آزادی سے قبل مسلمانانِ برصغیر کے دل دُنیا اور خصوصاً عالمِ عرب میں اپنے ہم مذہب بھائیوں کے ساتھ اس طرح مل کر دھڑکتے تھے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ہر سالانہ جلسے میں ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے بعد میں اور فلسطین کے عوام کی جدوجہد کے حق میں پہلے قرارداد منظور کی جاتی تھی۔قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے جو سب سے پہلے اقدام کیے ان میں ملک کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفر اللہ کو اقوام متحدہ میں زیربحث مسئلہ فلسطین پر پاکستان کی طرف سے عرب موقف کی حمایت کیلئے مامور کرنا تھا۔سرظفر اللہ نے یہ فریضہ جس احسن طریقے سے نبھایا وہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ اور تاریخ فلسطین کا ایک نہ بھولنے والا حصہ ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تاریخ اور اس سرزمین پر عربوں کے حق پر اپنی طویل تقاریر میں سر ظفراللہ نے ایسے حقائق اور دلائل پیش کیے کہ خود عرب بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔کیونکہ وہ خود ان سے واقف نہیں تھے۔اپنی کتاب ''تحدیث نعمت‘‘ میں وہ اسی موقع کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جنرل اسمبلی میں جب انہوں نے اپنی تقریر ختم کی تو اجلاس میں شریک تمام عرب مندوبین نے اپنی نشستوں سے اٹھ کر انہیں داد دی اور سب نے اکٹھے ہوکر انہیں مبارک پیش کی اور شکریہ ادا کیا اور کہا کہ فلسطین پر عربوں کے موقف کے دفاع میں جن تاریخی حقائق کو انہوں نے پیش کیا ہے،وہ عربوں کے علم میں بھی نہیں تھے۔یہ پاکستان کی قومی زندگی کے پہلے سال کا واقعہ ہے،جب قائداعظم نے آزاد اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کے وقار کو بہت بلند کر دیا تھا۔لیکن قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد اقتدار سنبھالنے والے رہنمائوں نے سیٹو (1954ء) اور معاہدہ بغداد (1955ء)میں شمولیت کا فیصلہ کر کے جس طرح پاکستان کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا اس سے مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کی مقبولیت یک دم نیچے آگئی۔اس کی واضح ترین مثال1956ء میں سویز کا بحران تھا۔جب نہر سویز کو قومیانے پر برطانیہ،فرانس اور اسرائیل نے مصر پر حملہ کیا تو دنیا بھر میں حملہ آوروں کی مذمت کی گئی اور ان کے فوری انخلاء کا مطالبہ ہوا۔لیکن وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے اس پر ایک ایسا بیان دیا جس میں حملہ آوروں کی بجائے مصر کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ لیکن عوام اس موقف سے متفق نہیں تھے۔ ملک کے ہرکونے میں مصر پر حملہ آوروں کے خلاف جلسے ہوئے اور جلوس نکالے گئے۔ ان جلسوں میں سرکاری موقف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان اپنی مغرب نواز پالیسی بدل کر اس آڑے وقت میں اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہو؛ چنانچہ رائے عامہ کے دبائو کے پر وزیراعظم سہروردی کو اپنے موقف میں تبدیلی لانا پڑی۔عوامی احتجاج پر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا یہ پہلا موقعہ تھا۔اس کے بعد پاکستان نے اپنی مغرب نواز خارجہ پالیسی ترک کر کے ایک آزاد اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی قیادت میں اختیار کی۔اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ1968-69ء میں ملک کے پہلے فوجی آمر ایوب خان کے خلاف جو عظیم عوامی تحریک شروع ہوئی تھی،اس میں سیٹو اور سنٹو کے دفاعی معاہدوں سے الگ ہونے اور آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ایک زیرک سیاستدان جسے تاریخ کا گہرا علم تھا،جناب بھٹو اس مطالبے کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے؛ چنانچہ انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی پاکستان کو سیٹو سے الگ کیا اور سنٹو میں شرکت برقرار رکھتے ہوئے اپنے فوجی تعلقات صرف ایران اور ترکی تک محدود کر دیے کیونکہ یہ دونوں ممالک پاکستان کی آزادی اور سالمیت کے پر زور حامی تھے۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان چوتھی جنگ (1973-74ء) کے دوران پاکستان کی طرف سے مصر،اردن اور شام کی حمایت اور مدد نے مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کے سیاسی وقار کو ایک دفعہ پھر بحال کر دیا تھا؛ تاہم عالم عرب میں پاکستان کی ساکھ کو لاہور میں فروری1974ء میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس نے جس طرح بلند کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا موضوع مسئلہ فلسطین تھا اور اس پر کانفرنس نے اہم قراردادیں منظور کی تھیں۔پاکستان نے صرف فلسطین کے مسئلے پر ہی اپنے سابق آزاد موقف کو بحال نہیں کیا تھا،بلکہ خطے میں موجود تقریباََ تمام ممالک کے ساتھ جن میں ایران بھی شامل تھا،دوطرفہ بنیادوں پر اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کیا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور امریکہ کی طرف سے پاکستان کی اقتصادی امداد سے ہاتھ کھینچنے کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو جو زبردست دھچکا لگا تھا، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی ڈپلومیسی نے نقصان کا کافی حد تک ازالہ کر دیا تھا۔
لیکن1977ء کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی اور خصوصاََ ایران کے ساتھ تعلقات کو ایک دفعہ پھر امریکہ کی علاقائی حکمت عملی کے تابع کر دیا۔1979ء میں عراق کے صدر صدام حسین نے کسی جواز اور اشتعال انگیزی کے بغیر ایران پر حملہ کر دیا۔پاکستان اور ایران کے درمیان ہزاروں برس پرانے نہ صرف تاریخی اور ثقافتی تعلقات تھے، بلکہ 20برس سے زائد عرصہ تک معاہدہ بغداد(بعد میں سنٹو)کا رکن ہونے کی وجہ سے فوجی اتحادی بھی رہے تھے۔ بھارت کے ساتھ دونوں جنگوں (1965-1971ء) کے دوران ایران نے پاکستان کو جو امداد فراہم کی،اس کا سبھی حلقوں میں اعتراف کیا جاتا ہے لیکن عراقی جارحیت کے خلاف ایران کا ساتھ دینے کی بجائے ضیاء الحق کی حکومت نے اس ذمہ داری سے یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا کہ یہ دو برادر اسلامی ملکوں کے درمیان جھگڑا ہے، پاکستان ان میں سے کسی کاساتھ نہیں دے سکتا۔کیونکہ ایسا کرنا پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں روایتی پالیسی کی خلاف ورزی ہوگا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جبکہ یمن اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور پاکستان اس میں کودنے کی تیاری کر رہا ہے،تو خطے کے بارے میں ملک کی روایتی خارجہ پالیسی کہاں گئی ہے؟
دوسری مثال افغانستان ہے۔ سابق سوویت یونین کی طرف سے اس غریب اور کمزور ملک میں مداخلت اور قبضے سے پیدا ہونے والے بحران پر ابتدائی دنوں میں پاکستان اور ایران میں جو تعاون اور صلاح مشورہ شروع ہوا تھا،بعد میں اسے جاری نہ رکھا جاسکا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ امریکہ افغانستان میں مزاحمت کی تحریک کو امداد فراہم کرکے نہ صرف سوویت یونین سے ویت نام شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا،بلکہ اس جنگ کو ایران کے خلاف بھی استعمال کرنا چاہتا تھا۔ضیاء الحق کی حکومت امریکہ کی آلہ کار بن گئی اور اس نے افغان جنگ مزاحمت میں شریک صرف ایک دھڑے کی حمایت شروع کردی۔1996ء میں کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد پاکستان نے شمالی اتحاد کے خلاف طالبان کا جس طرح کھلم کھلا ساتھ دیا‘ اس نے نہ صرف افغانستان میں پاکستان کی پوزیشن کو متنازع بنا دیا،بلکہ اس سے ایران کے ساتھ تعلقات بھی بری طرح متاثر ہوئے۔
اگرچہ ضیاء الحق کو اللہ کو پیارے ہوئے تیس برس ہونے کو ہیں اور طالبان بھی 2001ء سے اقتدار سے باہر ہیں،مشرق وسطیٰ کے بارے میں اب بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی ضیاء الحق کے اثر سے پوری طرح آزاد نہیں ہوسکی اور ہم آج بھی کوئی قدم اٹھانے سے پہلے امریکہ اور خطے میں اس کے حواری ممالک کی طرف دیکھتے ہیں۔البتہ ایک فرق ضرور پڑا ہے۔جمہوری دور اور ایک آزاد میڈیا کی وجہ سے اب کسی بھی حکومت کو کوئی قدم اٹھانے سے پہلے عوامی امنگوں کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔وزیراعظم محمد نوازشریف کا یمن کے مسئلے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ نئی حقیقتوں کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
کالم ختم کرنے سے پہلے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تاریخ سے ایک سبق آموز واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔1950-51ء میں جب کوریا کی جنگ بھڑکی،تو امریکہ نے پاکستان سے بھی فوجی دستے بھیجنے کی درخواست کی۔اس کے عوض امریکہ نے پاکستانی فوج کی ایک پوری ڈویژن کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے کی پیش کش کی۔اس وقت لیاقت علی خان پاکستان کے وزیراعظم تھے۔انہوں نے رضا مندی کیلئے امریکہ کے سامنے دوشرائط پیش کیں۔امریکہ بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ حل کرائے اور افغانستان کو ڈیورنڈ لائن بطور ایک بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے پر مجبور کرے‘ جب امریکہ نے ان شرائط کو پوری کرنے سے معذوری ظاہر کی تو وزیراعظم لیاقت علی خان نے بھی کوریا کیلئے پاکستانی فوجی دستے بھیجنے سے معذرت کرلی۔