2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کا نعرہ تھا کہ وہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد ''کانگرس مُکت بھارت‘‘ یعنی کانگرس کے وجُود سے پاک بھارت کا قیام عمل میں لائے گی۔ اِس ٹارگٹ کے پیچھے کارفرما محرکات جاننا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ دراصل بی جے پی جو ہندو انتہا پسند تنظیم آرایس ایس کا ہی ایک ،لیکن قابلِ قبُول چہرہ ہے، نے کانگرس کو اپنا سب سے بڑا حریف اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا ہے۔ مئی 2014ء کے انتخابات حقیقت میں بی جے پی اور کانگرس کے درمیان معرکہ تھے، جِسے بی جے پی نے نریندرمودی کی قیادت میں جیت لیا۔اگرچہ وزارت عظمیٰ کا حلف اْٹھانے کے بعدنریندرمودی نے دُور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگرس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں سے تعاون کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ ''آپ کے تعاون کے بغیر میرا مینڈیٹ مکمل نہیں‘‘، لیکن بی جے پی اور کانگرس کے درمیان چپقلش جاری ہے، بلکہ اِس نے اب نظریاتی محاذ آرائی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اِس کی ایک وجہ جولائی اور اگست میں ہونے والے ریاستی ضمنی انتخابات میں کانگرس کے ہاتھوں بی جے پی کے امیدواروں کی شکست بھی ہے، تاہم بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرف سے کانگرس کے خلاف ایک نئی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔اس مہم کے تحت کانگرس کے لیڈر اور بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو (1947-1964ء) کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے پنڈت نہرو کا کردار اور اْن کی پالیسی پر بی جے پی کی نکتہ چینی تو پرانی بات ہے۔بی جے پی کا موقف یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے کا پنڈت نہرو کا فیصلہ غلط تھا۔اس سے کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ بن گیا جس سے پاکستان کو فائدہ پہنچا۔اسی طرح بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت کشمیر کو ایک سپیشل سٹیٹس دینے کا اقدام بھی بی جے پی کے نزدیک ایک غلط اقدام تھا۔بی جے پی پنڈت نہرو کی بجائے سردار ولبھ بھائی پٹیل کو اپنا ہیرو سمجھتی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ مہاتما گاندھی،نہرو کی بجائے سردار پٹیل کو وزیراعظم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔سردار پٹیل پنڈت نہرو کی کابینہ میں وزیرداخلہ کے عہدے پر فائز تھے اور اْن کا سب سے اہم کارنامہ اور جس پر بی جے پی فخر کرتی ہے،آزادی کے فوراََ بعدملک کی600کے لگ بھگ چھوٹی بڑی ریاستوں کو بھارتی یونین میں ضم کرنا تھا۔حیدرآباد اور جْونا گڑھ میں پولیس ایکشن بھی سردار پٹیل کے کارناموں میں شامل ہیں۔
کانگرس اور پنڈت نہرو کی مخالفت میں آرایس ایس اوربی جے پی اب اتنی آگے بڑھ چکی ہیں کہ اْنہوں نے نہرو کے تمام سیاسی، تاریخی،ثقافتی اور نظریاتی نقش اور ورثہ مٹانے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔رواں ماہ کے اوائل میں بی جے پی کے ایک رہنما سبرامنیم سوامی نے آرایس ایس کے کلچرل ونگ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اْن کی رائے میں نہرو دور میں بھارت کی تاریخ پر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں اْن سب کو نذر آتش کر دینا چاہیے کیونکہ یہ کتابیں غیر ملکی سوچ( جن میں وہ مغربی اور مسلمان مفکرین کو بھی شامل کرتے ہیں)کے تحت لکھی گئی ہیں اور ان کے ذریعے بھارت کے اصل ہیروز کو نظر انداز کر کے دیش کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔سوامی جی کا کہنا ہے کہ بھارت کی تاریخ کو اْس
