"DRA" (space) message & send to 7575

کراچی ایئر پورٹ پر حملہ

کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بارے میں جو اطلاعات مہیا کی جا رہی ہیں یا تبصرے کیے جا رہے ہیں اُن میں نمایاں فوکس بجا طور پر ہماری سکیورٹی فورسز خصوصاً ایئر پورٹ سکیورٹی فورس (اے ایس ایف) کے جوانوں کی بہادری اور جانفشانی پر ہے‘ جس کی بدولت دہشت گرد آگے نہ بڑھ سکے اور اپنے مذموم مقاصد حاصل نہ کر سکے۔جائے وقوعہ سے جو شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں اور ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد سے منسوب جو بیان چھپا ہے اُس کے مطابق دہشت گرد طویل مقابلے کے لیے تیار ہو کر آئے تھے اور اُن کا مقصد مسافر ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کر کے اُنہیں ملک میں دیگر مقامات پر حملوں میں استعمال کرنا تھا۔ اس افسوسناک واقعہ‘ جس میں اے ایس ایف کے 11 جوان، ایک رینجر اور ایک پولیس کے سپاہی نے جام شہادت نوش فرمایا، کا ایک اور اہم پہلو زیر بحث ہے۔اس کا تعلق دہشت گردوں سے برآمد ہونے والے بھارتی اور روسی ساخت کے اسلحہ اور سازوسامان سے ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے بیرونی ہاتھ کو خارج ازامکان قرار نہیں دیاجاسکتا اور چونکہ ہمارے دو ہمسایہ ممالک یعنی بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں ہیں اس لیے جب کبھی بیرونی مداخلت کی بات ہوتی ہے تو اشارہ انہی دو ممالک کی طرف جاتا ہے۔ ڈی جی رینجرز نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اسلحہ پر بھارت اور روسی نشانات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حملہ آور دہشت گردوں کو ان دو ممالک نے اسلحہ سپلائی کیا؛ تاہم اس امکان کو مکمل طور پر رَد نہیں کیا جاسکتا۔
واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس بات کو بھی بجا طور پر ہائی لائٹ کیا جارہا ہے کہ اگر سکیورٹی فورسز خصوصاً اے ایس ایف کے جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان دہشت گردوں کو نہ روکتے تو ایئر پورٹ کی تنصیبات ،مسافر جہازوں اور ایئر پورٹ پر موجود سینکڑوں لوگوں کو ناقابلِ تصور نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اے ایس ایف کو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کیا تھا اور اس کا بنیادی فریضہ ایئر پورٹ کیلئے سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔آج تقریباً 40سال کے بعد اس فورس کی افادیت سامنے آئی ہے۔اگر اے ایس ایف کے جوان ہوائی اڈے پر نہ ہوتے اور حملہ آوروں کو مزاحمت پیش نہ کرتے تو دہشت گردوں کو اپنے اہداف تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ایئر پورٹ پر تعینات پولیس کے سپاہی بڑی قلیل تعداد میں ہوتے ہیں اور وہ جدید ترین اسلحہ سے بھی لیس نہیں ہوتے،نہ ہی انہیں انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔جہاں تک رینجرز اور فوج کا تعلق ہے،ان کے دستوں کو ایئر پورٹ تک پہنچنے میں یقینا تاخیر ہوتی اور اتنی دیر میں دہشت گرد ائیر پورٹ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا چکے ہوتے۔اس لیے اے ایس ایف کے شہید جوانوں کی قربانی ناقابلِ فراموش ہے اور اس کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے۔
اس کے باوجود ہمیں یہ سوچ کر گوشئہ اطمینان میں نہیں بیٹھ جاتا چاہیے کہ اے ایس ایف کے جاں نثاروں کی بدولت ملک ایک بڑی تباہی سے بچ گیا۔ اس واقعہ کے اور بھی پہلو ہیں جو غور طلب، کھلی بحث اور بے لاگ تبصروں کے برابر کے حق دار ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ جیسا کہ ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی مہینوں پہلے کی گئی تھی اور اس کیلئے انتہائی تربیت یافتہ دہشت گرد‘ جن میں بعض انجینئر اور ہوائی جہاز اڑانے کی مہارت رکھنے والے بھی شامل تھے ،کو تیار کیا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے پاکستان کی سرزمین پر ہی تربیت حاصل کی ہوگی کیونکہ وہ ایک عرصہ سے یہیں رہ رہے ہیں‘ پھر اس حملہ کی منصوبہ بندی کا عمل بھی پاکستان میں ہی مکمل ہوا ہوگا۔ پھر وہ کسی طرح ملک کے انتہائی شمال میں واقع قبائلی علاقوں سے کراچی پہنچے۔کراچی میں انہیں کن لوگوں نے اپنے ہاں ٹھہرایا، انہوں نے کس طرح اے ایس ایف کے جوانوں کی وردیاں حاصل کیں اور دو گاڑیوں میں اسلحہ سمیت سوار ہوکر کس طرح ایئر پورٹ پہنچے۔ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں پر لازم ہے کہ وہ ان سوالوں کا جواب تلاش کریں‘ کیونکہ یہ سوال عوام کی زبان پر نہ سہی ان کے ذہنوں میں ضرور گردش کر رہے ہیں۔عوام یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اس حملے سے پہلے اس قسم کے متعدد حملے ہوچکے ہیں جن میں پشاور ایئر پورٹ ،پاک نیوی کے مہران بیس اور راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملے شامل ہیں۔ اس کے باوجود فول پروف حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ ہم اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اے ایس ایف کے جوانوں کی دل جمعی کے ساتھ مزاحمت سے دہشت گرد آگے نہ بڑھ سکے اور اس طرح رینجرز اور فوجی دستوں کو لڑائی میں شامل ہونے کا وقت مل گیا‘ جنہوں نے مل کر دہشت گردوں کو وہیں ڈھیر کردیا اور وہ قومی تنصیبات اور اہم اثاثوں کو ہٹ نہ کرسکے۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ اس حملے سے پاکستان کو کیا نقصان پہنچا ہے؟ اے ایس ایف‘ رینجرز اور پولیس کے جوانوں کی شہادت کی صورت میں ناقابلِ تلافی نقصان کے علاوہ ملک کو اس کی ساکھ کے اعتبار سے دنیا بھر میں جو نقصان پہنچا ہے وہ بھی کچھ کم بھاری نہیں۔کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کو دنیا بھرکے میڈیا نے اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دی۔ امریکہ،برطانیہ، یورپ کے علاوہ دنیا کے دیگر تمام اہم ملکوں کے اخبارات نے اس حملے کی خبر دیتے ہوئے اس پر مضامین تحریر کیے۔ ان سب خبروں، تبصروں اور مضامین سے صرف ایک ہی پیغام ملتا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان اپنے ہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہاررہا ہے اور اگر اس نے خود کو مکمل شکست سے بچانا ہے تو اسے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔یہ پیغام اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے بیان میں مضمر ہے جو انہوں نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے جاری کیا‘ اسی طرح تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ نے پاکستان کو اس حملے کی تحقیقات میں مدد فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے‘ لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے اور اسے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس کے تدارک اوربیخ کنی کے لیے کیا حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔
اب تک جس حکمتِ عملی کے تحت کارروائی ہورہی ہے اور جس میں ہمیں تقریباً 50ہزار انسانی جانوں اور کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، وہ ایک دفاعی حکمتِ عملی ہے‘ حالانکہ جنگ کا آزمودہ اصول یہ ہے کہ جارحانہ انداز بہترین دفاع ہے (Offence is the best Defence) لیکن بدقسمتی سے دشمن یعنی دہشت گرد تو ا س حکمتِ عملی پر عمل کررہے ہیں اور بڑھ چڑھ کر جہاں چاہیں حملہ کر رہے ہیں مگر ہم مدافعانہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ یعنی ہم انتظار کرتے ہیں کہ دہشت گرد کب اور کہاں حملہ کرتے ہیں اور اس کے بعد حرکت ہوتی ہے۔تو پوں کے گولوں یا جیٹ طیاروں اور جنگی ہیلی کاپٹروں سے فائر کرنے والے میزائلوں سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے سے نہ تو دہشت گرد ختم ہوں گے اور نہ دہشت گردی رکے گی۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں نے ہمارے ذہنوں میں پناہ لے رکھی ہے جہاں وہ مذہبی تعصب،انتہا پسندی اور نفرت کی صورت میں بستے ہیں۔جب تک ہم اپنے ذہنوں کو ان ضرررساں سوچ سے صاف نہیں کرتے،دہشت گرد اور دہشت گردی موجود رہے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں