"DRA" (space) message & send to 7575

چین ‘ پاکستان اور افغانستان

ہمارے خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے نتیجے میں جو اہم اور نئے جیوپولیٹیکل منظر نامے ابھر کر سامنے آ رہے ہیں ‘ ان میں افغانستان کی گتھی سلجھانے میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور اہم پیش قدمی سب سے نمایاں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تیرہ برسوں میں تنازعہ افغانستان کو حل کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں ‘ وہ سب کی سب بری طرح ناکام ہو چکی ہیں ۔ امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے سمجھا کہ امریکی فوجی طاقت سے افغان طالبان کو کچل کر رکھ دے گی‘ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ ملا عمر کی قیادت میںافغان طالبان نہ صرف اپنی قوت کو بچانے میں کامیاب رہے بلکہ اب وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاقتور اور موثر ہیں۔ صد اوباما نے حکومت سنبھالتے ہوئے پہلے تو اپنے پیش رو کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی، امریکی اور نیٹو افواج کی تعداد کو بڑھایا۔ ایک وقت میں افغانستان میں لڑنے والی امریکی اور نیٹو افواج کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی‘ لیکن جلد ہی صدر اوباما کو معلوم ہو گیا کہ طالبان کو بزور طاقت نہیں کچلا جا سکتا؛ چنانچہ انہوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے بعض یورپی اور عرب ممالک کی مدد بھی حاصل کی ، لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ دونوں طرف اعتماد کے فقدان سے مذاکراتی عمل شروع ہونے سے قبل ہی اپنی موت آپ مر گیا ۔ امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے قریب لا کر قیام امن کی کوشش کی لیکن افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے دور میں ایسا نہ ہوسکا۔
البتہ صدر اشرف غنی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امید پیدا ہو گئی ہے کہ اس سال کے آخر میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد ممکنہ خلفشار کو روک کر افغانستان میں امن اور سلامتی کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس امید کی بنیاد یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان‘ دونوں ملکوں میں عوام کی منتخب جمہوری حکومتیں قائم ہیں اور تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آمرانہ حکومتوں کے مقابلے میں جمہوری حکومتوں کے دور میں جنگ کی بجائے امن اور صلح کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ صدر اشرف غنی کے حالیہ دورے کے دوران پاکستان میں ان کا جس طرح استقبال کیا گیا، اس سے اس توقع میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔لیکن سب سے زیادہ اہم چین کی طرف سے افغانستان میں قیام امن کی نہ صرف خواہش کا اظہار بلکہ اس کے حصول کے لیے چند عملی اقدامات کی تجویز ہے۔ اطلاعات کے مطابق صدر اشرف غنی کے دورہ چین میں چینی حکام نے پاکستان‘ چین اور افغانستان پر مشتمل ایک فورم قائم کرنے کی تجویز پیش کی‘ جس کا مقصد افغانستان میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے ذریعہ فریقین کے لئے ایک قابل قبول اور قابل عمل امن اور سلامتی کا ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے تاکہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلا کے بعد ملک مکمل انارکی کا شکار نہ ہو سکے۔ پاکستان نے چین کی اس تجویز کی حمایت کی ہے ۔
چین کی طرف سے افغانستان میں مسلسل جنگ اور عدم استحکام پر تشویش کے اظہار کی کئی وجوہ ہیں۔ سب سے اہم یہ خدشہ ہے کہ افغانستان میں دگرگوں حالات سے چینی صوبے سنکیانگ میں برسر پیکار علیحدگی پسند فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ماضی میں جب طالبان افغانستان پر قابض تھے تو ایسا ہوتا رہا ہے۔ طالبان نے سنکیانگ کے علیحدگی پسندوں کی تنظیم''ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ‘‘ کے جنگجوئوں کو پناہ گاہ اور تربیتی کیمپ بنانے کی سہولت دے رکھی تھی۔ چین کو خدشہ ہے کہ اگر افغانستان میں بدامنی ‘ خانہ جنگی اور انتشار کی فضا قائم رہتی ہے تو دونوں طرف سے انتہاپسند عناصر اسے باہمی روابط کو قائم کرنے اور ایک دوسرے کو مدد فراہم کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سنکیانگ میں لڑنے والے باغی تربیت حاصل کرنے کے بعد چینی علاقے میں داخل ہوتے ہیں اور اس مقصد کے لیے گلگت بلتستان کی پاک چین سرحد کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ چین اور افغانستان کی سرحد کی لمبائی صرف 72کلو میٹر ہے اور وہ بھی دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے لیکن اس پر بھی سخت نگرانی کی جا رہی ہے تاکہ سنکیانگ کے باغی اسے عبورکر کے افغانستان میں پناہ حاصل نہ کر سکیں۔ 
دوسرے ، چین افغانستان میں معدنیات کی تلاش میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ افغانستان میں تقریباً ایک ٹریلین ڈالر مالیت کے سونے ‘ چاندی‘ تانبے‘ تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ چین نے ان کو زیر استعمال لانے کے لیے سرمایہ کاری اور تکنیکی امداد کی پیش کش کی ہے۔ چین افغانستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیر‘ تعلیم‘ صنعت اور زراعت کے شعبوں میں پہلے ہی کافی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔
تیسرے ‘ چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس خطے کی صرف دو ریاستوں یعنی قازقستان اور کرغیزستان میں چینی سرمایہ کاری 40 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ان ممالک سے چین تیل‘ گیس اور معدنیات خرید رہا ہے اور اس کے ساتھ ان ممالک کی قومی تعمیر نو میں حصہ بھی لے رہا ہے۔ چین نے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت اور معاشی تعاون میں نہ صرف امریکہ بلکہ روس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ؛ حالانکہ 1990ء سے پہلے یہ ممالک سابق سوویت یونین کا حصہ تھے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں میں چینی سرمایہ کاری ''شاہراہ ریشم کے عظیم منصوبے‘‘ کا ایک اہم حصہ ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان مجوزہ اکنامک کاریڈور بھی ''شاہراہ ریشم‘‘ کے منصوبے کا حصہ ہے اس لیے کہ افغانستان کے ساتھ لگنے والے یہ علاقے‘ جو اب پاکستان کے نام سے نئے ملک کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں‘ قدیم زمانے میں شاہراہ ریشم کے کیچمنٹ ایریاز(Catchment Area) ہوتے تھے۔ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کے قیام کے بغیر چین کا شاہراہ ریشم کا منصوبہ سرے نہیں چڑھ سکتا، اسی لیے جہاں چین ‘ پاکستان کے ساتھ تجارت اور مواصلاتی روابط بڑھا رہا ہے ‘ وہاں افغانستان میں بھی اپنی موجودگی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ صرف چین اور افغانستان ہی ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تلخی اور بداعتمادی بھی ختم ہو۔ 
یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب افغان حکومت اور طالبان جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں اور ملک میں امن اور مصالحت کی بنیاد پر سیاسی استحکام قائم ہو جائے۔ نئے افغان صدر کی طرف سے چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی پیش کش کے پیچھے دراصل افغان حکومت کی یہ سوچ ہے کہ پاک چین دوستی کی بنا پر چین کی طرف سے پاکستان پر طالبان کو مصالحت پر راضی کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا سکتا ہے۔ غالباً اسی امکان کے پیش نظر وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز نے واضح کیا ہے کہ اگرچہ افغانستان کے بارے میں پاکستان چین کی نئی پالیسی کی حمایت کرتا ہے‘ لیکن پاکستان مصالحت پر آمادہ کرنے کے لیے طالبان پر دبائو نہیں ڈا ل سکتا‘ کیونکہ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ طالبان کسی کا دبائو قبول نہیں کر سکتے؛ البتہ پاکستان مصالحت کے عمل میں مدد دینے کے لیے تیار ہے اس لیے چین ‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک نئے اتحاد کی تشکیل سے افغانستان میں امن کے امکانات روشن تو ہو سکتے ہیں ، لیکن ان امکانات کو ٹھوس اور حقیقی شکل دینے میں کافی وقت لگے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں