"DRA" (space) message & send to 7575

انسدادِ دہشت گردی اور صوبائی خودمختاری

کراچی میں دہشت گردی اور دیگر سماجی جرائم کے خلاف صوبائی پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن ستمبر 2013ء میں شروع کیا گیا تھا۔ آپریشن کے آغاز سے قبل کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانے کے لیے مختلف حلقوں سے مختلف تجاویز پیش کی جا رہی تھیں۔ ایک رائے یہ تھی کہ شہر کو فوج کے حوالے کردیا جائے جبکہ کچھ حلقوں کی رائے میں صوبہ سندھ میں گورنر راج‘ کراچی کے حالات کو سدھارنے کا واحد راستہ تھا لیکن چند حلقے سمجھتے تھے کہ شہر کو فوج کے حوالے کیے بغیر بھی کراچی میں جرائم پیشہ ا فراد کے خلاف کامیاب کارروائی کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے پولیس اور رینجرز ہی کافی ہیں لیکن اس کے لیے دو شرائط کا پورا ہونا لازمی تھا۔ ایک یہ کہ پولیس کے معاملات میں سیاسی مداخلت ختم کردی جائے اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔ اس قسم کی ہدایات سپریم کورٹ کے اُن ریمارکس میں بھی شامل تھیں جو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 2011ء میں کراچی کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر بحث کے دوران دیئے تھے۔ اس لیے فیصلہ یہ ہوا کہ کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کی بجائے اور ایک منتخب جمہوری صوبائی حکومت کو ہٹائے بغیر پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن شروع کیا جائے‘ مگر اس آپریشن کی کمانڈ صوبائی حکومت کے ہاتھ میں ہوگی۔ 
یہ اس لیے ضروری تھا کہ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے۔ وفاق اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم کی جو سکیم آئین میں درج ہے‘ اُس کے تحت امن و امان (لاء اینڈ آرڈر) کا قیام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور جب تک صوبائی حکومت اس کو بحال کرنے میں خود وفاقی حکومت سے مداخلت یا مدد کی درخواست نہ کرے‘ مرکزی حکومت اس میں دخل نہیں دے سکتی لیکن دہشت گردی محض ایک لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں ہے اور صوبائی پولیس اپنے وسائل کے بل بوتے پر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں صوبوں کے قیام کو ایک سو برس سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے‘ سیاسی نظام میں مرکزیت کے غالب رجحانات کی وجہ سے صوبے اب بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ صورت حال صرف پاکستان میں ہی نہیں پائی جاتی بلکہ بھارت میں بھی یہی حالات ہیں۔ جہاں یونین (وفاقی) حکومت اور ریاستی حکومتوں (صوبوں) کے درمیان اختیارات کا اب بھی عدم توازن موجود ہے۔ اسی عدم توازن کی وجہ سے صوبائی خودمختاری کا مسئلہ اکثر صورتوں میں سر اٹھاتا نظر آتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ مسئلہ اس وجہ سے مزید شدت اور تواتر کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے کہ ایک طرف صوبوں کے پاس اتنے بڑے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے وسائل نہیں اور وہ اس سے نبردآزما ہونے کے لیے مرکز کی طرف سے نہ صرف افرادی بلکہ مالی وسائل کی منتقلی کے محتاج ہیں‘ دوسری طرف اپنے ''اندرونی معاملات‘‘ میں مرکز کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں۔ اس ناپسندیدگی کی سیاسی وجوہ کے علاوہ برس ہا برس سے موجود مرکز اور صوبوں کے درمیان بداعتمادی اور شک و شبہ سے لبریز فضا بھی ہے۔ اس لیے اگر کسی صوبے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بنیاد پر مرکز سے چند شکایات پیدا ہو جائیں تو انہیں کسی سیاسی پارٹی یا شخصیت سے منسوب کرنا مناسب نہیں بلکہ یہ مرکزیت پر مبنی ہمارے سیاسی نظام کا نتیجہ ہے‘ جسے ہم نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی صورت میں ورثے میں حاصل کیا ہے۔ اس لیے قومی سطح پر جوں جوں دہشت گردی کے خلاف جنگ تیز ہوگی‘ صوبائی سطح پر مرکز سے گلے شکوے اور شکایات میں بھی اضافہ ہوگا۔ پہلے صوبے یہ کہتے سنے جائیں گے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صوبوں کو وسائل مہیا نہیں کیے جا رہے۔ اس قسم کی شکایات آج کل صوبہ خیبر پختون خوا کی طرف سے موصول ہو رہی ہیں۔ جب دہشت گردی کو کچلنے کے لیے صوبوں کو نہ صرف مالی امداد بلکہ سکیورٹی فورسز کی امداد بھی مہیا کی جائے گی تو اسی قسم کی صورت حال پیدا ہوگی جو آج کل بلوچستان میں ہے‘ جہاں ایک سابق وزیراعلیٰ نے ایف سی پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے صوبے میں ایک متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں نہ تو صوبائی حکام کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور نہ اس کی ہدایات پر عمل کیا جاتا ہے۔ 
