حال ہی میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ روس اور بھارت کے درمیان سٹریٹجک پارٹنرشپ کا ایک معاہدہ قائم ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے رہنما ہر سال سربراہی کانفرنس منعقد کرتے ہیں۔صدر پیوٹن کا اس ماہ میں دورئہ بھارت اور وزیراعظم نریندرمودی سے ان کی ملاقات اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔گذشتہ برس ماسکو میں صدر پیوٹن اور سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن کے درمیان اسی قسم کی چوٹی کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور اس سے قبل2012ء میں صدر پیوٹن بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان چوٹی کی کانفرنس اور صلاح مشورے کا یہ سلسلہ 2000ء سے چلا آرہا ہے،جب روس اور بھارت نے ایک ڈیکلریشن آف سٹریٹجک پارٹنرشپ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے‘ اس وقت ولادی میر پیوٹن نے پہلی مرتبہ روس کے صدر کا عہدہ سنبھالا تھا‘ لیکن صدر پیوٹن کا حالیہ دورئہ بھارت متعدد اعتبار سے خصوصی اہمیت اوردور رس مضمرات کا حامل ہے۔نہ صرف بھارت اور روس کے دوطرفہ تعلقات کیلئے بلکہ جنوبی ایشیا اور اس خطے سے باہر بھی اس کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ روسی صدر کے اس دورے سے قبل کئی ایسے اہم واقعات رونما ہوچکے ہیںجن کی روشنی میں اس دورے کے تنائج کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
ان واقعات میں سب سے زیادہ اہم گزشتہ چند برسوں میں بھارت اور مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ کے درمیان عسکری شعبے میں بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔روس کو شکایت ہے کہ بھارت آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتاجارہا ہے اور نئے ممالک کے ساتھ پینگیں بڑھارہا ہے۔ خصوصاََگذشتہ ایک دہائی میں بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر روس کو تشویش ہے اور شکایت ہے‘ حالانکہ اس نے ہر کڑے وقت میں‘ خواہ چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ ہو یا پاکستان کے ساتھ کشمیر پر جھگڑا، بھارت کا کھل کر اور غیر مشروط ساتھ دیا تھا۔اگرچہ بھارت اب بھی روسی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس کی افواج کے پاس70فیصد سے زائد اسلحہ روسی ساختہ ہے لیکن2011ء میں جب بھارتی فضائیہ کیلئے126جدید ترین طیارے خریدنے کا گیارہ بلین ڈالر کا ٹینڈر‘ روس کی بجائے فرانس کی ایک طیارہ ساز کمپنی کو دے دیا گیا تو روس کیلئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔اسی طرح2012ء میں ایک بلین ڈالر مالیت کے‘ بھاری بوجھ اٹھانے والے ہیلی کاپٹر خریدنے کا آرڈر،بھارت نے روس کی بجائے امریکہ کی بوئنگ کمپنی کو دے دیا تو روس نے اس پر مزید ناراضگی کا اظہار کیا۔تاہم بھارت کی طرف سے ان اقدامات کا جواز بھی موجود ہے۔بھارت اور روس کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات بلکہ مضبوط اتحاد سردجنگ کے زمانے میں قائم ہواتھا۔سرد جنگ کے خاتمہ اور سابقہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جس طرح دنیا کے دیگر ممالک نے اپنی اپنی خارجہ پالیسیوں کی سمتیں تبدیل کر لیں‘ اس طرح بھارت نے بھی دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ازسرِ نو قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں‘ تاکہ روس پر اس کے کلیتاََ انحصار کا خاتمہ ہوسکے۔اس کے علاوہ بھارت اور سابقہ سوویت یونین کے درمیان خصوصاً دفاعی شعبے میں قریبی تعلقات اس دور میں قائم ہوئے تھے جب بھارت کی معیشت میں سرکاری شعبے (Public Sector) کو غالب حیثیت حاصل تھی۔اب بھارت کی معیشت میں سرکاری شعبہ روبہ زوال ہے اور اس کی جگہ نجی شعبہ زیادہ فعال کردار ادا کررہا ہے۔اس کی وجہ سے بھارت تجارت اور اقتصادی تعاون کے شعبوں میں تعاون کیلئے جاپان،آسٹریلیا،امریکہ اور یورپی ممالک کو زیادہ ترجیح دے رہا ہے۔مزید یہ کہ بھارت اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کیلئے ترقی یافتہ ممالک کی طرف زیادہ جھکائو کا مظاہرہ کررہا ہے‘ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ بھارت،روس کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کی سطح کو اور نیچے گراناچاہتا ہے بلکہ اس کے برعکس بھارت نے نہ صرف دفاعی شعبے میں روس کے ساتھ اپنے پرانے اور روایتی تعلقات قائم رکھے ہیںبلکہ باہمی دوستی کو مضبوط بنانے کیلئے دیگر شعبوں مثلاََ سول نیوکلیئر کوآپریشن، توانائی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھی روس کے ساتھ تعاون کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔اس کا ثبوت صدر پیوٹن کے حالیہ دورئہ بھارت کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیہ میںموجود ہے‘ جس کے تحت بھارت اور روس نے متعدد شعبوں میں تعاون کیلئے20کے قریب معاہدات پر دستخط کیے ہیں۔ان معاہدات کی مالیت کئی بلین ڈالر تک جاپہنچی ہے۔سب سے زیادہ اہم دونوںملکوں کے درمیان سول نیوکلیئر کو آپریشن کیلئے جاری کردہ ایک ویژن سٹیٹمنٹ ہے۔اس اعلان کے تحت روس بھارت میں اگلے بیس برسوں میں کم ازکم12نئے ایٹمی پلانٹ نصب کرے گا۔ اس کے علاوہ روسی ڈپٹی وزیراعظم ڈمڑی ردوگوزین کے مطابق روس نے بھارت میں مشترکہ بنیادوں پر دو انجنوں والے کاناکوفکا ٹائپ کے400ہیلی کاپٹروں کا اسمبلنگ پلانٹ لگانے کی بھی ہامی بھری ہے۔یہ ہیلی کاپٹر سول اور ملٹری دونوں مقاصد کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں اور منصوبے کے مطابق مستقبل میں یہ ہیلی کاپٹر بھارت سے دیگر ممالک کو بھی برآمد کیے جاسکیں گے۔
بھارت اور روس دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کی طرف بھی خاص توجہ دے رہے ہیں‘ کیونکہ اب تک بھارت اور روس کے درمیان تعلقات میں دفاعی شعبے میں تعاون اور ہتھیاروں کی خریداری پر ہی زیادہ توجہ دی جاتی رہی ہے۔اس کی مثال ماضی میں ہی نہیں بلکہ حال قریب میں بھی ملتی ہے۔مثلاً 2012ء میں صدر پیوٹن کے دورئہ بھارت کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے ایک سمجھوتے کے تحت بھارت نے2.9بلین ڈالر مالیت کے روسی لڑاکا طیارے ایس۔یو۔30خریدنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ روس سے MI-1771ہیلی کاپٹر خریدنے کے معاہدے پر بھی بھارت اور روس نے دستخط کیے تھے۔اب دونوں ملکوں نے دوطرفہ تجارت میں اضافہ کرنے کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول کرنا شروع کردی ہے۔اس وقت دونوں ملکوں میں تقریباََ 12بلین ڈالر کے مال کا لین دین ہوتا ہے۔حال ہی میں طے پانے والے معاہدوں کے تحت آئندہ دس برسوں یعنی 2025ء تک اس تجارت کو30بلین ڈالر تک پہنچانے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے۔اس کے باوجود اگر اس تجارت کو بھارت کی امریکہ اور چین کے ساتھ تجارت سے موازنہ کیا جائے تو
اس کی مقدار بہت کم ہے۔یادرہے کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 100بلین ڈالر اور چین کے ساتھ بھارت کی تجارت75بلین ڈالر کی حدوں کو چھو رہی ہے۔
اس لیے مستقبل میں بھی بھارت اور روس کے دوطرفہ تعلقات پر ہتھیاروں کی خریداری یا بھارت میں روس کی تکنیکی مدد سے روسی ہتھیاروں کی پیداوارکو غالب حیثیت حاصل رہے گی۔بھارت ۔ روس مشترکہ منصوبوں کے تحت زمینی،ہوائی اور بحری فوج کے زیر استعمال ہتھیاروں کی پیداوار کے علاوہ میزائل مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بھی تعاون جاری ہے۔اس کی سب سے نمایاں مثال ایٹمی ہتھیار لے جانے والا دور مار میزائل ''براہما‘‘ ہے جس کا بھارتی کامیابی سے تجربہ کر چکے ہیں۔ بھارت اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے ان تعلقات پر پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔اس کی وجہ یہ خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح آئندہ بھی بھارت روسی ہتھیاروں کے حصول کے بعد جنوبی ایشیا میں اپنے چھوٹے ہمسایہ ممالک کو ڈرانے اور دھمکانے کی پالیسی اختیار کرے گا۔جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے یوکرین کے مسئلہ پر روس کے ساتھ اختلافات اور اقتصادی پابندیوں کی روشنی میں واشنگٹن کو نئی دہلی اور ماسکو کے ایک دوسرے کے قریب آنے پر خوشی نہیں ہوگی۔ بلکہ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے صدر پیوٹن کے دورے کے اختتام پر بھارت اور روس کے درمیان طے پانے والے سمجھوتوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے‘ لیکن بھارت اور روس کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہوتا رہے گا کیونکہ ان تعلقات کی اپنی ایک تاریخ ہے۔اور ابھی تک ان کی بنیاد ٹھوس حالت میں موجود ہے۔دونوں ممالک اپنے وسیع تر قومی مفاد میں اس بنیاد کو باہمی طور پر مفید اور بارآور تعلقات کے قیام کیلئے استعمال کرتے رہیں گے۔