مِثل مشہور ہے کہ نئے مسائل کو پرانے طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔جب نئے چیلنج درپیش ہوں تو ان کے مطابق ہی حکمت عملی تشکیل دینا پڑتی ہے۔ پرانی سوچ اور بوسیدہ ہتھکنڈے جو زمانہ بھر میں بدنام ہو چکے ہوں‘کامیاب نہیں ہو سکتے۔نئی سوچ کے لیے پرانی سوچ ترک کرنا پڑتی ہے۔غالباً اِسی قسم کے موقع کی مناسبت کیلئے مولانا رومؒنے فرمایا تھا:
ہر بنائے نو کہ آباداں کنند
اول تعمیر کہنہ را ویراں کنند
جرمنی کے مشہور فلاسفر فریڈرک ہیگل کا یہ قول بھی اسی مناسبت سے قابل غور ہے کہ (Truth emerges from mistake rather than from confusion)یعنی سچائی ابہام پیدا کر کے نہیں بلکہ غلطی کے اعتراف کے بعد نمودار ہوتی ہے۔ مگر غلطی کے اعتراف کے لیے اخلاقی جرات درکار ہوتی ہے۔اس اصول کا اطلاق افراد پر بھی ہوتا ہے اور قوموں پر بھی۔ جس طرح افراد غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں اسی طرح قوموں سے بھی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔لیکن تلافی دونوں صورتوں میں ممکن ہے۔اس کی مثالیں ڈھونڈنے کے لیے ماضی بعید میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جنوبی افریقہ میں سفید اور سیاہ فام نسل کے لوگوں نے صداقت اور مصالحت (ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن) کے عمل کے ذریعے باہمی تعاون اور پُرامن زندگی بسر کرنے کی قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ لیکن اس کے لیے جس اخلاقی جرأت کی ضرورت ہے اس کا مظاہرہ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔بہت کم افراد اور قومیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے نئی راہوں پر نئے عزائم کے ساتھ سفر کا آغاز کرتی ہیں۔اس قسم کے لوگوں میں ہمارے حکمران بھی شامل ہیں جو ملک کو درپیش نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن اپنی پچھلی غلطیوں کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
یہ ساری تمہید حکومت کی جانب سے دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے تیار کردہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے باندھی گئی ہے۔ بیس نکاتی منصوبہ میں اگر کوئی نئی بات ہے تو وہ صرف فوجی عدالتوں کا قیام ہے اور اس پر بھی متعدد سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ قومی ایکشن پلان کی باقی سبھی شقیں مبہم ہیں۔ یہ ابہام اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارے حکمران برملا اور قوم کے سامنے یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جو پالیسیاں انہوں نے اختیار کی تھیں وہ غلط تھیں۔ جو طریقے انہوں نے استعمال کئے ان کی بنیاد قومی مفاد کی بجائے انفرادی یا گروہی مفاد تھا۔مثلاً کون نہیں جانتا کہ مذہبی انتہا پسندی اور جہادی کلچر کو سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت پروان چڑھایا گیا تھا۔ اور اس کا واحد مقصد جنرل ضیاء الحق کی غیر آئینی اور غیر قانونی حکومت کے لیے جواز فراہم کرنا تھا۔جنرل مشرف کے دور میں اپنائی گئی پالیسیاں اسی سوچ کا تسلسل تھیں۔ ملک میں سیاسی اور فکری ابہام کا یہ عالم ہے کہ آئین کے آرٹیکل 6کی موجودگی کے باوجود بعض سیاسی
پارٹیاں اور سیاسی لیڈر برملا مارشل لاء کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ابہام کی اگر یہی صورتحال رہی تو اس سے اٹھنے والے گردو غبار میں قوم کو آگے بڑھنے کی راہ کیسے نظر آئے گی؛ تاہم ہمارے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ قوم کو ایک نئی منزل کی طرف لے جانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔حالانکہ جس منزل کا وہ وعدہ کر رہے ہیں وہ کہیں دور دور تک نظر نہیں آتی۔
اس کی بنیاد ی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے تجربات کی بنیاد پر عوام ان حکمرانوں کے وعدوں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔کیوں کہ قیام پاکستان سے اب تک حکمران طبقے عوام سے جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ منافقت سے کام لیتے رہے ہیں۔ حقائق عوام سے چھپاتے رہے ہیں۔ دین‘ مذہب اور حب الوطنی کے نام پر عوام سے دھوکہ کرتے رہے ہیں۔جھوٹ ‘مکر‘فریب‘ دھوکہ دہی اور استحصال پر مبنی جو عمارت حکمرانوں نے تعمیر کر رکھی تھی وہ وقت کے ہاتھوں مسمار ہوتی نظر آ رہی ہے‘لیکن بنیاد ابھی باقی ہے۔حکمران اسی پرانی بنیاد پر نئی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن عوام کو یہ پرانی عمارت سے مختلف نظر نہیں آتی۔ وہ کیسے اعتبار کر لیں کہ جو حکمران اب تک ان کو درپیش مسائل سے مکمل بے اعتنائی اختیار کرتے ہوئے ‘اپنے محدود اور سیاسی تنگ نظری پر مبنی مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہے ہیں‘ اب اچانک اُن کے ہمدرد اور ساتھی بن گئے ہیں۔عوام اور حکمران طبقے کے درمیان بڑھتے ہوئے یہ فاصلے اور اعتماد کا فقدان ہی دراصل ہمارے قومی المیے کی بنیاد ہے اور یہ فاصلے اور عدم اعتماد صرف اسی صورت دور ہو سکتا ہے جب حکمران حقیقت پر پردہ ڈالنے کی روش ترک کر دیں اور جو بھی پالیسیاں یا حکمت عملی تشکیل دیں‘پہلے عوام کو اعتماد میں لیں ۔لیکن کیا موجودہ حکمران ایسا کر سکتے ہیں؟
تجربہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات میں اپنے رویے میں بنیادی تبدیلی لانے کی سکت نہیں۔ورنہ 1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی سبق سیکھا ہوتا۔اس کے برعکس بلوچستان میں مشرقی پاکستان کی ہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔پاکستان گزشتہ 35برس سے افغانستان کے مسئلے میں الجھا ہوا ہے یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ جب سال 1979ء کے آخری دنوں میں سابقہ سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر کے ملک پر قبضہ کیا‘تو ہمارے ہاں ایک فوجی آمر کی حکومت تھی۔اگر ضیاء الحق کی جگہ کوئی منتخب سویلین حکمران ہوتا‘تو گزشتہ تین دہایوں سے زائد عرصہ کی تاریخ مختلف ہوتی ۔اس لیے کہ سیاسی حکومتوں میں مسائل کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر مبنی سمجھوتوں کے ذریعے انہیں حل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔1951ء میں جب بھارت اور پاکستان اپنے اپنے ہاں اقلیتوں کے خلاف بلووں اور فسادات کی وجہ سے جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے‘تو پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے بھارتی ہم منصب پنڈت نہرو کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے‘ جو لیاقت نہرو پیکٹ کے نام سے ابھی تک قائم اور کارآمد ہے۔1972ء میں طے پا جانے والا شملہ پیکٹ اسی نوعیت کی دوسری مثال ہے‘ جس پر ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی نے دستخط کئے تھے۔یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ شملہ معاہدہ پر دستخط کرنے کے بعد سے اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ نہیں ہوئی۔
اسی لئے اگر دہشت گردی کی بیخ کنی مقصود ہے تو اس کے خلاف جنگ کی قیادت ہی عوام کی منتخب جمہوری سویلین حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔اور عوام کا مکمل اعتماد اور بھر پور تعاون حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اعتراف کریں کہ ماضی کی پالیسیاں خواہ اُن کا تعلق افغانستان سے ہو یا طالبان سے‘غلط تھیں۔صرف یہی کافی نہیں بلکہ حکمرانوں کو یقین دلانا ہو گا کہ اب وہ جس راہ پر چلنے جا رہے ہیں ۔وہ پرانے راستے سے مختلف ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک اور ''یو ٹرن‘‘لیں۔ اس دفعہ جو ''یو ٹرن‘‘ لیا جائے گا‘وہ ضیاء الحق اور مشرف کے ''یو ٹرن‘‘ کو ''اوور ٹرن‘‘ (Overturn)کرنے کے لیے لیا جائے گا۔اسی طرح ہم مولانا رومؒ کے ارشاد کے مطابق ایک نئی عمارت کے لیے ایک بالکل نئی اور مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