اسی قسم کی صورت حال اب سندھ (کراچی) میں پیدا ہو رہی ہے۔ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ رینجرز اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کر رہے ہیں اور ان کی بعض کارروائیاں اس نوٹیفکیشن کی خلاف ورزیوں کے مترادف ہیں جو آئین کے تحت سندھ میں ان 
کی تعینات کے موقع پر جاری کیا گیا تھا۔ سندھ میں اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن رینجرز کے خلاف اسی قسم کی شکایات متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی طرف سے بھی آ چکی ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان شکایات میں کتنا وزن ہے‘ اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں سندھ کی بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ پیپلزپارٹی کو اندرون سندھ اور ایم کیو ایم کو صوبے کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی میں عوام کی بھاری حمایت حاصل ہے۔ اس کا ثبوت 2013ء کے انتخابات میں ان دونوں پارٹیوں کی صوبائی اسمبلی کی دو تہائی سے زائد نشستوں پر کامیابی کی صورت میں موجود ہے۔ کراچی میں قومی اسمبلی کی خالی نشست (NA-246) پر ایم کیو ایم کے امیدوار کی بھاری اکثریت سے کامیابی ثابت کرتی ہے کہ مرکز کی طرف سے متحدہ کو ٹارگٹ بنانے کے باوجود اس کی عوامی حمایت میں کمی نہیں آئی۔
اس لیے صوبائی سطح پر اگر مرکز اور مرکز کے بعض اداروں کے خلاف چند شکایات کا اظہار کیا جاتا ہے تو مرکز کو ان کے خلاف غیرمعمولی عجلت یا سخت ردعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ٹھنڈے مزاج اور احتیاط کے ساتھ ان کا جائزہ لے کر اپنی پوزیشن متعین کرنی چاہیے اور متعلقہ صوبوں کو اُس پر قائل کرنا چاہیے‘ کیونکہ ہمارے سیاسی نظام کی نوعیت کی وجہ سے صوبوں کی طرف سے مرکز کے بعض اقدامات پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جائے گا اور شکایات بھی سامنے آئیں گی۔ جہاں مرکز اور صوبوں میں مختلف پارٹیاں برسراقتدار ہیں‘ مثلاً خیبر پختونخوا اور سندھ‘ وہاں اس قسم کی شکایات بلکہ احتجاج اور بھی بڑھ جائے گا۔ غالباً اسی وجہ سے کراچی میں پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کی کمان صوبائی حکومت کے ہاتھ میں دے دی گئی تھی۔ اگرچہ بعض حلقوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی تھی لیکن وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی خاطر اس آپریشن کا کیپٹن وزیراعلیٰ سندھ کو مقرر کیا تھا۔ وفاقی حکومت کا یہ دوراندیشی پر مبنی دانش مندانہ فیصلہ ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی مرکز اور صوبوں کے درمیان قریبی تعاون سے مشروط ہے۔ کراچی‘ جو ملکی معیشت کا اعصابی مرکز اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے‘ کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ان عناصر سے شہر کو نجات دلانے کا ہدف ایک قومی فریضہ ہے‘ اس لیے صوبائی حکومت اور اس کے تمام اداروں کو اس قومی فریضہ کی ادائیگی میں نہ صرف مرکز کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنا چاہیے بلکہ مکمل طور پر ہاتھ بٹانا چاہیے۔ 
دوسری طرف وفاقی سکیورٹی فورسز کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ صوبائی حکومت کی دعوت پر کراچی میں کارروائیاں کر رہی ہیں اور ان کا مینڈیٹ آئین کے تحت متعین ہے۔ انہیں کسی صورت میں بھی ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے‘ جو آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت مقرر کی گئی ہیں۔ بصورت دیگر مرکز اور صوبوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگی جو دونوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس سے دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر فائدہ اٹھائیں گے اور وہ اس گھیرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جائیں جو حالیہ کارروائیوں کی صورت میں ان کے گرد تنگ کیا جا رہا تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں