آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی جمہوری سیاسی حکومت تشکیل پاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کے خاتمے کی پیش گوئیاں اور ڈیڈ لائنز کے اعلانات ہونے لگتے ہیں۔موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی ایک برس بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کے مخالف سیاستدان اور پارٹیوں کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ نواز شریف کی تیسری حکومت سابق دو حکومتوںکی طرح اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے گی۔اس دعویٰ کے حق میں جو دلائل دیے گئے‘ ان میں ملک کی اقتصادی زبوں حالی اور حکومت اور فوج کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے شامل ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک سیاستدان عید قربان سے پہلے قربانی کی بات کرتے ہیں جبکہ ایک سیاسی رہنما اسی ماہ یعنی اگست میں موجودہ حکومت کے خاتمے کی نوید سنا رہے ہیں۔کچھ اسی قسم کا سلوک پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت سے بھی روا رکھا گیا تھا۔فروری 2008ء میں انتخابات کے بعد جب سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو ان کی کابینہ میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے اراکین بھی شامل تھے۔اسی طرح پنجاب میں بھی دونوں پارٹیوں کی مخلوط حکومت قائم تھی۔سندھ میں اگرچہ پیپلز پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی لیکن اس نے ایک مستحکم حکومت کی خاطر ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ باقی دو صوبوں یعنی خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بھی مستحکم مخلوط حکومتیں کام کر رہی تھیں۔اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت کے جلد خاتمے کی نہ صرف پیش گوئیاں کی گئیں بلکہ گرما گرم افواہیں بھی گردشی کرنے لگیں۔مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری شجاعت حسین نے دعویٰ کیا کہ یہ حکومت دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکتی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کئی بار اس کے خاتمے کی حتمی ڈیڈ لائنز دیں۔ گزشتہ دو ر میں جب تک پیپلز پارٹی برسر اقتدار رہی اس کے سر پر برطرفی اور فوجی مداخلت کی تلوار لٹکتی رہی۔
سیاسی عدم استحکام کا یہ منظر نامہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خاتمے یعنی 1988ء کے بعد سے زیادہ نمایاں طور پر دیکھنے میں آتا ہے‘ لیکن پاکستان میں حکومتوں اور نظام ہائے حکومت کی غیر فطری تبدیلی کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔پاکستان کا پہلا آئین مارچ 1956ء میں نافذ ہوا۔اکتوبر 1958ء یعنی تقریباً ڈھائی سال کے عرصہ میں چار وزرائے اعظم حکومت میں رہے ۔جنرل ایوب خان نے پونے چار سال براہ راست مارشل لاء کے تحت حکومت کرنے کے بعد جون 1962ء میں ایک ایسا آئین نافذ کیا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ پاکستان میں سیاسی استحکام کی مضبوط بنیاد فراہم کرے گا‘ لیکن مارچ 1969ء میں ایوب خان کے مستعفی ہونے کے ساتھ ہی ان کا دیا ہوا سیاسی نظام پورے کا پورا دھڑام سے نیچے آگرا۔ان کے جانشین جنرل یحییٰ خان اپنا سیاسی نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک آئینی مسودہ بھی تیار کر لیا تھا‘جس میں صدارتی نظام حکومت کی سفارش کی گئی تھی‘ لیکن حالات نے انہیں اپنے عزائم کی تکمیل کی مہلت نہ دی اور 1971ء کی جنگ اور مشرقی پاکستان کے بحران کی وجہ سے انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔گزشتہ پانچ چھ برسوں سے ہم سیاستدانوں پر ہر قسم کی تنقید اور ان سے منسوب اخلاقی‘ سماجی‘ سیاسی اور معاشی برائیاں سنتے آ رہے ہیں۔یہاں ایسے معتبر اور متبرک دانشور اور کالم نویس ہیں جنہوں نے سیاستدانوں کو چور‘بدعنوان‘نااہل اوراقربا نواز جیسے القابات سے نوازا اور ارکان پارلیمنٹ کو لٹیروں کا ٹولہ تک کہا۔لیکن یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے ایک شکست خوردہ ملک اور مایوس قوم کو 1973ء کا متفقہ آئین دیا؛ تاہم جمہوریت دشمن قوتوں
نے چار سال کے بعد ہی اسے معطل کر کے قوم پر فوجی آمریت مسلط کر دی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔
سیاسی عدم استحکام کا مسئلہ اب اتنا شدید ہو چکا ہے کہ ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی پاکستان کی ترقی اور بقاء کے حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے بھی 12اگست کو قوم سے خطاب میں کہا کہ دوسری اقوام کے مقابلے میں پاکستان ترقی کی دوڑ میں اس لیے پیچھے رہ گیا ہے کہ یہاں سیاسی استحکام ناپید رہا‘ جس کی وجہ سے قومی ترقیاتی پالیسیوں میں تسلسل قائم نہ رہ سکا۔یہی موقف امداد فراہم کرنے والے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان کی اقتصادی ترقی میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی کیفیت ہے۔اس کی وجہ سے نہ تو اندرون ملک سرمایہ کاری ممکن ہے اور نہ باہر کے سرمایہ دار پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ ہیں۔ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک اور ایک وسیع مارکیٹ کے ساتھ ساتھ بے شمار قدرتی و معدنی وسائل ہونے کے باوجود ‘جنوبی ایشیا میں بیرونی سرمایہ کاری کے شعبے میں پاکستان بہت پیچھے ہے۔بیرونی ممالک کے ساتھ ہمارے تجارتی روابط خصوصاً برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کی بھی ایک بڑی وجہ پاکستان کا سیاسی عدم استحکام ہے۔
اس سیاسی عدم استحکا م کی کیا وجوہ ہیں؟جب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے تو مختلف جواب سامنے آتے ہیں۔ بعض لوگ سیاستدانوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔بعض کے نزدیک آئے دن کے مارشل لاء اور سیاست میں فوج کی مداخلت اس کا اصلی سبب ہے۔بعض لوگ جاگیردارانہ نظام اور جاگیردارانہ سوچ کو ملک میں سیاسی عدم استحکام کی سب سے اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔کچھ لوگوں کے خیال میں ملک میں سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ غیر جمہوری طرز عمل اور عدم برداشت کا رویہ ہے۔ پاکستان میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو اپنے پیدا کردہ مسائل کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق ملک میں سیاسی عدم استحکام دراصل پاکستان کے خلاف غیر ملکی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم سیاسیات کی ایک مروجہ اور تسلیم شدہ تعریف کو پیش نظر رکھیں‘ جس کے تحت سیاسیات دراصل وسائل کی ایلوکیشن (Allocation) اور تقسیم (Distribution) کے عمل پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کشمکش کا نام ہے اور انسانی معاشرہ کے بارے میں مشہور یونانی فلاسفر اور جدید علم سیاسیات کے بانی ارسطو کے ریمارکس پر بھی غور کریں کہ سیاسیات حقیقت میں انسانی معاشرہ کے مختلف اراکین کے درمیان مفادات کی جنگ ہے ‘تو ہم صرف ایک نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مبنی نظام ہی دراصل سیاسی استحکام کی ضمانت ہے۔پاکستان میں اب تک جتنے بھی سیاسی اور معاشی نظام اور دستوری ڈھانچے قائم کئے گئے ‘ ان کی بنیاد وسائل کی منصفانہ تقسیم پر نہیں رکھی گئی تھی‘ اس لیے وہ دیرپا ثابت نہ ہوئے‘ اور عوام کی اکثریت بددل ہو کر ان کے مخالف ہو گئی۔یہی نہیں بلکہ ان نظام ہائے سیاست اور معیشت نے صدیوں سے چلے آرہے غیر منصفانہ نظام کی جڑیں مستحکم کیں اور ان کی تبدیلی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔عوام ان رکاوٹوں کو دور کرنا چاہتے ہیں اور پرانے نظام سے وابستہ مفادات کے حامل عناصر ان رکاوٹوں کو مضبوط کر کے تبدیلی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ تبدیلی کے خواہشمند اور تبدیلی کے مخالف لوگوں میں کشمکش ہی دراصل ملک میں سیاسی عدم استحکام کی اصل وجہ ہے۔
اسی غیر منصفانہ نظام کی وجہ سے پاکستان میں علاقائی تفاوتیں (Regional disparities)ہیں‘ یعنی ملک کے بعض حصے اقتصادی اور سماجی شعبوں میں دیگر حصوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے شہری اور دیہاتی علاقوں میں بھی تفاوت موجود ہے اور اگر افقی سطح پر غور کریں تو آمدنی میں بے تحاشا فرق‘ جسے عرف عام میں امیر اور غریب کے درمیان فرق کہا جاتا ہے‘ بھی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والے ان تضادات کی وجہ سے ہی سیاسی نظام کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور اسے بدلنے کی خواہش تیز تر ہو جاتی ہے‘ لیکن جب اس خواہش کو دبا یا جاتا ہے تو تصادم کا راستہ کھل جاتا ہے۔ اس کو سیاسی عدم استحکام کا نام دیا جاتا ہے۔
ہمارے حکمران سیاسی عدم استحکام کا رونا تو بہت روتے ہیں‘لیکن اسے دور کرنے کے لیے جس دور اندیشی ‘قربانی اور جرأت کی ضرورت ہوتی ہے‘اس کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ اکثر موقع پرستی ‘کوتاہ اندیشی اور بے اصولی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے فیصلے کرتے ہیں جن سے مسائل اور بھی پیچیدہ ہو جاتے ہیں جو بالآخر ایسے بحرانوں پر منتج ہوتے ہیں جن سے نکلنا سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں رہتی۔ سیاسی عدم استحکام‘ جو پاکستانی تاریخ کا ایک نمایاں فیچر ہے‘ کی جڑیں ہمارے سماجی اور اقتصادی نظام میں ہیں‘جن کو اکھاڑنے کی ذمہ داری کسی ایک پارٹی یا ادارے پر نہیں بلکہ پوری قوم پر عائد ہوتی ہے۔