"DRA" (space) message & send to 7575

وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ

پاکستان کے موجودہ آئین کے تحت وزیراعظم چیف ایگزیکٹو یعنی حکومتی اختیارات کا واحد مالک ہے، کیونکہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے جس کی رو سے پارلیمنٹ سب سے اعلیٰ ادارہ ہے اور وزیراعظم کو اس پارلیمنٹ کے سب سے طاقتور ایوان ، قومی اسمبلی میں قائد ایوان کی حیثیت حاصل ہے،اس کے باوجود پاکستان میں جتنی قابل رحم حالت وزیراعظم کی ہے شاید ہی کسی اور عہدیدار کی ہو۔ اس کا مشاہدہ موجودہ سیاسی بحران پر ایک نظر ڈالنے سے کیا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری الگ الگ نظریات کے مالک ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے سے علیحدہ '' آزادی مارچ ‘‘ اور '' انقلاب مارچ‘‘ کے ذریعہ اسلام آباد پہنچ کر اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دے رکھا ہے۔ دونوں کے مطالبات بھی مختلف ہیں، لیکن ایک مطالبے پر دونوں کا اتفاق ہے کہ وزیراعظم نوازشریف استعفیٰ دیں۔ ان کے مطالبے پر وزیراعظم مستعفی ہوتے ہیں یا نہیں یا انہیں اس پر مجبور کیاجاتا ہے یا نہیں ، اس کا پتہ تو آنے والے چند دنوں میں چل جائے گا، لیکن ملک کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کرنا، اس کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا ، مستعفی ہونے پر راضی نہ ہو تو اسے برطرف کرنا یا ہتھکڑی لگاکر جیل بھیجنا یا ملک بدر کرنا اور زیادہ مضبوط وزیراعظم کی صورت میں اسے پھانسی پر چڑھا دینا اتنا ہی آسان ہے جتنا گڑھے سے مچھلی پکڑنا۔ 1997ء کے پارلیمانی انتخابات میں نوازشریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم منتخب ہوئے تھے لیکن یہ اکثریت ان کے کام نہ آسکی اور انہیں 1999ء میں نہ صرف اقتدار سے الگ ہونا پڑا بلکہ سات سال کی جلاوطنی بھی کاٹنا پڑی۔ محمد خان جونیجو کو پاکستان کے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے خود وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کیا تھا لیکن ابھی انہیں اپنے عہدے پر متمکن ہوئے تین سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہی ہوا تھا کہ سادہ کاغذ پر ہاتھ سے لکھے ہوئے حکم نامے کے تحت برطرف کردیے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایک انتہائی ہر دلعزیز اور مقبول لیڈر ہی نہیں بلکہ مضبوط وزیراعظم بھی تھے۔ اگست 1973ء کو جب ملک کا نیا دستور نافذ کیاگیا تو اس کے آرٹیکل 6پرتقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ آج سے پاکستان میں مارشل لا ہمیشہ کے لیے دفن کردیاگیا ہے۔ لیکن چار سال بعد ہی جنرل ضیا الحق نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر نہ صرف بھٹو کو پھانسی دی بلکہ 11سال تک حکومت پر قابض بھی رہے۔
پاکستان کے ہر وزیراعظم کے ساتھ کم و بیش اسی قسم کا سلوک روا رکھا گیا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم ایک قاتل کی گولی کا نشانہ بنے ۔ اس کے پیچھے کیا سازش تھی، اس کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔ دوسرے وزیراعظم یعنی خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کی داستان دلچسپ ہی نہیں بلکہ سبق آموز بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد نے ایک دن وزیراعظم کو شام کی چائے پر بلایا۔ ابھی خواجہ صاحب نے چائے کا کپ خالی بھی نہیں کیا تھا کہ گورنر جنرل نے انہیں بتایا کہ وہ عہدے سے برطرف کیے جارہے ہیں۔ چنانچہ خواجہ ناظم الدین جو وزیراعظم کی حیثیت سے گورنر جنرل ہائوس تشریف لائے تھے، ایک معزول وزیراعظم کی حیثیت سے واپس لوٹے۔ ان کی جگہ گورنر جنرل نے ایک ایسے شخص کو وزیراعظم مقرر کیا جو آئین ساز اسمبلی کا رکن نہ تھا ، بلکہ ملک میں موجود بھی نہیں تھا اور انہیں پاکستان پہنچ کر معلوم ہوا کہ انہیں یعنی امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کیاجارہا ہے۔ نئے وزیراعظم کی قیادت میں آئین ساز اسمبلی نے ملک کے آئندہ آئین کا مسودہ تیار کیا۔ اس میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی تقرری اور برطرفی سے متعلقہ دفعات میں گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ گورنر جنرل اس پر اتنے ناراض ہوئے کہ انہوں نے اکتوبر 1954ء میں اسمبلی ہی توڑ دی۔ اس طرح ملک میں آئین سازی کا عمل مزید دو سال کی تاخیر کا شکار ہوگیا۔پاکستان کے پہلے یعنی 1956ء کے آئین کے تحت پہلے وزیراعظم چودھری محمد علی کو صدر سکندر مرزا نے اتنا ہراساں کیا کہ انہوں نے خود ہی عہدہ چھوڑ دیا۔ یہی حال ان کے جانشین حسین شہید سہروردی کاہوا۔ اس کے بعد اکتوبر1958ء میں دستور کی منسوخی تک جو دو مزید وزیراعظم بنے، ان کی تقرری اور برطرفی میں بھی صدر سکندر مرزا کا ہاتھ تھا۔
آخر وزیراعظم ہی کیوں اس قسم کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا نشانہ بنتے چلے آئے ہیں؟ اس سوال کے جواب کے حصول کے لیے بھی ہمیں تاریخ کا سہارا لینا پڑے گا۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر قائداعظم پنڈت نہرو کی طرح گورنر جنرل کی بجائے پاکستان کا وزیراعظم بننے کا فیصلہ کرتے تو شاید اس عہدے کے احترام اور رعب میں اضافہ ہوتا۔ اگرچہ قائداعظم کے اس فیصلے کے حق میں بہت سے ٹھوس دلائل دیے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی قد آور شخصیت کے سامنے وزیراعظم کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ویسے بھی پاکستان اس وقت جن نازک مسائل سے دو چار تھا، ان سے نبردآزما ہونے کے لیے قائداعظم کا گورنر جنرل بننا بہت ضروری تھا، کیونکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت گورنر جنرل کو وزیراعظم کے مقابلے میں وسیع اختیارات حاصل تھے۔ قائداعظم نے یہ اختیارات تو قوم کی رہنمائی کے لیے استعمال کیے لیکن ان کے بعد آنے والے گورنر جنرلوں اور صدور نے ان اختیارات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور اسی وجہ سے سول بیورو کریٹ ہو یا فوجی جرنیل، اس کے لیے سربراہ مملکت یعنی گورنر جنرل ، صدر، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا چیف ایگزیکٹو کے عہدے میں زیادہ کشش رہی اور اسی عہدے پر متمکن ہونے کے بعد پارلیمانی سسٹم کی رو کے بالکل خلاف اپنے عہدے کے اختیارات میں اضافہ کیا اور وزیراعظم کے اختیارات کو محدود کردیا۔
اس لمحے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے وزیراعظم نوازشریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی اسی روایت کا حصہ ہے۔ وہ قوتیں جو اس سے قبل گورنر جنرل ، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری جیسے صدور کی شکل میں برسر عام اور کھلے بندوں عوامی حاکمیت کی اسمبلی پارلیمنٹ اور اس کے نمائندوں کی تذلیل کرتی تھیں، اب خود سامنے آکر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتیں، کیونکہ 2014ء کا پاکستان 1970ء اور 1990ء کی دہائیوں کے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ کیا یہ کم تبدیلی ہے کہ اس وقت عمران خان اور طاہرالقادری کی ہاں میں ہاں ملانے والی کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے؟ تمام چھوٹی بڑی ، قومی علاقائی حتیٰ کہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی آئین سے ہٹ کر کسی بھی تبدیلی کی مخالفت کرتے ہوئے دھرنوں اور ریلیوں کے ذریعے وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کو بلاجواز اور غیر آئینی قرار دیا ہے۔ مبصرین اس بات پر حیران ہیں کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مطالبے اور دبائو کے تحت وزیراعظم نوازشریف کے مستعفی ہونے کا کوئی امکان نہیں، اس کے باوجود وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 1977ء جیسی صورت حال پیدا کی جارہی ہے لیکن موجودہ حالات اور 1977ء کے حالات میں کوئی مماثلت نہیں۔ 1977ء کے بحران میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے مقابلے میں 9سیاسی جماعتوں کا اتحاد کھڑا تھا۔ حکومت کے خلاف یہ ایک ملک گیر تحریک تھی۔ اسی تحریک کی پشت پناہی پاکستان کا تاجر اور کاروباری طبقہ کررہا تھا اور اسے بیرونی طاقتوں کی آشیر باد اور مغربی ذرائع ابلاغ کی حمایت حاصل تھی۔ اس وقت نظریاتی طور پر عوام دو متحارب طبقوں میں منقسم تھے، لیکن پاکستان کی سیاست کی موجودہ کیفیت کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں اب نظریاتی تقسیم (Polarization)نہیں ہے بلکہ ایک قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور یہ اتفاق رائے اس اصول پر ہے کہ حکومت بنانے یا ہٹانے کا حق صرف اور صرف عوام کو ہے اور ماورا آئین تبدیلی کی ہر کوشش کی مخالفت کی جائے گی۔ اس اتفاق رائے کی بنیاد 2006ء میں چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کے ذریعے رکھی گئی تھی۔ بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ ،جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں ہر سیاسی تبدیلی کے پیچھے اس کا ہاتھ رہا ہے ، کا رویہ بھی مختلف ہے۔جہاں تک پاک فوج کا تعلق ہے، تو وہ آپریشن ضرب عضب میں اس قدر مصروف ہے کہ ملکی سیاست میں براہ راست فوجی مداخلت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اب صرف یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کب تک اپنے اس غیر حقیقت پسندانہ اور بلا جواز مطالبے پر قائم رہتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں