے پی دونوں کی مخالفت کر رہی ہیںاور اِن کا دعویٰ ہے کہ موجودہ انتخابات میں نہ تو کانگرس اور نہ بی جے پی جیتے گی، بلکہ اِن دونوں پارٹیوں کامخالف ، علاقائی اور سیکولر پارٹیوں پر مشتمل ایک اتحاد جسے ''فیڈرل فرنٹ ‘‘ کا نام دیا جارہاہے، کامیابی حاصل کرے گا۔
یہ بات سچ ہے کہ 2009ء کے انتخابات کے مقابلے میں اِس دفعہ ووٹرز ٹرن آئوٹ 14سے 15فیصد زیادہ ہے۔ انتخابات کے چھٹے رائونڈ کے موقع پر سب سے زیادہ ٹرن آئوٹ پانڈی چری (82.13فیصد)رہا۔ اس کے بعد مغربی بنگال (82فیصد)اور تامل ناڈو (72فیصد) کا نمبر ہے۔ بی جے پی اِس غیر معمولی ٹرن آئوٹ کو ''مودی ویو‘‘ کے حق میں ثبوت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ لیکن بی جے پی کی مخالف سیاسی پارٹیوں کے علاوہ بیشتر مبصرین بھی بی جے پی کے اس دعوے سے متفق نہیں۔ اُن کی رائے میں یہ غیر معمولی ٹرن آئوٹ ''مودی ویو‘‘ کا نتیجہ نہیں بلکہ اِس کی ایک سے زیادہ وجُوہ موجود ہیں۔اور ہو سکتا ہے اِس کا بی جے پی کو فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہو، کیوں کہ بعض ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی مخالف مضبوط علاقائی پارٹیوں کی گرفت ہے مثلاً مغربی بنگال اور تامل ناڈو ، وہاں ''ہیوی ٹرن آئوٹ (Heavy Turn Out)‘‘ بی جے پی کی مخالف سیاسی پارٹیوں کی جیت کو یقینی بناسکتا ہے۔ اِس کے علاوہ ممبئی میں جہاں اِس دفعہ 2009ء کے انتخابات کے مقابلے میں مسلمان آبادی نے بڑھ چڑھ کر ووٹ ڈالے ہیں، انتخابی نتیجہ بی جے پی کے خلاف جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ممبئی کے 93لاکھ ووٹوں میں سے20سے 23فیصد ووٹ مسلمانوں کے ہیں جو اِس دفعہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈال کر نریندرامودی کو ہرانا چاہتے ہیں۔ مایا وَتی کی رائے میں ہیوی ٹرن آئوٹ بی جے پی اور کانگرس دونوں سے عوام کی بیزاری کو ظاہر کرتا ہے۔ مبصرین کے مطابق غیر معمولی ٹرن آئوٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِس دفعہ 10سے 12کروڑ نوجوان لوگوں کے ووٹوں کا اضافہ ہُوا ہے جو اِس دفعہ پہلی مرتبہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ کُچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ''عام آدمی پارٹی ‘‘ اور اروند کجری وال نے بھارتی سیاست کو جو نیا عوامی اسٹائل دیا ہے، اُس کی وجہ سے بھی لوگوں میں ووٹ ڈالنے کی ترغیب میں اضافہ ہُواہے۔ بعض لوگ بہتر موسم کو اِس رجحان کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ کیوں کہ ماضی میں بعض مواقع پر بھارت کی بعض ریاستوں میں برف باری یا سیلاب کی وجہ سے ٹرن آئوٹ کم رہا ہے، لیکن اِس دفعہ بھارت کے تمام علاقوں میں موسم صاف اور معتدل ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اِس دفعہ انتخابات کے موقعہ پر سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں، جن کی وجہ سے تشدد کے اِکا دُکا واقعات کے علاوہ ووٹنگ کا عمل پُرامن طور پر جاری رہا ہے۔ ہیوی ٹرن آئوٹ کا کریڈٹ بھارت کے الیکشن کمیشن کو جاتا ہے، جس نے اعلیٰ اور موثر انتظامات کر کے انتخابی عمل پر عوام کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔
اِن وجوہ کی بنا پر بی جے پی کا یہ دعویٰ قدرے مشکوک نظر آتا ہے کہ بھارت میں اِس وقت ایک ''مودی ویو‘‘ موجود ہے۔ تاہم بیشتر مبصرین اِس بات پر متفق ہیں کہ کانگرس کی جیت کے امکانات بُہت کم ہیں اور زیادہ امکان اِس بات کا ہے کہ بی جے پی اکثریتی پارٹی کی بجائے ایک واحد بڑی پارٹی کی حیثیت سے اُبھرے گی۔