سری لنکا‘ جسے ماضی میں سیلون (Ceylon)اور سراندیپ کے نام سے بھی پکاراجاتا تھا،بحرہند سے گزرتی ہوئی مشرق اور مغرب کو ملانے والی دنیا کی مصروف ترین تجارتی شاہراہوں کے عین وسط میں واقع ایک بڑے جزیرے پر مشتمل چھوٹا سا ملک ہے۔آبادی تین کروڑ سے بھی کم ہے لیکن اس کی اہمیت نہ تو اس کے رقبے اور نہ آبادی کی وجہ سے ہے بلکہ اس کی بنیاد اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے جو اسے بحر ہند کے خطے کی دفاعی حکمتِ عملی میں خصوصی کردارکا مالک بناتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں‘ جن کے مفادات بحر ہند کے خطے سے وابستہ ہیں، سری لنکا سے خصوصی اور قریبی تعلقات کی خواہاں رہتی ہیں‘ لیکن بھارت کیلئے یہ امر باعثِ تشویش بن جاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سری لنکا کو بھارت سے جدا کرنے والی صرف ایک تنگ آبی گزرگاہ ہے۔بھارت سری لنکا کو اپنے حلقہ اثر میں شامل ایک ملک سمجھتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا کے نہ صرف خارجی معاملات بلکہ اندرونی سیاست پر بھی بھارت گہری نظر رکھتا ہے۔بھارت کے اس رویے کی پشت پر صرف تاریخی اور جغرافیائی عوامل کار فرما نہیں بلکہ سری لنکا کے شمال اور شمال مشرقی حصوں میں آباد تامل نسل کی ہندو آبادی ہے جن کے آبائو اجداد کو انگریز اپنے نو آبادیاتی دور میں یہاں ربڑ اور چائے کے باغات میں کام پر لگانے کیلئے لائے تھے۔سری لنکا کو گذشتہ تیس برسوں سے تامل بغاوت کا سامنا تھاجسے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے صدر مہندراج پکش کی حکومت نے فوجی طاقت سے ختم کر دیا تھا۔تامل باغیوں کی شورش کے اس خاتمے کو سری لنکا میں ایک بہت بڑا واقعہ قرار دیا جاتا ہے‘ جس کا کریڈٹ راج پکش لیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر ان کو امید تھی کہ سری لنکا کے عوام انہیں تیسری بار مزید چھ سال کیلئے صدر منتخب کر لیں گے‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ان کے مقابلے میں نسبتاً کم شہرت رکھنے والے امیدوار مائتھری پالاسری سینا،جن کا تعلق نہ صرف سابق صدر کی سیاسی جماعت ''ـسری لنکن فریڈم پارٹی‘‘ سے تھا بلکہ وزیر صحت کی حیثیت سے ان کی کابینہ کے رکن بھی تھے‘ غیر متوقع طور پر کامیاب ہوگئے ہیں۔ اگرچہ وہ سابق صدر کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے نہیں جیتے،تاہم ان کی جیت کو اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے کہ اس سے نہ صرف سری لنکا کی اندرونی سیاست میں نئے رجحانات سامنے آئے ہیں بلکہ حکومت کی اس تبدیلی سے خطے کے سیاسی ماحول میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیںکیونکہ راج پکش کو تامل بغاوت کو کچلنے کے زعم میں اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین تھا۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی صدارت کی دوسری مدت ختم ہونے سے دوسال قبل ہی صدارتی انتخاب کا اعلان کر دیا تھا۔اس کے علاوہ سابق صدر کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے دوسری بڑی سیاسی پارٹی یعنی یونائیٹڈ نیشنل پارٹی(UNP) جوگذشتہ دس برس سے اقتدار سے باہر تھی،سخت انتشارکا شکار تھی۔ راج پکش کو عملی طور پر ایک بہت کمزور اور منتشر اپوزیشن کا سامنا تھا‘ اس لیے انہیں اپنی کامیابی پر رَتی بھر بھی شک نہیں تھالیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ''گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ ان کی اپنی ہی پارٹی اور حکومتی ٹیم کے رکن سری سینا نے علم بغاوت بلند کر کے راج پکش کو چیلنج کر دیا۔ اپوزیشن پارٹی یو این پی نے بھی سری سینا کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ راج پکش کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب ایک سابق صدر چندریکاکمارا ٹنگا جن کا تعلق سری لنکن فریڈم پارٹی سے ہے،نے بھی راج پکش کی مخالفت کا اعلان کر کے حزب مخالف کے امیدوار کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔سری لنکا کی75فیصد آبادی سنہالی نسل سے تعلق رکھتی ہے اور بدھ مت کی پیروکار ہے۔اقلیتوں میں سب سے بڑی تعداد تامل نسل کے لوگوں کی ہے جو آبادی کا گیارہ فیصد ہیں۔اس کے بعد مسلمان ہیں جو ملک کی کل آبادی کا9.2فیصد ہیں۔سابق صدر راج پکش اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ان دونوں اقلیتوں کی حمایت کھو چکے تھے اور ان کی کامیابی کا سارا دارومدارسنہالی اکثریتی آبادی کی حمایت پر تھا‘ لیکن سری سینا کا تعلق بھی سنہالی نسل سے ہے۔انہوں نے اپنی حکمت عملی کے ذریعے ایک طرف اقلیتوں کی مکمل حمایت حاصل کرلی اور دوسری طرف سنہالی آبادی کے ایک حصے کو بھی اپنے حق میں ہموار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔سرسینا نے تقریباََ وہی حکمت عملی اپنائی جس کے ذریعے امریکہ میں صدر اوباما دوسری مدت کیلئے کامیاب ہوئے تھے‘ یعنی انہوں نے تارکین وطن (Immigrants) اور سیاہ فام لوگوں کی مکمل حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سفید فام نسل کے امریکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد کو اپنا ہمنوا بنالیا اور یوں وہ کامیاب ہوگئے۔سری سینا کی کامیابی کو یقینی بنانے میں ایک اور عنصر حکمران پارٹی یعنی فریڈم پارٹی میںپھوٹ کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
غیر جانبدارمبصرین کے مطابق راج پکش کی شکست میں دوعوامل نے اہم کردار اداکیاہے۔ایک یہ کہ انہوں نے تمام ریاستی اختیارات اپنے ہاتھ میںلے کر عملی طور پر آمرانہ حیثیت اختیار کر لی تھی۔دوسرے ان پر کرپشن اور اقربانوازی کے بھی شدید الزامات عائد کیے جا رہے تھے۔انتخابی مہم کے دوران سری سینا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر ملک کے صدارتی نظام کو پارلیمانی نظام میں تبدیل کردیں گے۔کامیابی کے بعد انہوں نے حزب مخالف کے رہنما رانیل و کرم سنگھے کو وزیراعظم مقرر کر دیا جسے مبصرین پارلیمانی جمہوریت کی طرف پہلا قدم قرار دے رہے ہیں۔
مبصرین کی رائے میں سری لنکا میں حکومتی تبدیلی ملک کی اندرونی اور خارجہ پالیسیوں میں اہم تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔اندرونی طور پر نہ صرف صدارتی طرز حکومت کی پارلیمانی نظام میں تبدیلی متوقع ہے،بلکہ سابقہ صدر راج پکش کے دور میں اقلیتوں خصوصاََ تامل نسل کے باشندوں اور مسلمانوں کو جو شکایات اور مشکلات درپیش تھیں،ان کا ازالہ بھی کیا جائے گا۔سابقہ حکومت نے تامل علیحدگی پسند تنظیم ایل ٹی ٹی ای (LTTE) کو2009ء میں کچلنے کے بعد بے گھر اور طویل جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہونے والی تامل آبادی کی آبادکاری اور بحالی کو نظر انداز کیے رکھا تھا۔اس پر سابق صدر کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔اس کے علاوہ دوسال قبل انتہا پسند بدھ بھکشوں کی تنظیم بدھ بالاسینا کے ہاتھوں سری لنکا کی مسلم آبادی پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی راج پکش کی حکومت نے خاموشی سادھ رکھی
تھی۔امید ہے کہ نئے صدر سری سینا کی حکومت اقلیتوں کے اعتماد کو بحال کر کے ان کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرے گی اور ان کے نقصانات خصوصاََ مسلمانوں کی جائیدادوں کو جو نقصان پہنچا تھا،کی تلافی کرے گی۔
اندرونی سیاسی محاذ کے علاوہ سری لنکا کی خارجہ پالیسی میں بھی اہم اور دور رس تبدیلیوں کی توقع کی جارہی ہے۔سابقہ صدر راج پکش کے دور میں سری لنکا اور چین کے درمیان بڑے قریبی اور گہرے تعلقات قائم ہوئے تھے۔ان میں تجارت‘ اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کے شعبے شامل ہیں۔چین نے سری لنکاکے متعدد شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی ہے۔جو منصوبے چین کی سرمایہ کاری اور تکنیکی امداد سے مکمل کیے جارہے ہیں ان میں دارالحکومت کو لمبو کے نزدیک گہرے پانی کی ایک بندرگاہ، شاہراہیںاور رہائشی مکانات کی تعمیر بھی شامل ہے۔سری لنکا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ پر صرف بھارت کو ہی نہیں بلکہ امریکہ ،آسٹریلیا اور جاپان کو بھی سخت تشویش لاحق تھی کیونکہ یہ ممالک بحر ہندکے علاقے میں چینی اثرورسوخ کی موجودگی کو اپنے سٹریٹجک مفادات کے منافی سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سابقہ حکومت کے دور میں سری لنکا نے تامل بغاوت کو کچلنے میں چین اور پاکستان سے حربی امداد حاصل کی تھی۔اگرچہ نئے صدر نے سری لنکا اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی مخالفت نہیں کی اور غالب امکان یہی ہے کہ چین اور سری لنکا کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون میں اضافے کا رجحان قائم رہے گا کیونکہ یہ نہ صرف دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے،بلکہ کسی تیسرے ملک کے مفاد کے خلاف نہیں؛ تاہم نئی حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کرے گی۔