"DRA" (space) message & send to 7575

دہلی میں بی جے پی کا صفایا

دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں اروند کجری وال کی ''عام آدمی پارٹی‘‘ کی باقی پارٹیوں خصوصاً بی جے پی کے مقابلے میں کامیابی کی پیشین گوئیاں تو سب کر رہے تھے، لیکن ''عام آدمی پارٹی‘‘ اپنے حریفوں کو اس طرح پچھاڑے گی، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اسمبلی کی 70 میں سے67 نشستوں پر قبضہ کر کے ایک بالکل نئی اور ایک عام آدمی کی قیادت میں ابھرنے والی سیاسی پارٹی نے بھارت کی انتخابی سیاست میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ صرف نو ماہ پیشتر ملک کے عام پارلیمانی انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے والی ہندو قوم پرست بی جے پی کو ان ہائی پروفائل انتخابات میں صرف تین نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ انتخابی معرکے میں کانگرس اور بہوجن سماج پارٹی نے بھی حصہ لیا‘ لیکن ان میں سے کوئی پارٹی ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔ مبصرین اور تجزیہ نگار بی جے پی کی اس عبرتناک شکست اور ''عام آدمی پارٹی‘‘ کی فقیدالمثال کامیابی کا مختلف زاویوں سے جائزہ لے رہے ہیں‘ اور اسے متعدد عوامل کا رہین منت قرار دے رہے ہیں‘ لیکن عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کی حاصل کردہ نشستوں میں انتے زیادہ فرق پر سب حیران ہیں۔
اگرچہ اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ مئی 2014ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت کا پاپولیرٹی گراف کافی نیچے آیا ہے؛ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی انتخابی عمل میں براہ راست اور ذاتی مداخلت اب بھی پارٹی کیلئے کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ اس کا مظاہرہ گذشتہ برس نومبر میں ریاست چھتیس گڑھ اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے ریاستی انتخابات کے نتائج کی شکل میں ہو چکا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو تسلی بخش کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اسی طرح اکتوبر میں مہاراشٹر اور ہریانہ میں بھی بی جے پی نے اپنی حریف جماعت کو چت کر کے نمایاں کامیابی
حاصل کی تھی۔ ان ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی انتخابی مہم میں براہ راست شرکت اور جلسوں سے خطاب کا بڑا ہاتھ تھا‘ بلکہ ان انتخابات کے نتائج کی روشنی میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ مئی 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو حیران کن کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ''مودی ویو‘‘ ابھی زندہ ہے اور وہ بھارت کے کسی بھی حصے میں اپنا اثر ظاہر کر سکتا ہے۔ یہی سوچ کر وزیر اعظم نریندر مودی دہلی کے معرکے میں کودے تھے۔ انہیں پکا یقین تھا کہ جس طرح مئی 2014ء کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو بی جے پی کے مقابلے میں بھاری شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا، اسی طرح وہ حالیہ انتخابات میں بھی بْری طرح ہار جائے گی۔ عام آدمی پارٹی نے 2013ء کے ریاستی انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگرس پر برتری حاصل کر کے اسمبلی کی 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی‘ مگر اس کی حکومت صرف 49 دن قائم رہ سکی تھی۔ بی جے پی اور کانگرس کے رویہ کے باعث اروند کجری وال نے فروری 2014ء میں وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا‘ لیکن اب تو اروند کجری وال نے 54.3% ووٹ حاصل کر کے 70 میں سے 67 نشستیں جیت لی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ عام آدمی پارٹی نے دہلی میں جھاڑو پھیر کر اسمبلی میں اپنی حریف جماعتوں کا تقریباً صفایا کر دیا ہے‘ تو مبالغہ نہ ہو گا۔ دہلی اسمبلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی اس عہد ساز کامیابی اور بی جے پی کی عبرتناک شکست کی کیا وجوہ ہیں؟ اس پر مختلف حلقے مختلف آرا ظاہر کر رہے ہیں۔ ایک رائے کے مطابق عام آدمی پارٹی نے دہلی کی اکثریتی آبادی‘ جو غریب اور متوسط طبقوں پر مشتمل ہے، کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ وہ
انہیں بہتر گورننس مہیا کر سکتی ہے اور اس کا ثبوت پارٹی کے گذشتہ 49 روز کے دورِ حکومت کی شکل میں موجود ہے جس کے دوران عوام کو ناصرف بجلی اور پانی کے درست بل موصول ہونا شروع ہو گئے تھے، بلکہ اْن کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے والی دہلی پولیس نے بھی اپنا رویہ درست کر لیا تھا۔ عام آدمی پارٹی کا سارا زور غریبوں کی خدمت پر ہے‘ لیکن اسے اْنہوں نے اپنے سیاسی پروگرام میں اس طرح شامل کیا ہے کہ اس سے طبقاتی کشمکش یا طبقاتی منافرت پھیلنے کی بجائے، سبھی طبقات اپنے لیے سود مند سمجھتے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر پی کے دَتہ کے مطابق عام آدمی پارٹی نے طبقاتی سیاست کو ایک نئی زبان عطا کی ہے‘ جسے تمام طبقات ناصرف سمجھتے ہیں بلکہ اس میں ہر ایک کو اپنا فائدہ بھی نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ مئی2014ء میں لوک سبھا کے انتخابات میں شکست کے بعد عام آدمی پارٹی بددلی یا انتشار کا شکار نہیں ہوئی بلکہ اس نے اپنی صفوں کو درست کر کے عوام کے ساتھ رابطہ برقرار رکھا۔ اس کے رضاکاروں نے عوامی خدمت پر مشتمل ایک نئی طرزِ سیاست کو رْو شناس کرایا‘ جس سے لوگوں کی بھاری تعداد متاثر ہوئی اور اْنہیں یقین ہو گیا کہ یہ ایک ایسی پارٹی ہے جو نعروں کی بجائے عمل پر یقین رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے دہلی کے لوگوں نے علاقائی، طبقاتی، مذہبی معاملات اور ذات پات سے بالاتر ہو کر عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیے۔ اس کے مقابلے میں نریندر مودی کی حکومت نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا بلکہ بی جے پی حکومت کی آڑ میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگ (آر ایس ایس) نے مذہبی اقلیتوں خصوصاً عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف جو مہم چلا رکھی ہے، اْس سے پورے بھارت میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ اعتدال پسند اور سیکولر سوچ رکھنے والے حلقے، نریندر مودی کی حکومت کی پالیسیوں کو ملک کے اتحاد اور یگانگت کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
گذشتہ 9 ماہ میں نریندر مودی کی حکومت کی کارکردگی سے بھی لوگ مایوس ہیں‘ اور یہ تاثر تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کا مقصد غریبوں کی فلاح کی بجائے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے مفاد کو تحفظ دینا ہے۔ گذشتہ 9 ماہ کے دوران میں بی جے پی کے پلیٹ فارم سے چند ایسے اعلانات بھی کیے گئے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ لوک سبھا کے انتخابات میں کامیابی کے نشے میں پارٹی آر ایس ایس کے انتہا پسند ہندو قوم پرستی ''ہندوتوا‘‘ کے ایجنڈے کو پورے ملک پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اس سے بھارت میں بسنے والے دوسرے مذاہب کے پیروکار عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے ان تمام عناصر نے جو آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف ہیں، بی جے پی کی کھل کر مخالفت کی اور عام آدمی پارٹی کا بھرپور ساتھ دیا۔ مبصرین کے مطابق دہلی میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی دراصل بی جے پی کے صدر امیت شاہ کی شکست ہے۔ اْس کی انتخابی حکمتِ عملی کا کھوکھلا پن پوری طرح عیاں ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ دہلی کے عوام کا یہ فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی کیلئے بھی ایک بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ اصل میں تشویش ناک بات دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بی جے پی کی شکست نہیں بلکہ اس شکست کا مارجن ہے جو نریندر مودی کو اپنی حکومتی پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور کر دے گا۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ دہلی کے ریاستی انتخابات کے نتائج بھارت کے دیگر حصوں پر کیا اثرات مرتب کریں گے؛ تاہم یہ عام طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی نے ملک کے شہری علاقوں میں سیاست کی ایک نئی طرز کو متعارف کرایا ہے۔
شہری علاقوں میں متوسط اور نچلے متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ جوکل تک بی جے پی کے ساتھ تھے، مایوس ہو کر اب عام آدمی پارٹی کی طرف کھنچے چلے آ رہے ہیں کیونکہ اروند کجری وال کی پارٹی اچھی گورننس کا عملہ مظاہرہ کر چکی ہے۔ بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات تو ابھی دور ہیں لیکن کئی ریاستوں میں اس سال اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان میں بِہار بھی شامل ہے جو آبادی کے لحاظ سے اْتر پردیش کے بعد سب سے بڑی ریاست ہے۔ بِہار کے سابق وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ اسی سال بِہار میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں دہلی کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ دہلی کے انتخابی نتائج نے بھارت میں بی جے پی کی مخالف پارٹیوں کو ایک نیا حوصلہ اور تقویت بخشی ہے۔ اہم سیاسی رہنمائوں نے عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کجری وال کو اس شاندار کا میابی پر مبارک باد پیش کی ہے۔ ترینا مول کانگرس کی رہنما اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے تو اس کامیابی پر اپنی ریاست میں جشن منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت کی بیشتر اپوزیشن پارٹیوں نے دہلی انتخابات میں اپنے اْمیدواروں کو عام آدمی پارٹی کے اْمیدواروں کے حق میں دست بردار ہونے کی ہدایت کی تھی۔ ان میں ممتا بینرجی کی پارٹی ترینا مول کانگرس اور نتیش کمار کی پارٹی جنتا دَل یونائیٹڈ بھی شامل تھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں