عین اس وقت جبکہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری اپنے ایرانی ہم منصب ظریف جاوید کے ساتھ جنیوا میں ایرانی ایٹمی پروگرام پر سمجھوتے کیلئے مذاکرات میں مصروف تھے، اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہونے واشنگٹن میں امریکی کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے کی مخالفت کی اور کانگرس کے ارکان پر زور دیا کہ وہ اوباما کی طرف سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتے کی کوشش کو ناکام بنا دیں۔اسرائیلی وزیراعظم کی اپیل کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا، لیکن ان کے خطاب کا امریکی ایوان نمائندگان اور سینٹ کے بیشتر ارکان کی طرف سے بار بار تالیاں بجا کر جس طرح استقبال کیا گیا،اس سے امریکہ میں یہودی لابی کے اثرورسوخ کا پتہ چلتا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے قبل بھی اسرائیلی رہنما امریکی کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر چکے ہیں، لیکن خاصے طویل عرصے کے بعد وہ پہلے غیر ملکی رہنما ہیں جنہیں یہ اعزاز تیسری بارحاصل ہوا ہے۔اس سے قبل وہ1996ء اور2011ء میں بھی امریکی کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر چکے ہیں۔ نیتن یاہو کے علاوہ دوسرے غیر ملکی رہنما جنہیں تیسری بار امریکی کانگرس سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل تھے۔نیتن یاہو چرچل کے بڑے مداح ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ جس طرح چرچل نے نازی جرمنی کے خطرے کو بھانپتے ہوئے اس کے خلاف جنگ کی اور اسے ختم کیا،اسی طرح وہ نہ صرف اسرائیل بلکہ مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کو بقول ان کے ایران کے ایٹمی خطرے سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔لیکن اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر پر امریکی سیاسی حلقوں اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے جو تبصرے سامنے آرہے ہیں ان کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کی دلیل میں کوئی وزن نہیں‘ اس لیے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں جس سمجھوتے کی مخالفت پر سارا زور صَرف کیا ہے،وہ تو ابھی وجود میں نہیں آیا۔ اس سے مبصرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم ایک خیالی سمجھوتے کی مخالفت کرتے ہوئے دراصل ایران میں موجودہ حکومتی نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس کیلئے وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ایران کے ساتھ معاملات طے کرنے کی بجائے تہران پر زیادہ سے زیادہ دبائو ڈالے اور اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرے۔
بہت سے مبصرین کی رائے میں نیتن یاہونے ایوان نمائندگان کے سپیکر جان بوئمر کی دعوت پر امریکی کانگرس سے خطاب کرکے اسرائیل کو امریکی سیاست میں ایک متنازعہ مسئلہ بنا دیا ہے جس کا آگے چل کر خود اسرائیل کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا کیونکہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوانِ نمائندگان کے سپیکر نے صدر اوباما کو مطلع کیے بغیر نیتن یاہو کو کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔نہ صرف امریکہ بلکہ خود اسرائیل میں بھی بعض اہم سیاسی حلقوں کی رائے میں نیتن یاہو کو یہ دعوت قبول نہیں کرنی چاہیے تھی۔ایک سروے کے مطابق 48فیصد امریکی رائے دہندگان کانگرس سے نیتن یاہو کے اس خطاب کو غیر مناسب قرار دیتے تھے۔صرف28فیصد نے اس کی حمایت کی۔اسرائیل میں نیتن یاہو کے مخالف سیاسی دھڑے نیتن یاہو کی اس تقریر کے سخت مخالف تھے اور اسے وہ نیتن یاہو
کی طرف سے اسرائیل میں دوہفتے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دے رہے تھے۔صدر اوباما نے بھی اسی بنیاد پر نیتن یاہو کو وائٹ ہائوس میں مدعو کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں اسرائیلی انتخابات کے عین موقعہ پر اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات مناسب نہیں کیونکہ اس سے ایک فریق فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ خدشہ اپنی جگہ باالکل بجا ہے۔کیونکہ اس سے قبل نیتن یاہو صدر اوباما سے ملاقات اور امریکی کانگرس کے مشترکہ خطاب کو اپنے ملک میں انتخابی مقصد کیلئے استعمال کر چکے ہیں۔
