ڈاکٹر خالد محمود سومرو مرحوم جمعیت علمائے اسلام (ف) کے صفِ اول کے رہنما تھے۔ اُنہوں نے مرکز میں چھ سال (2012-200ء )تک سینیٹ میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کی ۔ وہ سندھ تنظیم کے سیکرٹری جنرل تھے۔ وہ اپنے خیالات کے اظہار میں بہت بے باک تھے ۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر سومرو، لاڑکانہ کے علاقہ کھوسہ گوٹھ کی ایک سوسائٹی گلشنِ اقبال میں واقع ایک مسجد میں صُبح کی نماز ادا کر رہے تھے ۔ نماز کے دوران ڈاکٹر صاحب سجدہ میں گئے تھے تو پاس ہی کھڑے دو افراد نے اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ یہ بات نوٹ کرنے والی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے محافظ بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ لیکن وہ بڑے دروازے پر ڈیوٹی دے رہے تھے جبکہ قاتل عقبی دروازے سے نمازیوں کے بھیس میں داخل ہوئے۔ اِس سے سکیورٹی میں ایک زبردست کوتاہی کا پتہ چلتا ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو کوئی معمولی سیاسی کارکُن نہیں تھے۔ اِس سے پہلے بھی اُن پر چھ مرتبہ قاتلانہ حملہ ہو چکاتھا۔ ابھی حال ہی میں اُن کی پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر ایک خود کش حملہ ہو ا جس میں وہ بال بال بچے۔ اُن ہی کی پارٹی کے ایک رہنما گذشتہ ستمبر میں کراچی میں ایک حملہ میں جاں بحق ہوئے ۔ایک ایسی سیاسی پارٹی جس کی اعلیٰ قیادت کافی عرصہ سے خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار چلی آرہی ہو، کی حفاظت کیلئے خصوصی انتظامات درکار ہوتے ہیں ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اِن سب حقائق کے باوجود حکُومت کی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔حکومت کا رویہ اس لحاظ سے بھی قابلِ افسوس ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) وفاق میں حکمران جماعت پاکستان مُسلم لیگ (ن) کی اتحادی ہے۔
لیکن ٹارگٹ کلنگ کے دیگر واقعات کی طرح ، ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قاتل بھی بڑے سکُون کے ساتھ اپنا کام سرانجام دے کر غائب ہوگئے۔ پولیس اِن کے خلاف مقدمہ تو درج کرے گی لیکن اِن نامعلوم قاتلوں کا کبھی پتہ نہیں چلے گابالکل اُسی طرح جس طرح اب تک ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے ہزاروں افراد کے قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ نہ صِرف جاری ہے بلکہ اِس کا دائرہ اب پورے ملک میں پھیل چُکا ہے اور اب اِس کی لپیٹ میں آنے والے لوگ عام کارکُن نہیں رہے، بلکہ سیاسی پارٹیوں کے سینئر رہنمائوں کو بھی نشانہ بنا یا جارہا ہے۔ کیا اس کا مقصد سیاست میں اختلاف رائے کو دبانا ہے، یا اِس کے پیچھے سیاسی پارٹیوں کو مفلوج اور غیر موثر بنانے کی گہری سازش کارفرما ہے۔ کیوں کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور خصوصاً اِن کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ کچھ عرصہ سے نہ صرف قومی مسائل پر ایک آزاد اور خود مختار موقف اپنایا ہُوا ہے بلکہ صوبہ پختونخوا میں برسرِ اقتدار سیاسی پارٹی کے ساتھ اُن کی محاذ آرائی بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ وہ واحد دینی سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے تشدد پسندی پر مبنی طالبان کی حکمتِ عملی کی کھل کر مخالفت کی اور اِسے نہ صرف قومی مفاد کے منافی بلکہ اسلام کے بھی خلاف قرا ر دیا۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان مولانا فضل الرحمن اور اُن کی جماعت کو اپنے راستے میں ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں جِسے دُور کرنے کے لئے اُنہوں نے متعدد بار کوشش بھی کی ہے۔
لیکن جمعیت علمائے اسلام (ف) واحد سیاسی پارٹی یا مولانا فضل الرحمن واحد سیاسی رہنما نہیں جو خودکش حملوں یا ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ہیں۔ ہمارے سامنے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی مثال ہے جس کے چھ سو سے زائد کارکُن خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔ ان میں عام سیاسی کارکنوں کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رُکن اور ٹاپ لیڈر شپ بھی شامل ہے۔ اے این پی کے رہنما بشیر احمد بلور ایک خودکش حملے میں مارے گئے۔ خود پارٹی کے رہنما اسفندیارولی خاں پر آٹھ مرتبہ قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل صوبہ پختونخوا میں اے این پی متواتر خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ تھی اور اِس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں جو قوتیں اے این پی کی کامیابی کے خلاف تھیں اُن کے ایماء پر یہ ٹارگٹ کِلنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ تاکہ اُن عناصر کے حامی بلاروک ٹوک انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکیں۔
اِسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی بھی محض اس لئے خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنی کیوںکہ اُس کی قیادت نے دہشت گردوں خصوصاً طالبان کے خلاف برملا موقف اختیار کر رکھا تھا۔ دسمبر 2007ء میں ایک خُود کش حملے میں پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا تعلق اِسی موقف سے تھا۔
ایک اور قابلِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ خودکش حملوں اور ٹارگٹ کِلنگ کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ یہ سلسلہ 1990ء کی دہائی سے جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت اِس کی بنیاد فرقہ وارانہ یا لسانی تقسیم تھی۔ 1990ء کی دہائی میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد اور دہشت گردی زوروں پر تھی۔ مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو چُن چُن کر قتل کیا جاتا تھا۔ خاص طور پر 1996ء میں جب کابل پر طالبان قابض ہوئے اور اُنہوں نے مُلا عمر کی قیادت میں
حکومت قائم کی تو پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد اور دہشت گردی کی وارداتوں میں زبردست اضافہ ہُوا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اِن وارداتوں میں ملوث لوگ اپنی کارروائی کر کے افغانستان بھاگ جاتے تھے جہاں طالبان حُکومت نہ صرف اُنہیں پناہ دیتی تھی بلکہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق طالبان حکُومت نے اُنہیں افغانستان میںاپنے تربیتی کیمپ اور پناہ گاہیں قائم کر نے کی اجازت دے رکھی تھی۔ ٹارگٹ کلنگ کا یہ سلسلہ پورے مُلک میں جاری تھا۔ پاکستان کا کوئی شہر اور علاقہ اِس سے محفوظ نہیں تھا۔ تاہم یہ وارداتیں زیادہ تر کراچی، لاہور اور کوئٹہ میں کی جاتی تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے لوگ یا تو ممتاز پیشہ ور یعنی ڈاکٹر ، وکیل، پروفیسر اور دانشور ہوتے تھے، یا اہم پارٹی لیڈر۔ اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹارگٹ کِلنگ کے ذریعے اپنے حریف فرقوں یا سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد کو ہلاک کرنے کا مقصد قوم کو ایک ذہین اور اعلیٰ قیادت سے محروم کرنا تھا۔
لیکن اِس سے بھی زیادہ باعثِ تشویش یہ حقیقت ہے کہ اتنے عرصہ سے جاری خودکش حملوں یار ٹارگٹ کِلنگ کے سلسلے کے باوجود ، حکومت یا حکومتی ادارے اِس کی مکمل بیخ کُنی یار وک تھام میں کامیاب نہ ہو سکے۔ سیاسی پارٹیوں کے کارکُن ہوں یا اُن کے رہنما ، پولیس اور قانون نافذ کرن والے اداروں کے اراکین ہوں یا مخالف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد آئے دن خودکش حملوں اور ٹارگٹ کِلنگ کا نشانہ بنتے ہیں ۔ لیکن اِن کے جواب میں ہماری سٹیٹ کا اقدام مدافعانہ ہے ۔ لیکن کوئی بھی جنگ دفاعی طریقے سے نہیں جیتی جا سکتی۔ جنگ جیتنے کیلئے جارحانہ انداز اپنانا پڑتا ہے ۔ اس لئے تو کہا جاتا ہے کہ جارحانہ اندازبہترین دفاع ہے ۔ معلوم نہیں ہمارے حُکمران اِس اہم اور آزمودہ نسخے کو آزمانے سے کیوں ہچکچا ہتے ہیں۔ کیا اِس میں کوئی کمزوری یا خامی حائل ہے یا یہ طرزِ عمل کسی مصلحت کا شاخسانہ ہے کیونکہ پاکستان کے سکیورٹی ادارے اپنی مہارت کے لحاظ سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔ پھر پوری قوم اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر ان اداروں کو بے تحاشا وسائل بھی فراہم کرتی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ خودکش حملہ آور اور ٹارگٹ کِلر جہاں چاہیں ، جب چاہیں اور جس کو چاہیں اپنی کارروائی کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ بلکہ کارروائی کے بعد آرام سے غائب ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اُن کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ وہ کبھی بھی پکڑے نہیں جاتے اور اگر کبھی اِن حملوں کے شبے میں افراد پکڑے بھی جاتے ہیں تو اُن کو سزا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ یا تو عدالتوں سے ضمانت پر یا پھر مقدمہ میں ناکافی ثبوت اور عدم شہادت کی بنیاد پر رہا ہو جاتے ہیں۔
ہماری حکُومت اِس بات کا کیوں اہتمام نہیں کرتی کہ خُود کش حملوں یاٹارگٹ کِلنگ کے پیچھے کار فرما عناصر کو گرفت میں لے۔ اِس مرض کی جڑوں تک پہنچے اور پھر اِن میں ملوث تمام افراد کو خواہ وہ کتنے ہی بااثر اور طاقتور کیوں نہ ہو، اور اُن کا تعلق کسی بھی جماعت یا گروہ سے ہو اُنہیں قرار واقعی سزا دے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قتل نے ملک میں پہلے سے پائی جانے والی عدم تحفظ اور خوف کی فضا کو اور بھی خوفناک بنا دیا ہے۔ اگر بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنماجنہوں نے اپنی حفاظت کیلئے مسلح باڈی گارڈز کا بھی اہتمام کیا ہوتا ہے، اِسی قسم کے حملوں سے محفوظ نہیں ، تو عام شہری کی کیفیت کیا ہوگی۔ حکُومت وقت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہئے۔ تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت عوام کی طرف سے ملنے والے مینڈیٹ کو پورا کر رہی ہے۔