نریندرمودی کی حکومت نے25اگست کے طے شْدہ پاک بھارت مذاکرات کو جب اچانک اور یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا تھا تو جنوبی ایشیاء میں امن کے خواہش مند لوگوں کیلئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا کیونکہ خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر بات چیت کا فیصلہ وزیراعظم نریندر مودی اور اْن کے پاکستانی ہم منصب محمد نواز شریف کے درمیان ملاقات میں اْس وقت ہوا تھا جب موخرالذکر،اول الذکر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے مئی میں دہلی میں تشریف لے گئے تھے۔اس بات چیت کا مقصد 2004ء سے جاری پاک بھارت امن مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنا تھا جو تقریباََ ڈیڑھ سال سے معطل چلا آرہا ہے۔لیکن25اگست کی خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات اور بات چیت کی تنسیخ سے یہ تعطل نہ صرف قائم رہا بلکہ دونوں طرف سے سخت بیانات نے امن مذاکرات کی جلد بحالی کی رہی سہی اْمید بھی ختم کر دی۔نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کی کشمیری رہنمائوں سے ملاقات کو بھارتی حکومت نے نہ صرف غیر ضروری بلکہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔اگرچہ کشمیری رہنمائوں نے بھارت کے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے،امن مذاکرات کے سلسلے کو جلد ازجلد بحال کرنے پر زور دیا تھا تاہم بھارت کے موقف میں لچک کے کوئی آثار نظر نہ آئے بلکہ جاپان کے دورے پر جانے سے پہلے وزیراعظم مودی نے ایک جاپانی اخبار کو ایک انٹرویومیں الزام عائدکیا کہ پاکستان نے ان مذاکرات کو تماشا بنا رکھا ہے۔پاکستانی ہائی کمشنر کے ساتھ کشمیری رہنمائوں کی ملاقات کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کو جان بوجھ کر سبو تاژ کیا ہے۔دوسری طرف وزیراعظم محمد نوازشریف کے مْشیر برائے امور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز نے بھی دوطرفہ مذاکرات پر پاکستانی موقف کو سخت انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ اْن کا ملک ان مذاکرات میں اْس وقت تک شرکت نہیں کرے گا جب تک بھارت کشمیر پر بامعنی اور نتیجہ خیز بحث پر آمادہ نہیں ہوتا۔جناب سرتاج عزیز کو اس قسم کا بیان دینے کی اس لیے ضرورت پیش آئی کیونکہ بھارت میں بی جے پی کی نئی حکومت مذاکراتی عمل سے مسئلہ کشمیر کو خارج کر کے اسے صرف تجارت،دہشت گردی اور ممبئی حملوں کے ملزمان کے ٹرائل Three Tsتک محدود رکھنا چاہتی تھی ۔اس طرح الزامات اور جوابی الزامات کے ماحول میں امن مذاکرات اور پاک بھارت خوشگوار تعلقات کا مستقبل مخدوش نظر آرہا تھا۔
لیکن حالیہ تباہ کْن سیلاب جس نے پاکستان میں آزاد کشمیر اور پنجاب کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں کو بھی بْری طرح متاثر کیا ہے،کے موقعہ پر نریندرمودی کی طرف سے وزیراعظم محمد نوازشریف کے نام پاکستانی عوام سے ہمدردی اور آزاد کشمیر میں متاثرین کیلئے امداد کی پیش کش پر مشتمل خط نے دونوں ملکوں کو اچانک ایک دفعہ پھر قریب لا کھڑا کرنے کا موقعہ فراہم کردیا ہے۔وزیراعظم محمد نوازشریف نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کے نام جوابی خط میں نہ صرف امداد کی پیش کش اور ہمدردی کو سراہا،بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان قدرتی آفات خصوصاََ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے باہمی تعاون کو ٹھوس شکل دینے کی تجویز بھی دی ہے۔
دونوں وزرائے اعظم کے درمیان سیلاب کی تباہ کاریوں اور امداد کی پیش کش پر مشتمل ان خطوط کے حوالے سے قارئین کو یہ یاد دلانامفید ہوگا کہ 2005ء میں آزاد کشمیر میں جو تباہ کْن زلزلہ آیا تھا،اْس موقعہ پر بھی مقبوضہ کشمیر میں ریاستی اور بھارتی حکام کی جانب سے آزاد کشمیر کے متاثرین کیلئے رضا کارانہ امداد فراہم کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔بھارتی حکام کے اس اقدام سے نہ صرف دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی کے جذبات پیدا ہوئے،بلکہ 1950ء کے بعد پہلی مرتبہ لائن آف کنٹرول جسے1972ء سے پہلے سیزفائرلائن کہا جاتا تھا،کے آرپار لوگوں اور اشیاء کی آمدورفت اور تبادلہ شروع ہوگیا تھا لیکن اکتوبر2005کے زلزلے کی تباہ کاریوں نے لائن آف کنٹرول کے آرپار لوگوں اور سامان کو لانے اور لیجانے کیلئے5نئے راستے کھول دیئے جو بالآخر اکتوبر 2008ء میں کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان باقاعدہ تجارت کے آغاز پر منتج ہوئے۔
بالکل اس طرح موجودہ سیلاب دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے،غلط فہمیاں ختم کرنے بلکہ قدرتی آفات کا مل کرمقابلہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔دونوں وزرائے اعظم نے مصیبت کی اس گھڑی میں انسانی ہمدردی کے تحت ایک دوسرے کو خط لکھ کر ہمدردی اور تعاون کے جن جذبات کا اظہار کیا ہے،اْس کی بنیاد پر وہ تلخی بھی کم ہوسکتی ہے جو 25اگست کے خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات منسوخ کرنے سے پیدا ہوئی تھی۔اس سلسلے میں بھارتی وزیرخارجہ سْشماجی سوراج کا ایک حالیہ بیان بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے جس میں اْنہوں نے پاک بھارت مذاکرات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ڈپلومیسی میں کوئی فْل سٹاپ نہیں ہوتا بلکہ صرف ''کاماز‘‘اور''سیمی کولن‘‘ ہوتے ہیں۔اس بیان میں واضح اشارہ موجود ہے کہ مستقبل قریب میں پاک بھارت مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ آئندہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران امریکہ میں مودی نوازشریف ملاقات جس کے بارے میں ابھی تک صرف قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں،اب تقریباً ممکن دکھائی دیتی ہے کیونکہ بھارتی وزارتِ خارجہ امور کے حکام نے ایک سوال کے جواب میں اگرچہ اس کی تصدیق نہیں کی لیکن اسے خارج ازامکان بھی قرار نہیں دیا۔
اس کے علاوہ بھی مزید ایسے عوامل کارفرما ہیں جن کے دبائو کے تحت وزیراعظم نریندر مودی جو ایک بھارتی صحافی کے مطابق میڈیا کے بعد پاکستان کو اپنا دْشمن سمجھتے ہیں،اسلام آباد کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ان میں سے ایک تو خود بھارت کے اندر میڈیا اور سیاسی حلقوں میں پاکستان کے بارے میں نریندرمودی کی پالیسی پر سخت تنقید ہے۔اگرچہ لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کو بھارتی میڈیا بہت اچھالتا ہے اور ان کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی جاتی ہے،تاہم یہ حقیقت ہے کہ مودی سرکار کی طرف سے25اگست کے مذاکرات منسوخ کرنے کے فیصلے کو بھارت کے سنجیدہ اور اعتدال پسند حلقوں نے پسند نہیں کیا بلکہ اسے ایک عْجلت اور اشتعال میں اْٹھانے والے قدم سے تعبیر کیا جس کے جنوبی ایشیاء کے امن پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے جو سخت تنقید ہوئی،وہ تو ہوئی،خود کانگرس جس نے سب سے پہلے پاکستانی ہائی کمشنر کے ساتھ کشمیری رہنمائوں کی ملاقات پر بی جے پی کی حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا تھا،اب پاکستان کے بارے میں مودی سرکار کی پالیسی کو غیر واضح،متذبذب اور بے مقصد کہہ کر تنقید کا نشانہ بنارہی ہے۔کانگرس کے اس موقف سے دونوں پارٹیوں کے درمیان ایک سرد جنگ شروع ہوگئی ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کو 25اگست کے مذاکرات کی تنسیخ کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔بھارت کے ریٹائرڈ سفارت کاروں اور سٹریٹجک تھنکرز نے بھی خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت کی تنسیخ کو نامناسب قرار دیتے ہوئے دونوں ملکوں میں مذاکراتی عمل کے احیاء پر زور دیا ہے۔سب سے زیادہ تشویش تو بھارت کے کاروباری اور تجارتی حلقوں میں پائی جاتی ہے جو دونوں ملکوں میں پروبزنس رہنمائوں کے برسرَاقتدار آنے سے دوطرفہ تجارت اور کاروبار کیلئے سازگار ماحول اور مواقع کی راہ تک رہے تھے۔
وزیراعظم نریندرمودی کو پاکستان کے بارے میں پالیسی پر صرف اندرون ملک تنقید کا سامنا نہیں،بلکہ ان کی حکومت پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی ہمسایہ ممالک خصوصاََ پاکستان کے ساتھ پْرامن تعلقات اور دوطرفہ مسائل حل کرنے کیلئے بالواسطہ دبائو موجود ہے۔بھارتی اخبارات کی اطلاع کے مطابق جاپان جس کا وزیراعظم نریندرمودی نے حال ہی میں دورہ کیا ہے اور جس نے بھارت میں آئندہ پانچ برسوں کے دوران 35بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے،نے بات چیت کے دوران پْرامن پاک بھارت تعلقات پر زور دیا ہے جس کے جواب میں نریندرمودی کو جاپانی وزیراعظم کو یقین دلانا پڑاکہ بھارت ؛ پاکستان سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پْرامن اور نارمل تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔اس طرح آسٹریلیا اور چین کے ساتھ بھارت تجارت،سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون پر مبنی جن تعلقات کے قیام کی کوشش کر رہا ہے،اْن کا بھی تقاضہ ہے کہ خطے میں امن ہو جس کیلئے پاک بھارت امن مذاکرات کی بحالی پہلا قدم ہے۔چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے دونوں ملکوں میں جو سرد مہری قائم تھی وہ گرم جوشی میں تبدیل ہونے والی ہے یعنی دونوں ملکوں میں برف پگھلنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