"DRA" (space) message & send to 7575

جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد

اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ گذشتہ تقریباً ایک برس سے پاکستان مسلم لیگ(ن)کی حکومت کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں پر ایجی ٹیشن سے پیدا ہونے والے جس سیاسی تنائو نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا،وہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد ختم ہوجائے گا‘ لیکن ایسا نہیں ہوا‘ بلکہ اس فیصلے کے بعد نئے تنازعات پیدا ہوگئے ہیں اور نئے سوالات اْٹھائے جارہے ہیں۔سب سے پہلے توخود عمران خان کا عجیب و غریب اور تضادات سے بھرا ہوا ردِعمل ہے۔اپنے ردِعمل میں اْنہوں نے ایک طرف یہ کہا کہ وہ کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کرتے ہیں ۔ایسا کہنا اْن کی مجبوری تھی کیونکہ کمیشن کے قیام کے بعد وہ بارہا کہہ چکے تھے کہ کمیشن کی جو بھی رپورٹ ہوگی،وہ اْسے تسلیم کریں گے۔اگر کمیشن یہ کہہ دے کہ گذشتہ انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی تووہ اپنے الزامات سے دستبردار ہوجائیں گے۔کمیشن کے قیام کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان جس ایم او یو پر دستخط ہوئے تھے اْس میں بھی یہ درج تھا کہ اگر کمیشن اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ 2013ء کے انتخابی نتائج ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش کی پیداوار تھے‘ چنانچہ موجودہ حکومت کو اقتدار میں رہنے کا اختیار یعنی مینڈیٹ جعلی ہے،تو وزیراعظم محمد نوازشریف آئین کے تحت صدر سے اسمبلیوں کی تحلیل کی درخواست کریں گے اور نئے انتخابات ہوں گے۔اور اگر کمیشن یہ کہہ دے کہ دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ انتخابات آئین اور قانون کے مطابق صاف اور شفاف تھے اور وزیراعظم محمد نوازشریف کو حاصل ہونے والا مینڈیٹ عوامی حمایت کا آئینہ دار ہے،تو تحریک انصاف وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت کے خلاف الزامات واپس لے گی اور وہ خود اور اس کے ارکان اسمبلی میں اپنی نشستوں کو سنبھال لیں گے۔ لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کرنے کا تو اعلان کیا مگر حکومت کے خلاف دھاندلی کے الزامات واپس نہیں لیے‘ بلکہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔اگر کمیشن اپنی تحقیقات میں اس کو ثابت نہیں کرسکا تو قصور کمیشن کا ہے نہ کہ تحریک انصاف کا جو کمیشن کے سامنے ایک شکایت کنندہ کے طور پر پیش ہوئی تھی۔
اس طرح جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد پاکستان کی سیاست میں الزام‘ ردِ الزام اور تلخ جملوں کے تبادلے پر مشتمل گرما گرم سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے‘ جس میں بڑے حریف یعنی مسلم لیگ(ن)اور تحریک ہی آمنے سامنے نہیں بلکہ ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام(ف)بھی پوری طرح شامل ہیں۔آخر الذکر دونوں سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کے گذشتہ برس کے ایجی ٹیشن خصوصاً اسلام آباد میں 126دن تک جاری رہنے والے دھرنے کے پیچھے کارفرما خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کرنے کیلئے ایک تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں۔اپنے مطالبے کے حق میں یہ پارٹیاں وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے اْس بیان کا حوالہ دے رہی ہیں جس میں اْنہوں نے آئی ایس آئی کے دو سابق سربراہوں لیفٹیننٹ جنرل(ر)شجاع پاشا اور لیفٹیننٹ جنرل(ر)ظہیر الاسلام پر عمران خان کے دھرنے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔اْن سے قبل جاوید ہاشمی بھی اس قسم کا بیان دے چکے ہیں جس میں اْنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ چند ریٹائرڈ جرنیلوں نے عمران خان کو''آزادی مارچ‘‘پر اس یقین دہانی کے ساتھ اْکسایا تھا کہ اگر وہ اسلام آباد میں 
لوگوں کی بڑی تعداد کے ساتھ مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو فوج وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت کا تختہ اْلٹ دے گی۔خواجہ آصف اور جاوید ہاشمی کے علاوہ خود تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما اعظم سواتی بھی برملا تسلیم کر چکے ہیں کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن میں کچھ عناصر نے تحریک انصاف کو چند یقین دہانیاں کروائی تھیں،لیکن بعد میں یہ عناصر پیچھے ہٹ گئے اور تحریک انصاف کو اکیلا چھوڑ دیا‘ جو اْس کی تحریک کی ناکامی کا باعث بنا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف‘ جو اپنے بڑے بھائی وزیراعظم محمد نوازشریف کے برعکس سول‘ ملٹری تعلقات میں موجودہ سٹیٹس کو میں کسی قسم کی تبدیلی کے حق میں نہیں،نے بھی عمران خان کے دھرنے کی تحقیقات کیلئے ایک پارلیمانی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اْن کی تجویز ہے کہ یہ کمیشن قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل ہونا چاہیے اور اس کا کام دھرنے کیلئے مہیا کردہ فنڈنگ کے ذرائع معلوم کرنا ہو لیکن اگر شہباز شریف کی تجویز پر کوئی پارلیمانی کمیشن تشکیل پاتا ہے تو اس کی تحقیقات یقینی طور پر دھرنے کی فنڈنگ کا پتہ چلانے تک محدود نہیں رہیں گی،بلکہ دیگر اْمور‘ جن میں دوسابق جرنیلوں کا دھرنے میں مبینہ کردار بھی شامل ہے،بھی زیر بحث آسکتے ہیں۔
اس لیے اغلب امکان ہے کہ ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کے مطالبے اور شہباز شریف کی تجویز کے باوجود وفاقی حکومت عمران خان کے دھرنے کی تحقیقات کیلئے کوئی پارلیمانی کمیشن قائم نہیں کرے گی‘ کیونکہ اس کا فوری اثر سول،ملٹری تعلقات میں موجودہ توازن پر ہوگا‘ جو پہلے ہی کافی نازک ہے اور فریقین میں سے کسی کی طرف سے ہلکا سا قدم بھی اسے ڈسٹرب کر سکتا ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف جانتے ہیں کہ ایسا ہونا اْن کی حکومت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف پر غداری کے مقدمے کو جوحشر ہواوہ اْن کے سامنے ہے۔
2013ء کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ(ن)کے رہنما نہ صرف پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی باتیں کرتے تھے،بلکہ کارگل پر بھی ایک کمیشن قائم کرنے کا دعویٰ کیا کرتے تھے‘ لیکن اب ان میں سے کسی بات کا ذکر نہیں کیا جاتا‘ کیونکہ سول‘ ملٹری تعلقات میں عدمِ توازن سیاسی قوتوں کے حق میں نہیں اور ایسی صورت میں وزیراعظم محمد نوازشریف دھرنے میں دوسابق جرنیلوں کے ملوث ہونے کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن قائم کرکے اپنی حکومت کیلئے خطرہ مول نہیں لے سکتے۔تاہم ایجی ٹیشن اور دھرنے کے ذریعے مبینہ طور پر ایک منتخب اور جمہوری حکومت کا تختہ اْلٹنے کی کوشش کو ناکام بنانے میں پارلیمنٹ نے جس طرح وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت کا ساتھ دیا تھا،اْس کے اعتراف کے طور پر حکومت نے قائد حزب اختلاف کی یہ تجویز مان لی کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی جائے۔قومی اسمبلی میں یہ رپورٹ پیش کردی گئی ہے اور ایوان نے اس پر بحث کا آغاز بھی کر دیا ہے۔قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی تقریروں سے مصالحت اور اکٹھے چلنے کی خواہش ٹپکتی ہے۔وزیراعظم محمد نوازشریف کی سوچ بھی اسی رجحان سے ہم آہنگ ہے‘ لیکن قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے نمائندوں اور ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام کے اراکین کے درمیان محاذ آرائی اور کشیدگی برقرار رہے گی۔اس کی وجہ اسمبلی سے باہر ان دونوں فریقوں کے درمیان جاری لڑائی ہے۔تحریک انصاف ایم کیو ایم کے خلاف کراچی میں رینجرز کے آپریشن کی نہ صرف کھل کر حمایت کررہی ہے بلکہ ایم کیو ایم پر بھارت سے فنڈنگ وصول کرنے کے الزامات کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن کے قیام پر بھی اصرار کررہی ہے۔ان دونوں پارٹیوں کی طرف سے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی نشستوں کو ختم کرنے کیلئے بھی ایک قرارداد پیش کی گئی ہے۔
لیکن یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف نہ تو دھرنے پر تحقیقاتی کمیشن قائم کریں گے اور نہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی نشستوں کو ختم کرنے کی قرارداد کی حمایت کریں گے‘ کیونکہ وہ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی کے حق میں ہیں۔اس کااظہار اْنہوں نے اپنی اْس تقریر میں بھی کیا تھا جو اْنہوں نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔
لیکن کیا اْن کی پالیسی کامیاب ہوتی ہے یا نہیں؟اس کا انحصار بہت حد تک تحریک انصاف اور خصوصاً عمران خان کے رویے پر ہے۔اگر عمران خان نے اپنا جارحانہ انداز برقرار رکھا جس کا مظاہرہ وہ پریس کانفرنس میں جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر اپنے ردِعمل میں کر چکے ہیں،تو مسلم لیگ (ن)کی اعلیٰ قیادت کیلئے اپنے دیگر رہنمائوں اور ورکرز کو تحریک انصاف اور عمران خان کو سخت تنقید بلکہ جوابی الزامات کا نشانہ بنانے سے روکنا مشکل ہوجائے گا۔اس لیے ایک پْرسکون سیاسی ماحول جو سب کی خواہش معلوم ہوتا ہے،کے قیام کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو صبر،ضبط اور حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں