ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی کینیڈا سے پاکستان آمد سے ایک آدھ روز قبل واشنگٹن میں مقیم ملک کے ایک سینئر صحافی نے انگریزی زبان کے ایک مقامی اخبار میں لکھا تھا کہ آئندہ چند روز میں ملک کا سیاسی نقشہ بدلنے والا ہے اور اس کا انحصار دوباتوں پر ہے۔ایک یہ کہ جب ڈاکٹر طاہر القادری کا طیارہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر لینڈ کرے گا تو اس کے بعد کی صورتِ حال سے نواز شریف کی حکومت کیسے نمٹے گی؟دوسرے اگر عمران خان ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل کر حکومت مخالف تحریک چلاتے ہیں تو ملک میں سیاسی تبدیلی ناگزیر ہوجائے گی۔لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ان دونوں باتوں کی نوبت نہیں آئی۔ڈاکٹر طاہر القادری کا طیارہ اسلام آباد ہوائی اڈے پر لینڈ نہ کر سکا کیونکہ اس کا رخ لاہور کی طرف موڑ دیاگیاتھا اور ڈاکٹر طاہر القادری پانچ گھنٹے طیارے میں رکے رہنے کے بعد بڑی مشکل سے باہر آنے پر آمادہ ہوئے۔دوسری طرف تحریکِ انصاف کی کور کمیٹی نے اپنے ایک حالیہ اجلاس کے اختتام پر واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی گرینڈ الائنس کا حصہ نہیں بنے گی بلکہ حکومت کے خلاف اکیلے ہی تحریک چلائے گی۔حالانکہ ڈاکٹر طاہر القادری ہی نہیں بلکہ ان کے اتحادی پاکستان مسلم لیگ (ق)کے صدر چودھری شجاعت اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی خواہش ہے کہ عمران خان ان کا ساتھ دیں۔ لندن میں ڈاکٹر طاہر القادری اور چودھری برادران کی ملاقات کے موقعہ پر تو یہ بات یقینی کہی جارہی تھی کہ عمران خان بھی ان کے ساتھ آملیں گے۔اطلاعات کے مطابق لندن میں عمران خان نے ڈاکٹر
طاہرالقادری اور چودھری برادران سے ملاقات بھی کی تھی اور انہیں یقین دلایا تھا کہ حکومت کے خلاف تحریک میں وہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔لیکن معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری عمران خان سے سخت مایوس ہوئے ہیں کیونکہ جہاں شیخ رشید اور چودھری برادران ڈاکٹر طاہر القادری کے استقبال کی خاطر اسلام آباد ہوائی اڈے پہنچ چکے تھے‘ وہاں عمران خان کی طرف سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا بلکہ پاکستان میں آمد کے بعد عمران خان نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ابھی تک ملاقات نہیں کی۔ یہاں دوسوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ قیاس آرائیوں کے باوجود عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ہی صف میں کھڑے ہونے پر کیوں تیار نہیں؟اور ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں اسلام آباد مارچ کے منصوبے کے فلاپ ہونے کے بعد اب ملکی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے اس کا جواب ان اطلاعات کی صورت میں موجود ہے جو تحریکِ انصاف کی کور کمیٹی کے حالیہ اجلاس کی اندرونی کہانی کے حوالے سے اخبارات میں چھپی ہیں۔ان اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری کے کندھے سے کندھا ملانے کے سوال پر تحریک انصاف کے اندر سخت اختلافات ہیں۔پارٹی کا ایک بااثر حصہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اتحاد کا سخت مخالف ہے۔اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان ہی اختلافات اور مخالفت کی وجہ سے پارٹی نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اتحاد یا اپوزیشن پارٹیوں کے کسی گرینڈ الائنس میں شمولیت کے حق میں فیصلہ نہیں دیا۔ البتہ عمران خان نے یہ کہہ کر اتنی گنجائش ضرور چھوڑی ہے کہ جب ضرورت پڑی تو تحریکِ انصاف عوامی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔ دونوں میں اتحاد نہ ہونے کی ایک اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری جس انقلاب کیلئے کوشاں ہیں،اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں۔جبکہ عمران خان سولو فلائٹ کے حامی ہیں۔گزشتہ انتخابات میں بھی انہوں نے کسی اور سیاسی جماعت سے اتحاد کیے بغیر حصہ لیا تھا۔