2004ء میں پاکستان اور بھارت نے دوطرفہ بنیاد پر امن مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات خصوصاً مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کر کے باہمی تعلقات کو معمول کی سطح پر لانا تھا۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ ایک آدھ بار تعطل کا شکار ہوا اور پچھلے چند ماہ سے بھی تعطل کا شکار تھا لیکن اب مذاکرات کی بحالی کے امکانات ایک بار پھر روشن ہو رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر اعظم نواز شریف کو خیرسگالی فون کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اب تک دوطرفہ تنازعات کے حل کی طرف کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہوئی؛ تاہم مذاکرات کے اس سلسلے کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مواصلاتی رابطوں اور تجارت کے شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کیلئے چند اہم اور سود مند اقدامات پر اتفاق ہوا۔ ان میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار کشمیریوں کے منقسم خاندانوں کے افراد کو سفر کی اجازت اور راولا کوٹ پونچھ سیکٹر میں ٹرکوں کے ذریعے تجارت کا آغاز بھی شامل ہے۔ اول الذکر سہولت کیلئے اپریل 2005ء میں مظفر آباد سری نگر بس سروس کا آغاز ہوا‘ اور موخرالذکر کو جاری کرنے کیلئے اکتوبر 2008ء میں تجارتی اشیاء کے تبادلے کا آغاز ہوا۔ سابق برسوں میں ان دونوں اقدامات کی اہمیت واضح ہو چکی ہے۔ باوجود اس کے کہ مظفر آباد سری نگر روٹ پر چلنے والی بس میں کشمیریوں کے صرف منقسم خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہی سفر کرنے کی اجازت ہے اور بس کو انتہائی سکیورٹی کے ماحول میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے سے گزرنا پڑتا ہے‘ اس سروس کو لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے کشمیریوں کی بھاری حمایت حاصل ہے‘ کیونکہ ریاست کے ان دونوں حصوں میں آباد کشمیریوں کو ملانے کیلئے یہ واحد رابطہ ہے۔ اسی طرح راولا کوٹ اور پونچھ سیکٹر میں جاری تجارت اگرچہ حجم کے اعتبار سے بہت محدود
ہے اور صرف اشیاء کے تبادلے کی بنیاد پر جاری ہے؛ تاہم وادی کے دونوں حصوں میں موجود کشمیری تاجر اور کاروباری لوگ اس پر خوش ہیں اور اسے مزید وسعت دینا چاہتے ہیں‘ لیکن اس کے برعکس سفر اور تجارت کی ان محدود سہولتوں کو بھی متعدد بار بندش کا شکار ہونا پڑا‘ جس سے کشمیر کے دونوں حصوں سے تعلق رکھنے والے تاجروں اور کاروباری لوگوں کو ناصرف مالی نقصان اْٹھانا پڑتا ہے بلکہ ملاقات کے منتظر کشمیری لوگوںکو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گذشتہ دِنوں لائن آف کنٹرول کے آرپار ایک اور تجارتی راستے کو تقریباً ایک ہفتے کیلئے بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تجارت چکوٹھی اور اْڑی کے راستے ہوتی ہے۔ بندش کی وجہ آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے والے ایک ٹرک سے 12 کلوگرام ممنوعہ اشیا کی برآمدگی ہے۔ ٹرک میں کینو کے کریٹ لدے ہوئے تھے اور ممنوعہ اشیا مبینہ طور پر ایک کریٹ سے برآمد ہوئیں۔ اس پر مقبوضہ کشمیر کے حکام نے ٹرک کو روک کر ڈرائیور کو حراست میں لے لیا‘ لیکن 22 دوسرے ٹرک‘ جنہیں اْس روز اپنا مال اْتار کر واپس آزاد کشمیر آنا تھا، بھی روک لیے گئے۔ اس کے جواب میں آزاد کشمیر کے حکام نے مقبوضہ کشمیر سے تجارت کا سامان لانے والے 50 ٹرکوں کو واپس جانے سے روک دیا۔ ٹرکوں میں زیادہ تر سبزیاں اور پھل لدے ہوئے تھے اور انہیں زیادہ دنوں تک روکنے سے لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔
اگرچہ تجارت کا یہ راستہ چھ روز کے بعد کھول دیا گیا اور ٹرکوں کی آمد و رفت دوبارہ شروع ہو گئی؛ تاہم اس واقعہ سے ایک دفعہ پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور خصوصاً کشمیر میں اعتماد سازی کے اہم اقدامات کو لاحق خطرات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔17 جنوری 2014ء کو اسی طرح ایک پاکستانی ٹرک اور اْس کے ڈرائیور کو مقبوضہ کشمیر کے حکام نے روک لیا تھا۔ ٹرک ڈرائیور پر الزام تھا کہ اس کے ٹرک سے ممنوعہ اشیاء کا ایک بھاری پیکٹ برآمد ہوا ہے۔ اس واقعہ کی وجہ سے بھی لائن آف کنٹرول کے دونوں حصوں میں جاری تجارت روک دی گئی تھی کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے حکام نے ٹرک اور اْس کے ڈرائیور کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ بلکہ اس پر اپنے ہاں مقدمہ چلانے پر اصرار کیا تھا۔ جواب میں پاکستانی حکام نے مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ٹرکوں کو واپس جانے سے روک دیا۔ تقریباً ایک ماہ بند رہنے کے بعد یہ تجارت دوبارہ کھول دی گئی۔ یہ مسائل صرف تجارت یا ٹرکوں کی آمد و رفت تک محدود نہیں بلکہ گذشتہ تقریباً دس برسوں میں مظفر آباد سری نگر بس سروس بھی متعدد بار بند رہی جس سے لوگوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ریاست جموں و کشمیر کے دونوں حصوں میں رہنے والے لوگ اس قسم کے واقعات سے بہت پریشان ہیں بلکہ گذشتہ برس لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف تجارت کی بندش کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے عوام ان سہولتوں کو مزید وسیع اور آسان بنانا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں دونوں طرف سے تعلق رکھنے والے چیمبرز آف کامرس اور انڈسٹری کے مشترکہ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت کو بڑھایا جائے اور اس کیلئے بینکنگ اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کا اہتمام کیا جائے کیونکہ اس تجارت سے کشمیر کے دونوں حصوں میں رہنے والے لوگوں کو اہم فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ اس طرح لائن آف کنٹرول کے آرپار سفر کرنے والوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اْنہیں بھی حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان آنے جانے کا موقعہ مل سکے۔
اس وقت مظفر آباد اور سری نگر کے درمیان چلنے والی بس پر صرف وہی کشمیری سفر کر سکتے ہیں‘ جن کے رشتہ دار دوسرے حصے میں رہتے ہوں۔ باقی کشمیریوں کو لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی اجازت نہیں اور جو اس سہولت سے فائدہ اْٹھا سکتے ہیں‘ اْنہیں اجازت حاصل کرنے کیلئے سکیورٹی کلیئرنس کے ایک لمبے عمل سے گزرنا پڑتا ہے‘ جسے مکمل ہونے میں ہفتے یا مہینوں کی بجائے بعض دفعہ پورا سال لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جس طریقے سے مسافروں کو بس میں سوار ہونا پڑتا ہے وہ بھی انتہائی توہین آمیز ہے۔ مظفر آباد سے سری نگر جانے کیلئے بس جب مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوتی ہے تو کھڑکیوں کو بند کر دیا جاتا ہے اور بس میں سوار افراد کو خواہ وہ مرد ہوں، عورتیں یا بچے، راستے میں کہیں اترنے کی اجازت نہیں۔ ریاست کے دونوں حصوں میں رہنے والے کشمیریوں نے اس پر متعدد بار احتجاج بھی کیا اور سفری سہولتوں کو بہتر اور آسان بنانے کے علاوہ بسوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا لیکن ابھی تک اس سمت کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس کی سب سے اہم وجہ بھارتی حکام کا رویہ ہے۔ سکیورٹی کے نام پر بھارتی حکام نے لائن آف کنٹرول کے آر پار نہ صرف تجارت بلکہ لوگوں کی آمد و رفت پر بھی کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے تجارت میں اضافے کیلئے متعدد اقدمات تجویز کیے گئے تھے۔ ان میں مزید اشیاء کو تجارت کی فہرست میں شامل کرنا اور دونوں طرف سے بینکنگ کی سہولتیں فراہم کرنا بھی شامل ہے‘ لیکن بھارت کی طرف سے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ اس طرح آزاد کشمیر کے عوام نے کئی بار پْرزور مطالبہ کیا کہ منقسم خاندانوں کے افراد کے علاوہ آبادی کے دیگر حصوں مثلاً طلباء، صحافی، تاجر، سیاح اور عام لوگوں کو بھی ریاست کے دونوں حصوں میں آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ اس کے علاوہ سفر کیلئے اجازت نامہ حاصل کرنے کے خواہش مند لوگوں کو جس طویل اور پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے اْسے سہل بنایا جائے‘ اور لوگوں کو اجازت نامہ حاصل کرنے کیلئے جس طویل عرصہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے اْسے ختم کیا جائے۔ گزشتہ دنوں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے حکام کے ایک مشترکہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئندہ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے گا کہ سفر کے اہل لوگوں کو تین ماہ کے اندر اجازت نامہ مل جائے لیکن اس اعلان پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر میں تجارت اور سفر کے مسائل پاک بھارت تعلقات کے بڑے مسئلے سے منسلک ہیں۔ جب تک ان دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات خصوصاً مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف کوئی بڑا قدم نہیں اْٹھایا جاتا، کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت اور لوگوں کی آمدورفت متاثر ہوتی رہے گی۔ اب پاک بھارت مذاکرات بحال ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے تو توقع ہے کہ ان سارے معاملات کو بھی زیر غور لایا جائے گا۔