یمن میں خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں بعض عرب ملکوں کی طرف سے فوجی مداخلت کے امکان کو اگرچہ اس خطے میں شیعہ‘ سنی تفریق کا شاخسانہ بتا کر پیش کیا جارہا ہے؛تاہم اصل میں یہ جیو سٹریٹیجک اور مغربی طاقتوں خصوصاً امریکہ کے مفادات کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔اس میں یمن کی جغرافیائی پوزیشن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
اگر ہم جزیرہ نما عرب اور اس کے ساتھ بحیرہ احمر کے نقشے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بحیرہ احمر کو بحر ہند سے ملانے والے تنگ آبی راستہ جو باب المندب کے نام سے مشہور ہے،کے ایک سرے پر واقع ہونے کی وجہ سے یمن کو وہی اہم سٹریٹیجک پوزیشن حاصل ہے جو ترکی کو آبنائے باسفورس، سپین کو جبرالٹر اور برما کو آبنائے ملا کا کے عین اوپر واقع ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔آبنائے باب المندب کے دوسرے سرے پر ایک نوکدار شکل میں شمال مشرقی افریقہ کا علاقہ ہے جسے ہارن آف افریقہ (Horn of Africa)کہتے ہیں۔اس کا کچھ حصہ حبشہ کے پاس ہے اور باقی صومالیہ کا حصہ ہے۔زمانہ قدیم سے یہ آبی گزر گاہ علاقائی تجارت اور بحری آمدورفت کے لیے مشہور ہے۔مصر،روم کی قدیم تہذیبوں اور ان کے بعد عربوں کے لیے یہ علاقہ اس لیے اہم تھا کہ اس کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور شمال مغربی افریقی ممالک کے بحر ہند کے ساتھ رابطے قائم تھے۔ انہی رابطوں پر مشتمل وہ قدیم اور طویل آبی تجارت کی مشہور شاہراہ تھی جسے مشہور شاہراہ ریشم کا ہم پلہ سمجھا جاتا تھا۔جدید چین اب صدر ژی لی پنگ کی قیادت میں اس قدیم آبی تجارتی راستے کو ''آئرن شاہراہ ریشم‘‘کے نام سے دوبارہ فعال بنانے کی کوشش کررہا ہے۔
اگرچہ یمن کو اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے لیکن پندرھویں صدی عیسویں میں جنوبی ایشیا میں یورپی قوموں کی آمد خصوصاََ انیسویں صدی کے وسط میں بحر روم اور بحیرہ احمر کو ملانے والی نہر سویز کی تعمیر کے بعد اس کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ نہر سویز کی تعمیر سے یورپ اور جنوبی ایشیا اور اس سے پرے جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان فاصلہ گھٹ کر ایک تہائی سے بھی کم رہ گیا اور اس کی وجہ سے تجارتی سازوسامان سے لدے بحری جہاز جن میں آئل ٹینکرز بھی شامل تھے،نہر سویز اور آبنائے باب المندب کے راستے سفر کرنے لگے۔
برطانیہ کے لیے یہ گزر گاہ بہت اہمیت کی حامل تھی کیونکہ جنوبی ایشیا یعنی ہندوستان اور اس کے علاوہ خطے میں واقع باقی برطانوی نو آبادیات کے ساتھ رابطوں کے لیے یہ کم فاصلے والا راستہ تھا‘اس لیے اس کے تحفظ کے لیے برطانیہ نے مشرقِ وسطیٰ سے جنوب مشرقی ایشیا تک بحری اڈوں کا ایک سلسلہ قائم کیا۔ان بحری اڈوں میں پورٹ سعید(مصر)،عدن(یمن) اور سنگا پور (آبنائے ملاکا)شامل تھے۔عدن کا بحری اڈہ مرکز میں واقع ہونے کی وجہ سے نہ صرف بحیرہ احمر سے بحر ہند کو ملانے والے تجارتی راستے کی حفاظت کے لیے اہم تھا،بلکہ مشرق وسطیٰ اور بحر ہند کے علاقے کے دفاع کے لیے برطانیہ نے جو حکمت عملی تشکیل دے رکھی تھی،اس پر عمل درآمد کیلئے بھی یمن کو خاص اہمیت حاصل تھی۔یمن چونکہ براہ راست برطانوی نو آبادیاتی نظام کے زیر تسلط رہا ہے اس لیے یہاں کے معاشرے اورسیاست میں انقلابی رجحانات کافی غالب رہے ہیں۔ان کا نشانہ پہلے برطانوی نوآبادیاتی نظام تھا اور آج کل امریکہ ہے۔ انہی رجحانات کی وجہ سے یمن جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے میں پہلا ملک تھا جو مصر کے صدر ناصر کی قیادت میں عرب قوم پرستی کی تحریک سے متاثر ہوا اور 1962ء میں یہاں امام بدر کی قیادت میں جمال عبدالناصر کے
حامیوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔یمن کے ان حالات کی وجہ سے برطانیہ کو عدن کا بحری اڈہ خالی کرنا پڑا۔لیکن مغربی طاقتوں نے اس خطے سے واپسی کا راستہ اختیار نہیں کیابلکہ عدن کے متبادل بحر ہند میں سری لنکا اور میڈگا سکر کے عین درمیان اور خلیج فارس کے قریب ایک مجمع الجزائر ڈیاگو گارشیا(Diago Garcia )پر ایک وسیع بحری اور ہوائی اڈہ قائم کر لیا گیا۔ڈیاگو گارشیا برطانیہ کی ملکیت تھا لیکن یہ اہم اڈہ امریکہ نے تعمیر کیا اور اس کا مقصد نہ صرف بحرہند سے گزرنے والی آبی تجارتی شاہراہوں کی حفاظت ہے،بلکہ اردگرد کے علاقوں مثلاََ مغربی ایشیا،خلیج فارس اورشمال مشرقی افریقہ میں فوجی کارروائی کے لیے بھی اس اڈے کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس اڈے کے ارد گرد سمندر اور بحر عرب میں امریکی جنگی جہازوں کی ایک کثیر تعداد ہر وقت موجود رہتی ہے اور جب بھی ضرورت پیش آتی ہے انہی جہازوں سے طیارے اڑ کر فوجی کارروائی کرتے ہیں۔ اکتوبر2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان پر فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا،تو بم برسانے والے امریکی جہازوں نے انہی بحری جہازوں سے اڑان لی تھی۔ڈیاگو گارشیا کے بحری اور ہوائی اڈے نے اس آپریشن میں اہم کردار ادا کیا تھا۔لیکن امریکہ کی بحری اور فضائی قوت صرف ڈیاگو گارشیا تک محدود نہیں۔خلیج فارس کے علاقہ میں بحرین امریکہ کا قدیم اور انتہائی اہم اڈہ ہے۔اسے نہ صرف خلیج فارس کے دفاع کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ ارد گرد کے ممالک میں فوجی کارروائیوں کے لیے بھی بحرین کے بحری اور فضائی اڈے پر انحصار کیا جاسکتا ہے۔امریکہ نے اس خطے میں بحری اور فضائی اڈوں کی صورت میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور تغیرات زمانہ کے باوجودامریکہ نے اس خطے میں اپنی فوجی قوت کم نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ ہی کیا ہے۔اس کی وجہ خطے اور اردگرد کے علاقوں میں اہم امریکی اور مغربی مفادات کی موجودگی ہے۔ان اہم مفادات میں خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ میں واقع تیل اور گیس کے ذخائر بحر ہند کی تجارتی اور سٹریٹیجک اہمیت ایران اور چین کی طرف سے نئے چیلنجز شامل ہیں۔یمن کے حوالے سے مغربی ممالک خصوصاََ امریکہ اور اسرائیل ایران کی طرف مبینہ طور پر پیش کیے جانے والے چیلنج کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ان کے خیال میں ایران ،عراق،شام،لبنان اور اب یمن میں اپنے حامی شیعہ عناصر کے ذریعے قدیم سلطنت ایران جو اس وقت وسطی ایشیا سے مصر اور ہندوستان کے مغربی علاقوں سے بلقان تک پھیلی ہوئی تھی،کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتا ہے۔گزشتہ ماہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہونے بھی امریکی کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ایران چار عرب دارالحکومتوں یعنی بغداد،دمشق، بیروت اور صنعا(یمن)پر قابض ہو کر اپنی قدیم سلطنت کے احیاء کی جانب اہم قدم بڑھاچکا ہے۔تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی اس سے زیادہ مکروہ اور بدترین صورت اور نہیں ہوسکتی۔موجودہ ایران اور قدیم ایران میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔یہ درست ہے کہ ایران کو اپنی قدیم تہذیب اور کلچر پر فخر ہے‘ لیکن1979ء سے آج تک کسی اقدام سے اس کے مبینہ توسیعی عزائم ظاہر نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس مغربی طاقتوں نے مختلف ہتھکنڈوں کو باربار استعمال کرتے ہوئے ایران پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ایران کے اسلامی انقلاب کے فوراََ بعد ایران پر عراق کا حملہ اور ایران کے پر امن جوہری پروگرام کے متعلق بے بنیاد پروپیگنڈہ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔یمن کا موجودہ خلفشار عالم عرب میں سیاسی بیداری کی تحریک یعنی ''عرب اسپرنگ‘‘ (Arab Spring) کا حصہ ہے جس کا آغاز آج سے تقریباََ چار سال قبل تیونس سے ہوا تھا اور جس کے نتیجے میں مصر اور لیبیا میں بالترتیب حسنی مبارک اور معمر قذافی کی حکومتوں کا خاتمہ ہوا اور شام میں اب بھی خانہ جنگی جاری ہے۔یہ تحریک ابھی جاری ہے۔ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔یمن کی خانہ جنگی اس تحریک کے مختلف مظاہر میں سے ایک ہے اور اس کی حتمی شکل ابھرنے میں ابھی بہت دیر لگے گی۔عرب لیگ کے رکن چند عرب ممالک کی طرف سے فوجی مداخلت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ ایک جعلی اور سطحی شیعہ‘ سنی فریم ورک میں کی جارہی ہے۔اس کے بجائے اگر اقوام متحدہ یا اسلامی ملکوں کی بین الاقوامی تنظیم کے ذریعے امن اور مصالحت کے حصول کے لیے کوششیں کی جاتیں تو بہتر ہوتا۔یہ عجیب بات ہے کہ ایک اور اسلامی ملک یعنی افغانستان میں تو امن اور مصالحت کے لیے طالبان سے براہ راست بات چیت کی حمایت کی جارہی ہے۔لیکن یمن میں فوجی مداخلت کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔اس فوجی مداخلت سے حالات سلجھنے کی بجائے اور الجھ جائیں گے کیونکہ یمن کے موجودہ حالات نہ صرف اس کے اندرونی سیاسی اور سماجی تضادات کا نتیجہ ہیں بلکہ ملک کے جغرافیائی محل وقوع اور اس کے گردعلاقوں کی جیوسٹریٹیجک اہمیت کو بھی ان حالات کا رُخ متعین کرنے میں نمایاں دخل حاصل ہے۔