"DRA" (space) message & send to 7575

خوش آئند پیش رفت

امن ایک آفاقی قدر اور انسانی معاشرے کی بقاء کیلئے انتہائی ضروری شرط ہے۔یہی وجہ ہے کہ دُنیا بھر کے ممالک کے لیے قائم بین الاقوامی تنظیم‘اقوام متحدہ کا اولین مقصد امن عالم اور سلامتی کا قیام ہے۔ہر مُلک کی خارجہ پالیسی میں اولین ترجیح ایک پُرامن ماحول کے حصول کو حاصل ہے۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ امن کے بغیر نہ تو معاشی ترقی کا حصول ممکن ہے اور نہ ہی آپ ثقافتی‘سماجی اور سیاسی شعبوں میں کامیابی اور استحکام حاصل کر سکتے ہیں۔
اگرچہ دُنیا کے ہر مُلک اور قوم کو امن کی ضرورت ہے اور ہر معاشرہ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ اس کے حصول کے لیے محو جُستجو ہے ‘ لیکن بعض صورتوں میں حالتِ امن کسی مُلک اور قوم کے لیے لازمی ہی نہیں بلکہ اشد ضروری ہو جاتی ہے۔ایسے ہی معاملات ہمارے ملک پاکستان کو درپیش ہیں۔جن چیلنجوں کا ہمیں آج سامنا ہے‘ ان کا ہم اس وقت تک کامیابی سے مقابلہ نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنی سرحدوں کے اندر اور سرحدوں پر امن کو مستحکم نہیں کرتے۔ اس حقیقت کے اعتراف کے طور پر موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنی خارجہ پالیسی میں ہمسایہ ملک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ پُرامن اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کے فروغ کو اولین ترجیح دینے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ مئی میں نومنتخب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں جناب محمد نواز شریف کا دہلی تشریف لے جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔جناب نواز شریف کی طرف سے خیر سگالی کے اظہار کے ابتدائی نتائج کافی حوصلہ افزا تھے‘ کیوں کہ دونوں وزرائے اعظم نے اپنی ملاقات میں دو طرفہ مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا اور اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے 
سیکرٹری خارجہ کی بات چیت بھی طے ہوگئی تھی‘ مگر جولائی میں بھارتی حکومت نے سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات کو یک طرفہ طور پر منسوخ کر کے‘پاک بھارت امن مذاکرات کے احیاء کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔اس کے ساتھ ہی کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ میں اضافہ کر کے سرحدی کشیدگی میں اضافہ کر دیا۔حال ہی میں بھارت کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں پاکستانی رینجرز کے دو جوان شہید ہوئے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری مشرقی سرحدوں پر امن کی حالت کتنی مخدوش ہے۔
لیکن خوش قسمتی سے ہماری مغربی سرحدوں پر یعنی افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔دونوں ملکوں نے مل کر مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اعلان کیا ہے اور اس سمت عملی طور پر اہم اقدامات بھی کئے ہیں۔ان میں ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے دونوں ملکوں کے سرحدوں کے اندر پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ پاکستان نے تو اس سلسلے میں وسط جون میں ہی کارروائی شروع کر دی تھی۔شمالی وزیرستان میں جن دہشت گردوں نے پناہ گاہیں قائم کر رکھی تھیں‘ پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب نے ان کے کمانڈ اور کنٹرول سسٹم کو تباہ کر کے انہیں بے اثر بنا دیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں گرم جوشی اور مفاہمت کے عمل کا آغاز موجودہ افغان صدر جناب اشرف غنی کے انتخاب کے بعد ہی ہو گیا تھا۔عہدہ سنبھالنے کے بعد جن ملکوں کا انہوں نے سب سے پہلے دورہ کیا‘ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔دوسرے ممالک سعودی عرب اور چین تھے۔ افغان صدر کا ان ممالک کا دورہ اور وہاں کی قیادت سے ان کی بات چیت بھی پاکستان کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے‘ کیوں کہ یہ دونوں ممالک پاکستان کے انتہائی قریبی دوست اور خیر خواہ شمار ہوتے ہیں ۔پاکستان کے دورہ کے دوران افغان صدر نے ملک کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان جن اہم امور پر تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق ہوا‘ ان میں سرحد کے آر پار لوگوں کی آمدو رفت پر نظر رکھنے کے علاوہ دہشت گردی کے خلا ف مشترکہ جنگ بھی شامل تھی۔
16دسمبر کے سانحۂ پشاور نے جہا ں پوری پاکستانی قوم کو متحد کر دیا ہے ‘ وہاں پاکستان کے لیے دو ہمسایہ ممالک یعنی افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں خیر سگالی اور تعاون کے نئے مواقع بھی پیدا کر دیئے ہیں۔بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے نہ صرف اس بہیمانہ واقعہ کی پر زور الفاظ میں مذمت کی‘ بلکہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ٹیلیفون پر ہمدردی کا بھی اظہار کیا۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ میں 134معصوم بچوں کی شہادت پر نہ صرف اظہار غم کے طور پر دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی‘بلکہ بھارت کے کئی شہروں میں کالجوں اور سکولوں کے طلباء اور طالبات نے آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کے ساتھ مختلف انداز میں اظہار یکجہتی بھی کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ راشٹریہ سوائم سیوک سنگ(آر ایس ایس) کی مسلم دشمنی کارروائیوں اور ان کارروائیوں پر بی جے پی حکومت کی مجرمانہ خاموشی نے خیر سگالی کے ان جذبات کو امن کی جانب ٹھوس اقدام میں تبدیل نہیں ہونے دیا؛ تاہم افغانستان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا اظہار کیا گیا‘ بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھر پور تعاون کی پیش کش بھی کی گئی۔ اس کا عملی مظاہرہ افغانستان کے صوبہ کُنڑ میں مقیم پاکستانی طالبان کے خلاف افغان فوج کی کارروائی ہے‘ جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک‘افغان تعاون محض اس کارروائی تک محدود نہیں‘ بلکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دونوں ملکوں کی افواج سرحد پر فلیگ میٹنگوں کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کر رہی ہیں۔پاکستان اور افغانستان کی افواج میں اس تعاون کی بنیاد رکھنے میں‘پاک بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔پشاور کے اندوہناک واقعہ کے فوراً بعد ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ وہ کابل پہنچے‘ جہاں انہوں نے افغانستان کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کر کے‘ انہیں افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر آمادہ کیا۔ اس سے قبل اوائل نومبر میں بھی جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا دورہ کیا تھا۔اس دورہ میں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ‘عبداللہ عبداللہ کے علاوہ وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی‘ چیف آف دی جنرل سٹاف جنرل شیر محمد کریمی سے بھی ملاقاتیں کیں۔ پاکستان اور افغانستان کی فوجوں کے درمیان تعاون کی جو نئی راہیں کھلی ہیں‘ وہ ان ملاقاتوں کا ہی نتیجہ ہیں۔اس تعاون کو بین الاقوامی سطح پر بہت سراہا جا رہا ہے‘ خصوصاً امریکہ نے اس پر بڑے اطمینان کا اظہار کیا ہے‘ کیوں کہ امریکی حکام گزشتہ 13سال سے پاکستان اور افغانستان کو القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ میں ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ امید ہے کہ آنے والے چند ماہ میں یہ تعاون مزید بڑھے گا‘ کیوں کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پاکستان اور افغانستان کو نئے اور پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین چیلنج درپیش ہوں گے۔ ان سے کامیابی سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو مزید زیادہ قریب آنا پڑے گا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے‘ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت اس پر پوری طرح آمادہ ہے‘ کیوں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیوں کا خاتمہ ‘ اعتماد کی بحالی اور قریبی تعاون نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے ‘ بلکہ اس کے بغیر ان دونوں ملکوں کے لیے ترقی‘ خوشحالی‘امن اور استحکام کا وہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہونا محال ہو گا جو پاکستان کی منتخب اور جمہوری حکومتوں نے دیکھ رکھا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں