مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی گزشتہ70برس کی پالیسی کو اگر مختصر انداز میں بیان کرنا مقصود ہو تو اس کیلئے ایک ہی لفظ کافی ہے اور وہ ہے''ناکامی‘‘۔ اس کا تازہ ترین ثبوت برطانیہ میں نیو پوآئنٹ،ویلز کے مقام پر شمالی بحراوقیانوس کے دفاعی معاہدے نیٹوکی حالیہ سربراہی کانفرنس کے اختتام پر مشرقِ وسطی اور خصوصاََ انتہا پسند تنظیم اسلامک سٹیٹ(IS)کے متعلق آئندہ لائحہ عمل کا اعلان ہے۔اس لائحہ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے امریکہ کے سیکرٹری خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں اسلامک سٹیٹ کے انتہا پسندعناصر کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک اتحاد قائم کیا ہے۔ان میں برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، ترکی، اٹلی،پولینڈ اور ڈنمارک کے علاوہ مشرقِ وسطی سے سعودی عرب ،بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔جان کیری کے مطابق یہ اتحاد اسلامک سٹیٹ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے اور اس خطرے کا سدِباب کرنے کیلئے ایک جامع حکمتِ عملی تیار کرے گا جس میں صرف طاقت کے استعمال یعنی ائیر سٹرائیک اور ڈرون حملوں پر ہی اکتفا نہیں کیا جائے گا،بلکہ اس سنگین مسئلے کے سیاسی،معاشی اور مالی پہلوئوں کو بھی مدِنظر رکھا جائے گا۔اس حکمت عملی کے تحت اسلامک سٹیٹ کی فنڈنگ کا پتہ چلا کر اْسے بند کیا جائے گا جن ممالک میں اس تنظیم نے بھرتی دفتر کھول رکھے ہیں ،اْن کو ختم کیا جائے گا۔اس کے علاوہ دنیا کے جن حصوں سے اس انتہا پسند تنظیم کو سیاسی اور نظریاتی حمایت ملنے کا امکان ہے اْس کا راستہ روکنے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔اس حکمت عملی میں عراق کی سکیورٹی فورسز کو مضبوط کیا جائے گا اور خطے میں دیگر ایسے ممالک جو اس خطرے کا مقابلہ کرنے اور اس کے خلاف عملی اقدام کرنے پر تیار ہیں کی بھی فوجی امداد کی جائے گی۔ لیکن اس کیلئے امریکی یا نیٹو افواج نہیں بھیجی جائیں گی بلکہ ہوائی حملوں اور ڈرون کے ذریعے انتہا پسندوں کے ٹھکانوں، ہتھیاروں او ر دستوں کو نشانہ بنایا جائے گا تاکہ وہ پیش قدمی کر کے مزید علاقوں پر قبضہ نہ کر سکیں۔عراق میں تمام سیاسی پارٹیوں پر مشتمل ایک مخلوط حکومت کی تشکیل بھی اس حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔حکمتِ عملی کا بنیادی مقصد اسلامک سٹیٹ کے خطرے کو جڑ سے اْکھاڑ پھینکنا ہے اور ان انتہا پسندوں کا اس طرح پیچھا کیا جائے گا کہ اْنہیں دنیا کے کسی حصے میں پناہ نہیں ملے گی۔کیونکہ اگر ان وحشی انتہا پسندوں کو کہیں بھی قدم جمانے کا موقع ملا تو یہ کینسر کی طرح دنیا میں پھر پھیل جائیں گے۔جان کیری اور امریکی سیکرٹری دفاع چَک ہیگل کے مطابق سیاسی اور فوجی اقدامات پر مشتمل یہ حکمتِ عملی دنیا کے کسی بھی حصے میں انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے ایک ماڈل حکمتِ عملی ثابت ہوگی۔یعنی زمینی فوج خطے کے ممالک فراہم کریں گے۔امریکہ صرف فوجی امداد دے گا یا ڈرون اور ہوائی جہازوں سے دْشمن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
لیکن اس حکمتِ عملی کی تیاری میں امریکہ ایک دفعہ پھر اْس غلطی کا ارتکاب کر رہا ہے جس کا مرتکب وہ مشرقِ وسطیٰ میں دوسری جنگ ِ عظیم سے اب تک ہورہا ہے۔اور اس کا تعلق امریکہ کی طرف سے خطے میں زمینی حقائق کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار ہے۔امریکہ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عالمی امور میں اْس کے اثرو نفوذ میں بدستور کمی واقع ہورہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں امریکہ کے علاوہ اور بھی بااثر طاقتیں موجود ہیں جن کی موجودگی میں امریکہ پہلے کی طرح عالمی معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق نہیںچلاسکتا۔اس کی سب سے نمایاں مثال یوکرائن کا مسئلہ ہے۔اسی طرح مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال بھی1950ء اور1960ء کی دہائیوں سے مختلف ہے۔اب اْس کیلئے براہ راست یا اسرائیل کے ذریعے خطے میں من مانی کرنا دشوار ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کا سیاسی نقشہ بدل چکا ہے۔لیکن امریکہ اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور اب بھی1960ء اور1970ء کی دہائیوں کی صورتِ حال کو بنیادبنا کرخطے کے دفاع اور سلامتی کیلئے حکمتِ عملی وضع کرنے میں مصروف ہے۔اس حکمتِ عملی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ امریکہ اس میں ایران کو کوئی اہم کردار دینے پر آمادہ نہیں۔حالانکہ ایران اپنے جغرافیائی محلِ وقوع،خطے کے ممالک کے ساتھ اپنے قدیم ثقافتی اور تجارتی روابط اور تہذیبی ورثہ کی بنیاد پر مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کی ایک اہم طاقت ہے جسے ان علاقوں کے دفاع اور سلامتی کے امور سے الگ تھلگ نہیں رکھا جاسکتا۔مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی شرکت کے بغیر کوئی علاقائی حکمتِ عملی کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس وقت اسلامک سٹیٹ کی صورت میں جو خطرہ موجود ہے اْس کا مقابلہ کرنے کیلئے ایران کا تعاون ضروری ہے۔اور ایران نے امریکہ کو اپنے تعاون کی پیش کش بھی کی ہے۔یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ ایران کی طرف سے مغربی ایشیاء کی پیچیدہ صورتِ حال کو سلجھانے کیلئے ایران نے امریکہ یا اس کے علاقائی حلیف ممالک کو تعاون کی پیش کش کی ہو۔اس قسم کی پیش کش ایران القاعدہ کے خلاف بھی کر چکا ہے اور امریکہ نے ایران کے مثبت اقدامات کا مناسب جواب نہیں دیا۔باوجود اس کے کہ ایران نے عراق میں حالیہ سیاسی تبدیلی میں بھی امریکہ کا ساتھ دیا ہے،امریکہ نے اسلامک سٹیٹ کی طرف سے پیدا ہونے والے خطرے کا سدِباب کرنے کیلئے چند ممالک کا نام لیا ہے۔شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف باغیوں کی مدد کرنے میں بھی ان ممالک نے سرگرم حصہ لیا ہے۔اور اس کا نتیجہ سامنے ہے۔صدر بشارالاسد کا پلہ اب بھی بھاری ہے۔البتہ ان کے خلاف باغیوں کی امداد کی وجہ سے اسلامک سٹیٹ کو اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کا موقعہ ملا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کی دِن بدن بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور خصوصاََ اسلامک سٹیٹ کی عراق اور شام میں پیش قدمی کے باعث امریکہ پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ اس خطے کے بارے میں اپنی تنگ نظر پالیسی پر نظر ثانی کرے اور زمینی حقائق کو تسلیم کر کے ایران کو بھی علاقائی حکمتِ عملی میں شامل کرے۔امریکہ کے مشہور تھنک ٹینک کارنیگی انڈومنٹ کے مڈل ایسٹ سنٹر کی ڈائریکٹر لینا خاطب نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامک سٹیٹ کے انتہا پسندوں کو شکست دینے کیلئے ضروری ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کر کے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے۔ دونوں ممالک اسلامک سٹیٹ کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایران کیلئے اسلامک سٹیٹ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔اسی وجہ سے ایران نے اس کے خلاف امریکہ کو تعاون کی پیش کش کی ہے۔مگر امریکہ اور ایران کے درمیان تعاون کے قیام سے قبل ایران اور سعودی عرب میں اعتماد کا قیام بہت ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک جزیرہ نما عرب اور خلیج فارس کے علاقے کی اہم طاقتیں ہیں اور ان علاقوں سے دونوں ملکوں کے اہم مفادات وابستہ ہیں۔ان مفادات کا تحفظ صرف اسی صورت ممکن ہے جب تہران اور ریاض باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلامک سٹیٹ کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں جو دونوں کیلئے ایک سنگین خطرے کی نشانی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب 1977ء سے قبل ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعاون اور اتحاد خلیج فارس کے دفاع اور سلامتی کیلئے ایک کْنجی کی حیثیت سے مانا جاتا تھا۔اس سوچ کو پروان چڑھانے اور اسے عملی شکل دینے میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔اس حکمتِ عملی کو Twin Pillar Strategyکہا جاتا تھا لیکن یہ دیرپا اس لیے ثابت نہ ہوسکی کیونکہ اس کا مقصد علاقے میں صرف امریکی مفادت کا تحفظ تھا۔مگر اب صورتِ حال مختلف ہے۔مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے ممالک اب سرد جنگ کے ماحول سے باہر آچکے ہیں اور اْن میں اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں لینے کی خواہش میں اضافہ ہورہا ہے۔ان حالات میں کوئی ایسی حکمتِ عملی جس کا انحصار مقامی حکومتوں کے تعاون پر ہو اور پھر اْن میں سے صرف اْن حکومتوں کا چنائو کیا جائے جو ایک نقطہ نظر کی مالک ہوں اوردوسری طاقتوں کو اْن کے جائز کردار سے محروم کیا جائے،بالکل کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لینا خطیب نے اپنے مضمون میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ڈائیلاگ پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان دونوں ملکوں میں ایک ایسی مفاہمت اور سمجھوتے کی ضرورت ہے جس کے تحت شام اور عراق میں ان کے مفادات کی ضمانت دی جائے۔اگر امریکہ اسلامک سٹیٹ کے خلاف مجوزہ بین الاقوامی کولیشن کی کامیابی کیلئے مقامی طاقتوں کا تعاون چاہتا ہے،تو یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ وہ ان دونوں ممالک میں مصالحت کروادے۔