سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ)پرویز مشرف نے اپنی سیاسی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کے یوم تاسیس کے موقعہ پر ایک خطاب میں چند ایسی باتیں کہی ہیں جنہیں ہمارے سیاستدانوں اور خصوصاََ حکومت کو بڑی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو بڑی جلدی کف افسوس ملیں گے۔حالیہ تجربہ ان کے سامنے ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کے پیدا کردہ سیاسی بحران کے پس پر محرکات میں مشرف کو سزا سے بچانے کی کوشش بھی شامل ہے۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال خودکہہ چکے ہیں کہ ہمیں مشرف پر مقدمہ چلانے کی سزا دی جارہی ہے۔اگر حکومت اس کا پہلے سے اندازہ لگا کر اس کے مطابق حکمت عملی وضع کرتی تو آج حالات مختلف ہوتے اور ملک میں نہ دھرنوں کی سیاست گرم ہوتی اور نہ "گونوازگو"کے نعرے لگتے۔
سابق صدر پرویز مشرف کی تین باتیں نہایت غور طلب ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔اپنے خطاب میں انہوں نے سب سے پہلے یہ اعلان کیا کہ موجودہ حکومت کی تبدیلی نوشتہ دیوار ہے لیکن اس امر کے کوئی آثار نہیں کہ حکومتی تبدیلی کے بعد انتخابات ہوں گے۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومتی تبدیلی آئین کے مطابق نہیں ہوگی کیونکہ اگر آئین کے تحت وزیراعظم کے مشورے پر صدر مملکت اسمبلیوں کو برخاست کر دیتے ہیں اور وزیراعظم محمد نوازشریف کی چھٹی ہوجاتی ہے تو آئینی تقاضا یہ ہے کہ اگلے انتخابات90دن کے اندر اندر ہوں۔پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کچھ اور ہونے والا ہے۔ پرویز مشرف کوئی معمولی شخصیت نہیں۔وہ9برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے کے علاوہ چیف آف دی آرمی سٹاف بھی رہ چکے ہیں۔ اس لیے اگر وہ کوئی دعویٰ کرتے ہیں تو اسے سچ ثابت کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی ثبوت بھی ہوگا۔ان سے زیادہ باخبر آدمی پاکستان میں کوئی اور کون ہوسکتا ہے۔دوسرے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے خاتمہ کے بعد ایک عبوری دور میں جس کی انہوں نے کوئی مدت نہیں بتائی لیکن دو سے تین سال کا عرصہ ہوسکتا ہے۔پولیٹیکل انجینئرنگ اور ری سٹرکچرنگ ہونی چاہیے۔ بہت سے لوگ اسے ''پہلے ا حتسا ب اور پھر انتخاب‘‘ کے نعرے کے مترادف تجویز قرار دے رہے ہیں۔لیکن گزشتہ تقریباََ دو دہائیوں کی تاریخ کو اگر ہم پیش نظر رکھیں اور خود مشرف کے اقدامات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جنرل صاحب احتساب سے بھی آگے کی بات کر رہے ہیں۔جنرل ضیاء الحق سے لے کر اب تک پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت کے خلاف اور صدارتی نظام حکومت کے حق میں ایک منظم اور مسلسل مہم چلائی جارہی ہے۔پارلیمنٹ کو چور اور ڈاکو ئوں کا ٹولہ قرار دینا اسی مہم کی ایک کڑی ہے۔دنیا بھر میں جہاں بھی پارلیمانی نظام رائج ہے وہاں پارلیمنٹ کی بالادستی کو مسلمہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔لیکن ہمارے اہم اور مقتدر اداروں کی طرف سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو چیلنج کیا جاتا ہے ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا اصرار تھا کہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ آئین سپریم ہے اور اس آئین کی تعبیر کا حق سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔جس کے تحت عدالت عظمیٰ پارلیمنٹ کے منظور کردہ کسی بھی قانون کو خلاف آئین قرار دے سکتی ہے۔اپنے دور میں انہوں نے پارلیمنٹ سے منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا تھا او دوسرے کو گھر بھیجنے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔پچھلے چند برسوں سے پارلیمنٹ پر ہرطرف سے تیر برسائے جارہے ہیں۔اس کو ایک بیکار،خزانے پر بوجھ،مفاد پرستوں کا گروہ قرار دیکر دراصل صدارتی نظام حکومت کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ فوجی حکمرانوں کو صدارتی نظام حکومت خصوصی طور پر پسند ہوتا ہے کیونکہ اس کے تحت انہیں آمرانہ اختیارات استعمال کرنے کا موقعہ حاصل ہونا ہے۔ایوب خان نے تقریباََ ساڑھے تین برس براہ راست مارشل لاء کے ذریعے حکومت کر کے1962ء میں صدارتی آئین نافذ کیا تھا۔
جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے نیا آئین تو تشکیل نہیں دیا،لیکن1973ء کے آئین کا ترمیمات کے ذریعے حلیہ بگاڑ کر اسے عملاََ صدارتی نظام میں تبدیل کر دیاتھا۔جنرل ضیاء کے دور میں آٹھویں آئینی ترمیم اور جنرل مشرف کے دور میں سترھویں آئینی ترمیم بطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ان ترامیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے اختیارات کو صدر کے ہاتھ میں دیکر عملاََ صدارتی نظام نافذکردیا تھا۔1997ء میں محمد نوازشریف اور2010ء میں صدر زرداری کے ایماء پر علی الترتیب چودھویں اور اٹھارویں ترامیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے اختیارات کو بحال کیا گیا تھا۔لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ اور اس کے ہم نواز رہنمائوں کو پارلیمنٹ کی بالادستی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ اسے کمزور کرنے یا اسے بے دست وپا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔پرویز مشرف کی پولیٹکل انجنیئرنگ اور ری سٹرکچرنگ کی تجویز بھی دراصل پاکستان کے موجودہ پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔اس سے قبل وہ اسی قسم کا تجربہ 2002ء میںلیگل فریم ورک آرڈرL.F.Oکے ذریعے کر چکے ہیں جس کے تحت انہوں نے نہ صرف اسمبلیوں کو توڑنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا،بلکہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری اپنے ہاتھ میں لے لی تھی،اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی تقرری کا اختیار بھی پارلیمنٹ یعنی وزیراعظم سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
پرویز مشرف کے خطاب میں تیسری بات کا تعلق عبوری دور میں ایک تیسری سیاسی قوت کو آگے لانا ہے۔اس وقت میدان میں تین بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں۔پاکستان مسلم لیگ (ن)،پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف :ان میں سے پہلی دو یعنی مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کی پارلیمانی نظام سے وابستگی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔لیکن عمران خان نے پارلیمانی یا صدارتی نظام میں سے اپنی ترجیح کا کبھی ذکر نہیں کیا۔اس کی غالباََ ایک وجہ یہ ہے کہ ان سے کبھی یہ سوال پوچھا ہی نہیں گیا۔لیکن گزشتہ انتخابی مہم اور موجودہ پولیٹکل ایجی ٹیشن وہ بالکل صدارتی خطوط پر چلا رہے ہیں۔اس لیے انہیں صدارتی نظام کی حمایت کی طرف مائل کرنا کوئی مشکل نہیں۔اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈا بھی پارلیمانی نظام سے متصادم ہے۔ان دونوں پر مشتمل ایک ایک متبادل تیسری قوت کو آگے لایا جاسکتا ہے۔لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ان دونوں پر اعتماد نہیں کیونکہ یہ پاپولسٹ لیڈر ہیں اور مقتدر طبقے کو کسی بھی وقت آنکھیں دکھا سکتے ہیں۔
اس لیے جنرل مشرف کے ذہن میں تیسری سیاسی قوت کا تصور بنگلہ دیش ماڈل سے ملتا جلتا ہے۔اپنے دور میں جنرل مشرف بنگلہ دیش کے اس ماڈل سے بہت متاثر تھے۔بلکہ انہوں نے میانمار(برما)میں بھی سیاسی قوتوں کو دبا کر رکھنے میں کامیابی کا راز معلوم کرنے کی کوشش کی تھی۔ بنگلہ دیش میں فوج کی نگرانی میں ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت کر کے ملک کی دوبڑی سیاسی پارٹیوں یعنی حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو سیاست سے بے دخل کرکے ایک نئی اور تیسری سیاسی قوت کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔لیکن یہ کوشش بری طرح ناکام ثابت ہوئی اور بنگلہ دیش نے دوبارہ پارلیمانی نظام حکومت کو فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنے جمہوری سیاسی سفر کا آغاز کیا۔پاکستان میں اب اس تجربے کو دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے؛ تاہم قیام پاکستان سے لیکر اب تک ملک کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عوام ایک نمائندہ جمہوری حکومت کے ساتھ دلی وابستگی رکھتے ہیں اور وہ اپنے اس عقیدہ پر قائم رہیں گے۔