کی اصل شکل میں پیش کرنے کیلئے ضروری ہے کہ نہرودور کے تاریخی ورثے کو تلف کر دیا جائے۔بھارت کے سیکولر اور معتدل سوچ رکھنے والے حلقوں نے سبرامنیم کے اس مطالبے کا نوٹس لیتے ہوئے جہاں ایک طرف تشویش کا اظہار کیا ہے،وہاں اسے الیکشن میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی کامیابی کا ناگزیر نتیجہ قرار دیا ہے کیونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا باہمی رشتہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔سب جانتے ہیں کہ بی جے پی کی سیاست کو آرایس ایس نظریاتی بنیاد فراہم کرتی ہے۔اور اس کا نام ''ہندوتوا ‘‘( Hindutva)ہے،جس کے تحت آرایس ایس بھارت میں رہنے والے تمام باشندوں کو خواہ اْن کا تعلق کسی بھی مذہب ،نسل یا علاقے سے ہو،سب کو ہندو کلچرل سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔کچھ عرصہ پیشتر آرایس ایس کے سربراہ موہن بھگت نے اپنے ایک بیان کے ذریعے سب کو چونکا دیا کہ بھارت میں رہنے والے تمام باشندے ہندو ہیں۔اس پر متعدد حلقوں میں سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا۔مسلمانوں نے تو خیر اس بیان کو رَد کر ناہی تھا،سکھوں کی طرف سے بھی اس بیان کی سخت مذمت کی گئی۔حالانکہ مشرقی پنجاب میںبرسرِاقتدار شرومنی اکالی دَل، نیشنل ڈیموکریٹک الائنس(N.D.A)میں بی جے پی کی اتحادی پارٹی ہے ،لیکن چونکہ بی جے پی اور آرایس ایس کے بیشتر تیروں کارْخ کانگرس کی طرف ہے اس لیے کانگرس کی طرف سے بی جے پی کی اس مخالفانہ مہم کے خلاف پے در پے بیانات آرہے ہیں۔سبرامنیم سوامی کے بیان کے جواب میں آل انڈیا کانگرس کمیٹی کے سیکرٹری جنرل ڈک وجے سنگھ نے ایک طویل مضمون تحریر کیا ہے جو بھارت کے ایک اہم انگریزی زبان کے روزنامہ ''ہندو‘‘میں شائع ہوا ہے۔اس مضمون میں اْنہوں نے بی جے پی پر آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل درآمد کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت اپنے تعصب میں نہرو دور کی اْن تمام خدمات اور اہم کارناموں کو ملیا میٹ کرنا چاہتی ہے جن کی بدولت بھارت میں نہ صرف سیاسی استحکام قائم رہا اور ہر شعبے میں ترقی ہوئی،بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت نے ایک اہم مقام حاصل کیا۔
کانگرس کی طرف سے یہ بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی کے رویے سے آرایس ایس کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات میں اضافہ ہورہا ہے،آرایس ایس کھلم کھلا ''ہندوتوا‘‘ایجنڈے پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کررہی ہے۔وزیراعظم چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں،بلکہ اْنہوں نے ایک معنی خیز خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
بھارت کے وہ حلقے جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کی طرف سے نریندرمودی کی بطور وزیراعظم نامزدگی کی مخالفت کی تھی،کہہ رہے ہیں کہ اْن کے خدشات درست ثابت ہورہے ہیں۔اْن کا موقف تھا کہ آرایس ایس کے ساتھ اپنے سابقہ تعلق اور2002ء میں گجرات کے مسلم کْش فسادات میں اپنے متنازعہ کردار کے باعث نریندرمودی کا بطور وزیراعظم منتخب ہونا بھارت کے قومی اتحاد اور سماجی امن کے لیے نیک شگون نہیں۔بلکہ ان کے اقتدار میں آنے سے بھارت میں نفاق بڑھے گا، فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور قومی اتحاد پارہ پارہ ہوجائے گا۔اْن کا یہ کہنا ایک حد تک درست ہے کیونکہ اٹل بہاری واجپائی ،ایل کے ایڈوانی،منوہر جوشی اور جسونت سنگھ جیسے سینئر اور معتدل سوچ رکھنے والے رہنمائوں کے منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد سٹیج پر موہن بھگت اور سبرامنیم سوامی جیسے لیڈر رہ گئے ہیں جو مودی حکومت کے قیام کو اپنے ہندو ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے ایک سنہری موقعہ سمجھتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں وزیراعظم مودی کا کیا کردار ہے؟کیا وہ آرایس ایس کو اپنے متنازعہ ایجنڈے پر عمل درآمد کا پورا پورا موقع دیں گے اور بھارت کو اْن تمام خطرات سے دوچار کردیں گے جن کی طرف اْن کے ناقدین اکثر اشارہ کرتے رہتے ہیں؟یہ سچ ہے کہ آرایس ایس نے بی جے پی پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔خود نریندرامودی کی بطور وزیراعظم نامزدگی بھی آرایس ایس کے دبائو کے تحت عمل میں آئی تھی حالانکہ ایڈوانی جیسے سینئر لیڈر اس کے حق میں نہیں تھے ،لیکن نریندرمودی اب گجرات کے وزیراعلیٰ نہیں بلکہ بھارت کے وزیراعظم ہیں جو گجرات کے مقابلے میں بہت بڑی ذمہ داری ہے۔اس ذمہ داری کو کامیابی سے نبھانے کے لیے نریندرمودی کو اپنے آپ کو آرایس ایس سے فاصلہ پر رکھنا ہوگا۔اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو بھارت کے اندرونی حالات ہی خراب نہیں ہوں گے،بلکہ بیرونی دنیا میں بھی بھارت کا امیج خراب ہوسکتا ہے۔