لیکن اسرائیلی وزیراعظم کے خطاب کو سب سے زیادہ تنقید کا اس لیے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ اس سے امریکہ میں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر اوباما کے درمیان جاری چپقلش میں اسرائیل ایک فریق بن کر سامنے آیا ہے۔مبصرین کے مطابق صدر اوباما اور اسرائیلی وزیراعظم کے درمیان اختلافات‘ جو پہلے سے ہی کافی نمایاں تھے،اب اور بھی شدت اختیار کر جائیں گے۔ اپنی تقریر میں ایران کے ساتھ سمجھوتے کی مخالفت کرتے ہوئے،اسرائیلی وزیراعظم نے ایران پر ایسے الزامات عائد کیے ہیں اور ایسے مطالبات پیش کیے ہیںجن کا اصل ایشو سے دور کا بھی تعلق نہیں‘ مثلاً نیتن یاہو نے الزام عائد کیا کہ ایران مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا میں دہشت گردی کی سرپرستی کررہا ہے‘ حالانکہ غزہ کی پٹی میں نہتے فلسطینی عوام‘ جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی،پر ظلم ڈھا کر اسرائیل نے خود بدترین دہشت گردی کا مظاہرہ کیا اور اس کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی۔اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اگر ایران کے ایٹمی پروگرام کو بزور طاقت ختم نہ کیا گیا تو اس سے مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔نیتن یاہو کی یہ دلیل بے بنیاد ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیتن یاہو نے ایران اور امریکہ کے درمیان ممکنہ سمجھوتے کو ناقص قرار دیتے ہوئے کسی متبادل سمجھوتے کا خاکہ پیش نہیں کیا بلکہ ایران پر مختلف الزامات عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مذاکرات کا موجودہ سلسلہ ختم کیا جائے اور ایران پر اتنا دبائو ڈالا جائے کہ وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔ نیتن یاہو کے مطابق ایران کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ وہ یورینیم کی افزودگی کے عمل کو مکمل طور پر بند نہ کردے۔افزودہ یورینیم کا جو ذخیرہ اس کے پاس ہے اسے ایران سے باہر منتقل نہ کرے اور عراق کے قریب بھاری پانی کا جو پلانٹ ایران نے لگا رکھا ہے،اسے ختم نہ کرے۔ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ میں اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی تقریر میں جن مطالبات بلکہ شرائط کا اعلان کیا، وہ بھی دلچسپ اور نیتن یاہو کی ایران دشمن سوچ کی آئینہ دار ہیں‘ مثلاًانہوں نے کہا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں اپنی ''جارحیت‘‘بند کرے،مشرق وسطیٰ اور دنیا میں دہشت گردی کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لے اور اسرائیل کی صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیوں سے باز رہے۔ مبصرین کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کی طرف سے پیش کردہ شرائط اور مطالبات کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ایران کو مکمل طور پر مفلوج اور بے دست و پابنا کر اسے اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے تاکہ یہودی ریاست ایران سے بھی وہی سلوک کرے جو اس نے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ میں بسنے والے بے کس اور مجبور فلسطینیوں سے روا رکھا ہوا ہے۔ اسی لیے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی امریکی ایوان نمائندگان کی سابق سپیکر نینسی پلوسی نے نیتن یاہو کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کی کانگرس میں تقریر نہ صرف امریکہ بلکہ امریکہ کے ہمراہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں شریک دیگر پانچ بڑے ممالک کامنہ چڑانے کے مترادف ہے۔ان ممالک میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے علاوہ جرمنی بھی شامل ہے۔
اکثر مبصرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر نیتن یاہو کی رائے میں ایران کے ساتھ ممکنہ سمجھوتہ ناقص ہے،تو بہتر سمجھوتہ کیا ہوسکتا ہے؟نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ اس لیے کہ ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔اور نہ ہی وہ اس سوال کا جواب دینا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد ایران کے ساتھ سمجھوتے کی مخالفت کر کے اسرائیل میں انتہا پسند یہودیوں کو خوش کرنا ہے تاکہ ان کی مدد سے چند دنوں بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں نیتن یاہو کی پارٹی لیکوڈ کامیابی حاصل کرسکے۔