ایک اطلاع کے مطابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری رواں ماہ کے آخری عشرے میں پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ بنیادی طور پر سیکرٹری کیری پاک امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان یہ خصوصی تعلق 2010ء میں قائم کیا گیا تھا‘ جس کے تحت امریکہ نے پاکستان کی قومی ترقی میں امداد فراہم کرنے کے لیے مالی اور تکنیکی تعاون کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ مالی امداد اور تعاون کا یہ منصوبہ تقریباً تیرہ شعبوں پر محیط ہے۔ جن میں توانائی‘ انفراسٹرکچر‘ ذرائع آبپاشی‘ زراعت‘ صنعت‘ سائنس اور ٹیکنالوجی‘ صحت‘ تعلیم‘ ماحولیات‘ دفاع اور سلامتی‘ جمہوریت اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ بھی شامل ہیں۔ 2010ء میں اس پروگرام کے تحت امریکی اور پاکستانی ماہرین کے درمیان تین اجلاس ہوئے تھے لیکن مئی 2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر امریکی حملے کی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا؛ تاہم دونوں ملکوں کے تعلقات میں آہستہ آہستہ بہتری آنے کی وجہ سے 2013ء میں سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے عمل کو بحال کر دیا گیا تھا۔ اس عمل کی بحالی کے بعد یہ دوسری میٹنگ ہے جو اسلام آباد میں ہو رہی ہے اور اس میں جان کیری شرکت کریں گے۔ اس سے قبل گزشتہ سال دسمبر میں واشنگٹن میں پہلی میٹنگ ہوئی تھی جس میں وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز اور خصوصی معاون برائے قومی سلامتی طارق فاطمی نے شرکت کی تھی۔ اس وقت پاک امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کا فوکس جن امور پر ہے ان میں توانائی‘ سلامتی‘ سٹریٹیجک سٹیبیلٹی (Strategic stability) انسداد دہشت گردی‘ نفاذ قانون‘ ایٹمی ہتھیاروں کا عدم پھیلائو اور معیشت شامل ہیں۔ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کا عمل اگرچہ 2011ء سے 2013ء
تک تعطل کا شکار رہا اور اب اس کے سکوپ کو بھی محدود کر دیا گیا ہے؛ تاہم اس فریم ورک میں پاکستان کو کئی شعبوں میں امریکی امداد سے فائدہ پہنچا ہے۔ مثلاً پاکستان کے شمال خصوصاً افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں تجارت اور آمدورفت میں سہولیات فراہم کرنے کے لیے جو سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں‘ ان کی لمبائی 900 کلو میٹر ہے۔ ان میں چار بڑی شاہراہیں ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گی۔ توانائی کے شعبے میں امریکی مالی اور تکنیکی امداد سے پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں 1000 میگاواٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح تعلیم کے شعبے میں امریکی امداد سے تقریباً 600 کے قریب سکولوں کی مرمت اور نئے سازو سامان سے آراستگی کا اہم کام مکمل کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی اور کالج سطح کے اساتذہ کو مزید اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے امریکہ کا مشہور فُل برائٹ پروگرام عالم گیر سطح پر کام کر رہا ہے لیکن اس وقت پاکستان سے جن اساتذہ اور ماہرین کو اس پروگرام کے تحت امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم اور تربیت کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں‘ ان کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ تقریباً 12000 طلبا کو تعلیمی وظائف پر امریکہ جا کر تعلیم حاصل کرنے کا موقع حاصل ہوا ہے۔
جان کیری کا یہ دورۂ پاکستان کئی اور لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ایک ایسے وقت پر پاکستان تشریف لا رہے ہیں جب ایک طرف پاک افغان تعلقات میں بہتری کی وجہ سے ہماری مغربی سرحدوں پر امن اور سکون کے امکانات بڑھ رہے ہیں لیکن مشرقی سرحدوں پر لائن آف کنٹرول کے اُس پار سے بھارت کی بلااشتعال جارحیت کی وجہ سے پورے خطے میں امن اور استحکام کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اگرچہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور امریکہ نے دونوں ملکوں پر احتیاط سے کام لینے اور تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ خصوصاً ایک ایسے مرحلے پر جب کہ پاکستان کی حکومت اور عوام متحد ہو کر دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی کرنے کا عزم کر چکے ہیں‘ بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے اُس پار سے پاکستانی علاقوں پر مسلسل فائرنگ کا سلسلہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے کیونکہ اس سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔ بھارت کی طرف سے اس موقع پر شدید فائرنگ‘ جن میں مارٹر گولوں کا استعمال بھی شامل ہے‘ کا واحد مقصد پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے حکومت اور عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔ چونکہ انسداد دہشت گردی‘ پاک امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کا ایک موضوع ہے اور جان کیری اس پروگرام کے تحت اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لا رہے ہیں‘ اس لیے انہیں لائن آف کنٹرول پر بھارت کی بلاجواز فائرنگ اور گولہ باری کا نوٹس لینا چاہیے اور نہ صرف بھارت سے اس کے فی الفور تدارک کا مطالبہ کرنا چاہیے بلکہ نئی دہلی پر زور دینا چاہیے کہ وہ دوطرفہ مذاکرات کے عمل ''کمپوزٹ ڈائیلاگ‘‘ کو بحال کر کے پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کا آغاز کرے۔ جان کیری کا دورۂ پاکستان اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ جن دنوں وہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے سلسلے میں پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہوں گے‘ امریکی صدر بارک اوباما نئی دہلی میں بھارتی حکومت کے مہمان ہوں گے۔ اپنے دورِ اقتدار میں صدر اوباما کا یہ دوسرا دورۂ بھارت ہے اور اس دفعہ وہ بھارت کے یوم جمہوریہ (27 جنوری) کی تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گے۔ اس سے امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا پتہ چلتا ہے۔ خود جان کیری بھی پاکستان آنے سے قبل بھارت جائیں گے جہاں وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر ایک انویسٹمنٹ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان روزافزوں تعلقات کے پس منظر میں اور بھارت میں صدر اوباما کی موجودگی کے پیش نظر‘ جان کیری کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کا ایک سنہری موقع ہے اور پاکستان بجا طور پر توقع کر سکتا ہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ بھارت کو پاکستان کے بارے میں اپنی جارحانہ روش ترک کرنے اور بات چیت کا راستہ اپنانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
جان کیری کے دورۂ پاکستان کے موقع پر یقینا اُن تمام امور پر بات چیت ہوگی جو پاک امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کا حصہ ہیں لیکن پاک بھارت کشیدگی کے علاوہ مزید جن دو امور پر بات چیت اور تبادلۂ خیالات کی توقع ہے‘ وہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان اور پاک افغان تعلقات خصوصاً دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد پر سکیورٹی کے انتظام کو مزید مضبوط بنانا ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی چونکہ امریکہ کے لیے بھی وجہ تشویش رہی ہے‘ اس لیے جان کیری یقینا اپنے ملک کی طرف سے اس کی حمایت کا اعلان کریں گے‘ بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک امریکہ تعاون کو مزید وسیع کرنے پر بھی بات چیت ہوگی۔ جن اقدامات پر غور ہو سکتا ہے ان میں پاک امریکہ دوطرفہ تعاون میں فروغ کے علاوہ پاکستان‘ افغانستان اور امریکہ کے درمیان سہ فریقی تعاون اور ایک جامع اور ٹھوس حکمت عملی پر غور بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر کنٹرول اور مینجمنٹ اور دہشت گردوں کے خلاف پاک افغان تعاون لازمی شرط ہے۔ جان کیری اور اُن کا ملک بھی یقینا اس کی حمایت کرے گا۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کے دورۂ پاکستان اور پاکستانی حکام سے ان کی ملاقاتوں کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ملکوں میں پہلے سے موجود تعاون کو مزید فروغ حاصل ہو گا بلکہ پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات میں بھی بہتری اور گرم جوشی کے جس عمل کا آغاز ہوا ہے‘ اس میں مزید تیزی کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر صدر اوباما اور جان کیری بھارتی رہنمائوں کے ساتھ اپنی بات چیت میں نئی دہلی کو اسلام آباد کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے امن اور صلح پر راغب کر سکیں تو یہ جنوبی ایشیا کے امن کے لیے ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