تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وہ ملک میں مڈٹرم انتخابات سے کم کسی رعایت پر اکتفا نہیں کریں گے اور اس کے لیے انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹا کر ایک عبوری حکومت تشکیل دی جائے ،جو نئے انتخابات کا اعلان کرے۔ اپنے مطالبے کے حق میں جواز پیش کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ چونکہ 2013ء کے انتخابات کے نتائج دھاندلی کی پیداوار تھے،اس لیے نئے انتخابات ناگزیر ہو چکے ہیں۔تحریک انصاف کے سربراہ کے ان بیانات سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کو اب نہ تو قومی اسمبلی کے چار متنازعہ حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور چیکنگ میں دلچسپی ہے اور نہ اب انہیں انتخابی نظام میں اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو سے کوئی سروکار ہے۔اب ان مطالبات کو تسلیم کروائے بغیر‘خان صاحب نے مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ پیش کر دیا ہے،لیکن کیا اس مطالبے کے تسلیم کیے جانے کے امکانات ہیں؟
اصولی طور پر تو مڈٹرم انتخابات کے راستے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں،بلکہ مڈٹرم انتخابات اگر ناگزیر ہو جائیں تو آئین میں طریقہ کار واضح کر دیا گیا ہے، لیکن یہ انتخابات صرف تین صورتوں میں ناگزیر ہو سکتے ہیں۔اول:وزیر اعظم اور ان کی کابینہ خود صدر مملکت سے قومی اسمبلی توڑنے کی سفارش اور نئے انتخابات کی درخواست کریں۔دوئم : وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے اور اس صورت میں نئے انتخابات کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ رہے۔سوئم : حکمران پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی اپنی پارٹی سے مستعفی ہو جائیں اور اس طرح حکمران پارٹی ایوان میں اپنی اکثریت کھو دے تب بھی مڈٹرم انتخابات کا آپشن استعمال ہو سکتا ہے ؛تاہم پاکستان میں اس وقت ان تینوں صورتوں میں سے کوئی بھی وجود نہیں رکھتی۔نہ تو وزیر اعظم مستعفی ہونے کے موڈ میں ہیں،نہ ان کی حکومت کے خلاف کسی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان ہے اور نہ ہی حکمران پارٹی میں کسی ٹوٹ پھوٹ کے آثار نظر آتے ہیں۔ان حقائق کی روشنی میں آئینی طریقے سے مڈٹرم انتخابات کے انعقاد کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔غالباً اس وجہ سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جلسے جلوس اور احتجاجی ریلیوں کے ذریعے حکومت کو مڈٹرم انتخابات پر مجبور کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے ،لیکن کیا عمران خان اس راستے پر چل کر اپنی منزل سے ہمکنار ہو سکتے ہیں؟
عمران خان ایک ریلی کی بجائے درجنوں ریلیاں اسلام آباد میں منظم کر لیں ‘حکومت ان کے مڈٹرم انتخابات کے فیصلے کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔اس کے بعد صرف دو صورتیں باقی رہ جاتی ہیں۔یا تو عمران خان کی اسلام آباد کی ریلی کا وہی حشر ہو گا جو اس سے پہلے ان کی مئی میں اسلام آباد ریلی کا یا 2013ء میں ڈاکٹر طاہر القادری کی ریلی کا ہوا تھا۔یا وہ حالات کو خراب کرنے یا دیگر الفاظ میں حکومت کی برطرفی کی راہ ہموار کرنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کریں۔دونوں صورتوں میں عمران خان سیاسی لحاظ سے گھاٹے میں رہیں گے۔اگر عمران خان اسلام آباد میں اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ریلی منعقد کر کے غیر معینہ مدت کے لیے دھرنے کا اعلان کرتے ہیں تو بات لازمی طور پر فریقین میں بات پر ہی پہنچے گی۔اس کو باور آور ہونے میں دیر ہو سکتی ہے، لیکن ہر لڑائی اور محاذ آرائی کا فیصلہ بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے۔عمران خاں لاکھ کہیں کہ حکومت سے مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے اور وہ کسی ڈیل کو قبول نہیں کریں گے ، لیکن ان اعلانات کا تعلق اسلام آباد ریلی کے انعقاد سے پہلے کی صورتحال سے ہے اور ان کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ریلی ہر حالت میں منعقد کریں گے اور اسے منسوخ یا ملتوی کرنے کی کسی درخواست کو قبول نہیں کریں گے ،لیکن عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریلی سے پہلے ان کے پاس کئی آپشن ہیں مگر ریلی کے بعد یہ آپشن محدود ہو جائیں گے۔ان کے سامنے صرف دو راستے رہ جائیں گے‘ یا تو وہ حکومت کی یقین دہانیوں اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر دھرنے کے خاتمے کا اعلان کر دیں ‘یا اپنے جذباتی اور جوشیلے کارکنوں کو اسلام آباد کی سڑکوں اور گلیوں میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ٹکرا دیں۔پہلی صورت میں عمران خان کی بطور ایک مستقل مزاج اور دور اندیش سیاسی رہنما کے کریڈیبلٹی (Credibility)مجروح ہو گی اور ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہو جائے گا عمران خان ایک ہائپر سیاستدان ہیں جو ایک ایشو کو بغیر دیکھے سنے اور اس کے ممکنہ مضمرات کو نظر انداز کر کے انتہا کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں اور اس کے بعد واپسی کی دوڑ لگا دیتے ہیں۔دوسری صورت میں یعنی اگر تحریک انصاف کے کارکنوں اور پولیس میں تصادم ہوتا ہے اور امن و امان کی خراب صورتحال سے فائدہ اٹھا کرغیر آئینی اور غیر سیاسی قوتیں اقتدار سنبھال لیتی ہیں ‘تو عوام اسے نہ صرف ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ سمجھیں گے بلکہ اس کی تمام تر ذمہ داری عمران خاں پر ڈال دیں گے۔
عوام کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت اور حکومت سے بہت سے گلے اور شکایتیں ہیں۔ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انتخابات جیت کر چھ ماہ کے اندر بجلی کا بحران اور لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے ،لیکن آج توانائی کا بحران پہلے کے مقابلے میں شدید تر اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ زیادہ لمبا ہوگیاہے۔شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور لاء اینڈ آرڈر کا یہ حال ہے کہ کرائے کے قاتل اور جرائم پیشہ لوگ شریف اور پُرامن شہریوں کے گھروں میں گھس کر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔کراچی آپریشن کو ایک سال ہونے کو ہے لیکن قانون کی عملداری اور امن و امان کے قیام میں کوئی نمایا ں پیش رفت نہیں ہوئی۔وزیر اعظم نواز شریف دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچستان میں حالات پہلے سے بہتر ہیں۔یہ محض جھوٹی تسلیاں ہیں اور صوبے میں زمینی حقائق سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔معاشی شعبے میں ترقی اور استحکام کے حصول کے باوجود نہ تو مہنگائی کم ہوئی ہے اور نہ لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے قبائلی علاقوں میں مقیم دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ایک وسیع تر حکمت عملی کا صرف ایک جزو ہونا چاہیے‘لیکن اس جزو کو کل سمجھ کر اس پر کلیتاً انحصار کیا جا رہا ہے۔ان ساری باتوں کے باوصف ،ملک کے کسی حصے میں موجودہ حکومت کے خلاف اس حد تک مخالفت موجود نہیں‘ جسے بنیاد بنا کر عمران خان اپنے مڈٹرم انتخابات کے مطالبے کومنوا سکتے ہیں۔اس وقت تک صرف گجرات کے چودھری برادران اور شیخ رشید احمد نے عمران خان کے مڈٹرم انتخابات کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی‘پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی ہے ،حتیٰ کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حلیف پارٹی ‘جماعت اسلامی نے بھی مڈٹرم انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے صوبائی اسمبلی توڑنے کی مخالفت کی ہے۔اطلاعات کے مطابق خود تحریک انصاف کے کارکنوں میں اس مسئلے پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس لیے عمران خان کا اراکین اسمبلی کے استعفوں کا آپشن بھی بیکار جائے گا۔لہٰذا عمران خان کو آج نہیں تو کل مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی پڑے گا ۔