پاکستان میں دھرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں جلسے‘ جلوسوں کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کراچی،لاہور، ملتان، سرگودھا اور گجرات میں جلسے کر چکی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک نے بھی فیصل آباد‘ لاہور اور ایبٹ آباد میں جلسے منعقد کیے۔ دونوں پارٹیوں کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی نے18اکتوبر کو کراچی میں جلسہ منعقد کر کے اس دوڑ میں شمولیت اختیار کر لی۔ ابھی دوسری پارٹیاں میدان میں نہیں کودیں‘ لیکن جماعتِ اسلامی کے سربراہ سراج الحق اپنی جماعت کے مرکزی رہنمائوں کے ساتھ مختلف شہروں میں اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں‘ جن میں وہ موجودہ حالات پر تبصرے کے ساتھ قومی مسائل پر اپنی پارٹی کے موقف کی وضاحت بھی کر رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اور اگر انہوں نے سمجھا کہ اس سیاسی شو میں ان کی پارٹی کو بھی اپنی اہمیت ثابت کرنے کی ضرورت ہے تو لگتا ہے‘ وہ بھی تحریک انصاف،پاکستان عوامی تحریک اور پیپلز پارٹی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔لیاقت بلوچ کی طرف سے خیبر پختون خوا حکومت پر تنقید اور صوبائی صدر پروفیسر ابراہیم کی طرف سے ناچ گانے کے اہتمام پر ناپسندیدگی کا اظہار اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے دنوں میں جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کی راہیں جدا ہوسکتی ہیں اور ملک کے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں قدم جمانے کیلئے جماعت اسلامی ایک دفعہ پھر پاکستان مسلم لیگ(ن)کا دامن پکڑ سکتی ہے۔ویسے بھی جماعت اسلامی کو خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے ساتھ حکومت میں مل بیٹھنے سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ صوبے میں سیاسی اور انتظامی طور پر تحریک انصاف چھائی ہوئی ہے اور جماعت اسلامی کسی شعبے میں بھی اپنی مرضی منوانے کی پوزیشن میں نہیں۔
ملک کے اہم شہروں میں بڑے بڑے جلسے منعقد کرنے اور جلوس نکالنے سے دھرنوں پر فوکس کم ہورہا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد کا دھرنا ختم کردیا ہے۔ جہاں تک عمران خان کے دھرنے کا تعلق ہے وہ اپنی حیثیت کا فی عرصہ ہوا، کھو چکا ہے۔ اب وہ ایک پارٹ ٹائم دھرنا ہے، جہاں دن کے وقت کرسیاں خالی ہوتی ہیں اور صرف رات کو اردگرد آبادیوں سے لوگ دن بھر کی مصروفیات سے فارغ ہوکر موسیقی سے لطف اندوز ہونے اور عمران خان کی تقریر سننے کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جلسوں میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد نہ صرف بڑھ رہی ہے،بلکہ ان کے جوش و خروش میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔اس سے حوصلہ پا کر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت نے وزیراعظم محمد نوازشریف سے مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ دہرانا شروع کر دیا ہے۔ حکمتِ عملی یہ ہے کہ شہر شہر جلسوں کے ذریعے حکومت مخالف فضا قائم کر کے غیر یقینی اور عدم استحکام کی ایسی صورت حال پیدا کی جائے کہ حکومت اپنا حوصلہ کھو بیٹھے اور خود اقتدار چھوڑ دے۔ لیکن اگر حکومت اپنے اعصاب مضبوط رکھتی ہے اور دھرنوں کی طرح جلسوں سے بھی مرعوب نہیں ہوتی،تو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا اگلا اقدام کیا ہوگا؟یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ حکومت متزلزل ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ وزیراعظم محمد نوازشریف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں ایک دفعہ پھر اپنے اس موقف پر زور دیا ہے کہ عوام نے انہیں پانچ سال کیلئے چنا ہے اور محض چند افراد کی خواہش پر حکومت تبدیل نہیں ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ دھرنوں کی طرح جلسے بھی حکومت کو گرانے میں ناکام رہیں گے۔غالباََ یہی وجہ ہے کہ سرگودھا کے جلسے میں خطاب کے دوران عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور عمران خان کے قریبی اتحادی شیخ رشید احمد نے دھمکی دی کہ اگر نواز شریف نے استعفیٰ نہ دیا تو عمران خان ملک میں پہیہ جام(ہڑتال)کا اعلان کردیں گے۔اس سے پہلے وہ ملتان میں وزیراعظم محمد نوازشریف سے کہہ چکے ہیں کہ وہ استعفے دینے میں دیر نہ کریں‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ عمران خان کو عوام کے ایک جم غفیر کے ساتھ پرائم منسٹر ہائوس کے سامنے دھرنا دینا پڑے۔
ملتان میں ہی شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اگر حکومت اقتدار سے الگ نہ ہوئی تو پورے ملک میں دھرنوں، جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ڈاکٹر طاہر القادری پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ملک گیر پیمانے پر ہر شہر میں انقلابی جلسے منعقد کر کے حکمرانوں کو ایوانِ اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیں گے۔یہی ارادہ انہوں نے لاہور کے جلسے میں بھی اپنی تقریر کے دوران دہرایا‘ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف اپنے ان جلسوں کو ایک ملک گیر پہیہ جام ہڑتال میں تبدیل کر سکتی ہیں؟
ایسا صرف اس صورت ممکن ہوسکتا ہے جب ملک کا تاجر اور کاروباری طبقہ اور اس کے ساتھ پروفیشنل تنظیمیں اور گروپ مثلاً وکیل،سرکاری ملازم جن میں کلرک،اساتذہ ،مزدوراور طلباء شامل ہیں،عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی حکومت مخالف تحریک کا حصہ بن جائیں۔1967-69ء میںایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ اس میں طلبا، مزدور، وکیل، صحافی،اساتذہ،سرکاری ملازموں کے علاوہ بیشتر سیاسی پارٹیوں کے ورکر شامل تھے۔اس کے علاوہ یہ تحریک ملک کے دونوں حصوں میں منظم تھی۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس تحریک کا ایک ایجنڈا یا چارٹر آف ڈیمانڈ تھا،جس میں سرفہرست جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ تھا۔پھر یہ تحریک ایک ایسے شخص کے خلاف تھی جس نے غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کر کے عمر بھر کرسی پر جمے رہنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔
1977ء میںذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک کے مطالبات میں بھٹو صاحب کا استعفیٰ شامل نہیں تھا‘ صرف دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا جارہا تھا کیونکہ مارچ1977ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔اس تحریک کی کامیابی میں وکلا کی شرکت،کاروباری اور تاجر طبقے کے پیسے اور جماعت اسلامی کے تنظیمی نیٹ ورک نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ایوب مخالف تحریک کی طرح یہ تحریک بھی ملک گیر تھی اور اس میں حزب مخالف میں شامل تمام پارٹیاں ایک طرف اور اکیلی حکومت دوسری طرف تھی۔ یعنی حکمران جماعت کے علاوہ حکومت کا ساتھ دینے والی کوئی اور پارٹی نہیں تھی،جبکہ دیگر تمام سیاسی پارٹیاں ایک متفق ایجنڈے کے تحت حکومت کے خلاف تحریک کا حصہ تھیں۔
موجودہ صورت حال میں نہ صرف حزب اختلاف میں شامل تمام پارٹیاں آئین اور پارلیمنٹ کے تحفظ کی خاطر حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں بلکہ حکومت کی مخالف تحریک ا نصاف اور عوامی تحریک تقریباً اکیلی ہیںجبکہ پہیہ جام ہڑتال کے امکانات بھی نظر نہیں آتے۔اگرچہ طلبا میں عمران خان بہت مقبول ہیں اور تحریک انصاف کے جلسوں میں نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں مثلاًچھوٹے دکانداروں، ویگنوں اور رکشہ ڈرائیوروں (جن کا میٹرو بس کی وجہ سے روزگار خطرے میں پڑ چکا ہے)کی کافی تعداد بھی نظر آتی ہے‘ لیکن دیگر پروفیشنل گروپس مثلاً وکیل، صحافی،اساتذہ اور مزدوروں کا اس تحریک میں شمولیت کا امکان نظر نہیں آتا۔ کاروباری اور تاجر طبقہ بدستور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہے۔ اس طرح کئی مذہبی جماعتیں بھی نوازشریف کا ساتھ دے رہی ہیں۔انتخابی سیاست میں ان جماعتوں کا اگرچہ کوئی نمایاں مقام نہیں لیکن سیاسی ایجی ٹیشن میں ان کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔اس لیے اب تک کی صورت حال میں اس بات کا کم امکان ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے دھرنوں اور جلسوں کو ایک ایسی ملک گیر ایجی ٹیشن میں تبدیل کر لیں گے کہ اپنے مطالبے یعنی وزیراعظم کے فوری استعفے کو منوا سکیں۔