وہ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو اور عوامی تحریک کے شیخ مجیب الرحمن کی طرح اکیلے ہی ساری بساط الٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔یہ اختلافات اپنی جگہ درست۔لیکن اصل مسئلہ نظریاتی اختلاف ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری کے پروگرام میں پورے نظام کی تبدیلی شامل ہے۔کیونکہ وہ موجودہ نظام کو نہ تو جمہوری سمجھتے ہیں اور نہ اسلامی۔اگرچہ وہ آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں لیکن نہ تو وہ پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ صدارتی نظام پر۔ان کے نزدیک یہ دونوں نظام جمہوری نہیں اور نہ عوام کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس لیے انہوں نے گزشتہ سال اسلام آباد میں دھرنے کے موقع پر ''سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘ کانعرہ لگایا تھا اور اس دفعہ ''جمہوریت نہیں خلافت‘‘ کے نعرے کی تشہیر کی ہے۔ لیکن عمران خان 1973ء کے آئین پر مبنی حکومتی اور قانونی ڈھانچے کو تسلیم کرتے ہیں اور اِسی کے اندر رہتے ہوئے وہ عوامی تائید حاصل کر کے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ لیکن اختلافات کی بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ دہشت گردی کے مسئلے پر دونوں کا موقف ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر دہشت گردی اور خصوصاًخودکش حملوں کو اسلام کے منافی قرار دے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے قبائلی علاقوں میں طالبان اور دہشت گردوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کی حمایت کی ہے لیکن عمران خان طالبان کی طرف سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا اعتراف کرنے کے باوجود اُنہیں دہشت گرد قرار دے کر مذمت کرنے پر تیار نہیں۔ بلکہ جیسا کہ اُن کے بیان سے ظاہر ہے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی وہ دِل سے حمایت نہیں کر رہے بلکہ اِس لئے حمایت کر رہے ہیں کہ بقول اُن کے اِس کے علاوہ اُن کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ اِس کے باوجود شیخ رشید اور چودھری برادران اِس بات پر مُصرّ ہیں کہ عنقریب حکومت کے خلاف ایک گرینڈ الائنس بننے جا رہا ہے۔ اِس کیلئے وہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے پہلے ہی ملاقات کر چکے ہیں اور دوسری پارٹیوں کو شامل کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
تاہم اب تک اِس گرینڈ الائنس کے خدوخال واضح طور پر سامنے نہیں آئے۔ محض ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک ، مسلم لیگ (ق) اور عوامی مُسلم لیگ کے اکٹھ کو گرینڈ الائنس نہیں کہا جا سکتا۔ ملک کی بڑی اپوزیشن پارٹیاں یعنی پاکستان مُسلم لیگ‘ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی اس مجوزہ الائنس سے باہر ہیں۔ البتہّ ایم کیو ایم کسی نہ کسی طریقے سے اِس الائنس کی حمایت کا اظہار کر رہی ہے۔ لندن میں بھی ڈاکٹر طاہر القادری اور چودھری برادران نے پریس کانفرنس کے دوران میں اِس طرف اشارہ کیا تھا۔ بلکہ اُنہوں نے ایم کیو ایم کو اپنا پوٹینشل اتحادی تک کہہ دیا تھا۔تاہم ایم کیو ایم نے ابھی تک کھل کر اس الائنس میں شمولیت کے ارادے کا اعلان نہیں کیا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایم کیو ایم سندھ میں پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت ہے جو اس الائنس میں شامل ہونے پر تیار نہیں۔ماڈل ٹائون کے سانحے پر اور پھر اس کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری کے جہاز کو اسلام آباد سے لاہور موڑنے پر الطاف حسین کے جو بیانات سامنے آئے ہیں،ان کا تعلق ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں تازہ ترین پیش قدمی سے ہوسکتا ہے۔
اس لیے اغلب امکان یہی ہے کہ شیخ رشید اور چودھری برادران کا ''گرینڈ الائنس‘‘ ایک لمبی اڑان لینے کے قابل تو کجا،ٹیک آف کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوگا۔