وزیراعظم جناب محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ختم کرنے کے بعد بے گھر افراد کی آبادکاری کا کام فوراً شروع کردیا جائے گا۔ اسی مسئلے سے متعلقہ لیکن ذرا ہٹ کے ایک اور بیان وزیراعظم نے چند دن پیشتر دیا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ تھا کہ آپریشن کے بعد قبائلی علاقوں کی ترقی کی طرف توجہ دی جائے گی اور اس مقصد کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا جائے گا۔ کچھ اس سے ملتا جلتا بیان چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی طرف سے بھی آیا تھا جس میں آپریشن کے بعد شمالی وزیرستان میں تعمیر نو کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔ یہ سب بیانات اپنی اپنی جگہ نہایت اہم‘ مناسب اور بروقت ہیں کیونکہ آٹھ لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد جن کی تعداد دس لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے‘ زیادہ دیر تک کسی اور کے گھروں ، کیمپوں اور خیموں میں زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ وہ اپنا گھر بار اور سب کچھ چھوڑ کر آئے ہیں تاکہ پاکستان کی فوج آسانی کے ساتھ دہشت گردوں کا قلع قمع کر سکے۔ ان کی واپسی جلد از جلد ہونی چاہیے بلکہ بحفاظت طریقے سے ہونی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اتنے بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور فوجی آپریشن سے اُن کے گھروں یا پراپرٹی کو جو نقصان پہنچا ہے‘ اُس کی تلافی ہو سکے۔
لیکن شمالی وزیرستان کے عوام جن کا علاقہ فاٹا کا ایک حصہ ہے‘ اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں۔ کیونکہ اُن کے وطن کو ایک صدی سے زائد عرصہ سے اُن بنیادی انسانی‘ سیاسی‘ قانونی اور شہری حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، جو آئین پاکستان کے تحت ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے باشندوں کو حاصل ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ فاٹا میں شامل 7 ایجنسیوں (جن میں شمالی وزیرستان بھی شامل ہے) اور چھ سرحدی علاقوں (Frontier Regions) کو پاکستان کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن ان علاقوں میں رہنے والے 35 لاکھ سے زائد لوگوں کو وہ حقوق اور بنیادی سہولتیں حاصل نہیں رہیں جو پاکستان کے دیگر باشندوں کو حاصل ہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فاٹا کو نمائندگی حاصل ہے۔ قومی اسمبلی میں 12 اور سینیٹ میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے 8نمائندے بیٹھتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کا فاٹا پر اطلاق نہیں ہوتا بلکہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 247 کے تحت فاٹا کے انتظام و انصرام کے تمام اختیارات صدر مملکت کے ہاتھ میں ہیں جنہیں وہ گورنر خیبر پختون خوا کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ فاٹا کی سرحدیں صوبہ خیبر پختون خوا سے ملتی ہیں اور یہاں کی آبادی بھی زیادہ تر پختون ہے لیکن اس علاقے کو صوبہ خیبر پختون خوا سے الگ رکھا گیا ہے۔ فاٹا سیکرٹریٹ کو صوبہ پختون خوا کے افسر چلاتے ہیں لیکن فاٹا کا سیاسی اور انتظامی مقام صوبہ سے بالکل الگ ہے۔
یہ سلسلہ 1901ء سے چلا آ رہا ہے جب انگریزوں نے اپنے سیاسی اور فوجی مقاصد کے لیے ان علاقوں کو صوبائی حکومت کی تحویل میں دینے کی بجائے براہ راست گورنر جنرل کے کنٹرول میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (F.C.R) جیسے استبدادی اور کالے قانون کو یہاں نافذ کیا گیا اور عوام کو بنیادی حقوق دینے کی بجائے پولیٹیکل ایجنٹ کو سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا تھا۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا گیا۔ 1956ء کے آئین کے نفاذ کے بعد بلوچستان سے ایف سی آر اور قبائلی اور آباد علاقوں میں تفریق ختم کردی گئی تھی مگر صوبہ خیبر پختون خوا جس کا اس وقت نام شمال مغربی سرحدی صوبہ تھا‘ میں اس نظام کو جوں کا توں رکھا گیا۔ اس کا سبب پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی بتایا گیا۔
لیکن اس پالیسی کو برقرار رکھنے کے نتیجے میں فاٹا کے عوام کو جو نقصان ہوا‘ وہ ہمارے سامنے ہے۔ صحت‘ تعلیم‘ سڑکوں‘ ہسپتالوں اور پینے کے صاف پانی سے متعلقہ سہولتوں میں فاٹا کے عوام‘ پاکستان کے دیگر تمام علاقوں سے بہت پیچھے ہیں۔ یہاں روزگار کے کوئی مواقع نہیں کیونکہ صنعت اور زراعت کے شعبے انتہائی پس ماندہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے 80 فیصد لوگوں کا پیشہ سمگلنگ ہے یا وہ دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
ان گزارشات کو پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بحالی اور تعمیر نو کے بارے میں وزیراعظم اور آرمی چیف کے بیانات اپنی جگہ ،فاٹا کا مسئلہ خواہ وہ دہشت گردی یا سمگلنگ کی صورت میں ہو‘ اُس وقت تک حل نہیں ہو سکتا‘ جب تک کہ اس علاقے کی موجودہ حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جاتا اور اسے ملک کے دیگر حصوں کے برابر نہیں لایا جاتا۔ فاٹا کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر اب تک اربوں روپے مختلف منصوبوں کی شکل میں خرچ کیے جا چکے ہیں لیکن اس سے فاٹا کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ فاٹا کا اصل مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اس کا کیا مستقبل ہونا چاہیے؟ یہاں اس امر کا ذکر کرنا بھی مفید ہوگا کہ گزشتہ تقریباً دو دہائیوں میں اس سمت میں چند قدم اٹھائے گئے ہیں۔ جن میں 1996ء میں حق بالغ رائے دہی کا نفاذ اور پیپلز پارٹی کے سابق دور میں سیاسی پارٹیوں کے ایکٹ مجریہ 2002ء کا اطلاق شامل ہے۔ اول الذکر کے تحت فاٹا کے عوام کو قومی اسمبلی کے لیے اپنے نمائندے براہ راست چُننے کا اختیار دیا گیا اور ثانیاً الذکر کے تحت فاٹا میں ملک کی ہر سیاسی پارٹی فاٹا میں اپنا دفتر کھول سکتی ہے۔ سیاسی سرگرمیاں شروع کر سکتی ہے اور عوام ان سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ان اقدامات کو وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی اور قبائلی علاقوں کے عوام نے ان پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے۔
لیکن یہ اقدامات بھی ناکافی ہیں۔ اس وقت جب کہ حکومت کو دہشت گردی کے خلاف فاٹا کے عوام اور خصوصاً بے گھر افراد کی حمایت درکار ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کو فاٹا کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ایک ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان کرنا چاہیے۔ کیا فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خوا میں شامل ہونا چاہیے؟ یا اُسے ایک الگ صوبے کا درجہ (گلگت بلتستان کی طرح) دینا چاہیے؟ یا اس کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے وہاں بتدریج سیاسی اور قانونی اصلاحات کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے فاٹا کے عوام کی رائے لینی چاہیے۔ اعلانِ پاکستان کے موقع پر کراچی آنے سے قبل دہلی میں خان عبدالغفار خاں سے ملاقات میں قائداعظم نے یہی رائے دی تھی اور 2010ء میں قائم کی جانے والی 11 قومی سیاسی پارٹیوں کی ایک مشترکہ کمیٹی نے چند ماہ پیشتر اپنی سفارشات میں بھی یہی کہا ہے کہ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی رائے کے مطابق ہونا چاہیے۔ وزیراعظم کو فاٹا کے عوام کو ایسی کوئی خوشخبری جلدازجلد سنا دینی چاہیے۔