آج سے 50برس قبل پاکستان نے ایک ایسی جنگ لڑی جسے بجا طور پر ملک کی بقاء کی جنگ کہا جا سکتا ہے کیونکہ ہمسایہ ملک بھارت نے 6ستمبر1965ء کو بغیر کسی وارننگ یا الٹی میٹم کے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان کے دل یعنی لاہور پر حملہ کیا تھا۔ اس جنگ سے قبل بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات آئیڈیل نہیں تھے۔ دونوں کے درمیان 1948ء میں کشمیر پر جنگ ہو چکی تھی۔ دونوں ممالک کی افواج کا بیشتر حصہ مشترکہ بین الاقوامی سرحد پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے تعینات تھا‘ جس کی وجہ سے نہ صرف سرحدوں پر کشیدگی موجود تھی بلکہ اکا دُکا جھڑپیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ 1948ء کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کا شدید خطرہ وزیر اعظم لیاقت علی خاں کے دور میں پیدا ہوا تھا‘جس کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار پاکستانی وزیر اعظم نے اپنا مشہور مُکا لہرا کر کیا تھا۔ پاکستانی قوم اور اس کی قیادت کی طرف سے اس جرأت کے اظہار کے بعد بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی؛ تاہم 1965ء کے موسم سرما میں رن آف کچھ کا معرکہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان ایک ایسا تصادم تھا جس میں بھارت کو 1948ء کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت اُٹھانا پڑی۔ اس جھڑپ میں بھارت نے بغیر کسی جواز کے اپنی مسلح افواج کو میدان جنگ میں جھونک دیا تھا؛ حالانکہ پاکستان اس مسئلے کو پرامن طریقے اور ثالثی کے ذریعے حل کرنے پر اپنی آمادگی کا اظہار کر چکا تھا۔ رن آف کچھ کا معرکہ بہت حد تک ستمبر 1965ء کی جنگ کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ وہ رن آف کچھ کے معرکے میں شکست کا بدلہ چکانے کے لیے پاکستان کے خلاف جنگ کے لیے وقت اور مقام کا انتخاب اپنی مرضی سے کرے گا۔
بھارت کے ساتھ اس سے قبل ہونے والی جنگوں یا تصادم کے مقابلے میں 1965ء کی جنگ تین اعتبار سے منفرد تھی۔ اوّل‘ یہ جنگ ایک ٹوٹل وار تھی۔ اس میں نہ صرف تینوں مسلح افواج نے حصہ لیا‘ بلکہ عوام کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس جنگ میں اپنی مسلح افواج کی متعدد طریقوں سے اعانت کی۔ فنکاروں نے ترانے گا کر اپنے بہادر جوانوں اور افسروں کا حوصلہ بڑھایا۔ شہریوں نے اگلے مورچوں پر جا کر سپاہیوں کو راشن اور کئی صورتوں میں اسلحہ بھی پہنچایا۔ اس جنگ میں متعدد ایسے واقعات ہوئے جن میں شہریوں نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر گولیوں کی بوچھاڑ میں اپنے زخمی سپاہیوں کو میدان جنگ سے اٹھانے میں مسلح افواج کی مدد کی۔ غرضیکہ اس جنگ میں پاکستانی مسلح افواج اور عوام کے درمیان مکمل ہم آہنگی موجود تھی۔ اس سے قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی جنگیں یا جھڑپیں یا تو کسی علاقے تک محدود ہوتی تھیں یا ان میں صرف بری فوج نے حصہ لیا تھا۔1965ء کی جنگ کا دائرہ پاکستان کی نہ صرف پوری مشرقی سرحد بلکہ فضا اور سمندر تک پھیلا ہوا تھا‘ یعنی بری فوج کے علاوہ اس جنگ میں ہماری بحریہ اور فضائیہ نے بھی بھر پور حصہ لیا۔ اس جنگ نے پوری قوم کو متحد کر دیا۔ تمام پاکستانی خواہ ان کا تعلق کسی علاقے‘ فرقے‘ مسلک یا سیاسی پارٹی سے تھا‘ متحد ہو کر اپنی مسلح افواج کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے تھے۔ اسی لیے اس جنگ کو قومی دفاع کے لیے عوامی جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔
دوم‘ 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی‘ شک اور شبہ کی ایک ایسی فضا قائم کر دی جسے ابھی تک دور نہیں کیا جا سکا۔ اگرچہ جنگ سے پہلے بھی دونوں ممالک حل طلب مسائل مثلاً کشمیر کی وجہ سے ایک دوسرے سے کھچے کھچے تھے‘ لیکن جنگ نے دونوں کے درمیان اختلافات کی ایک تقریباً ناقابل عبور خلیج حائل کر دی‘ جسے پاٹنے کی تمام تر کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ جنگ سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان عوامی سطح پر رابطے آسان تھے۔ کرکٹ میچ اور مشاعروں جیسے مواقع پر سرحد کے قریب رہنے والے لوگ بآسانی ایک دوسرے کے ہاں آ جا سکتے تھے اور اس قسم کے رابطوں کو ممکن اور سہل بنانے کے لیے سفارتی سطح پر خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان خشکی کے راستے محدود پیمانے پر تجارت بھی جاری تھی‘ ایک دوسرے کے درمیان کتابوں‘ اخبارات ‘ جرائد اور فلموں کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ پاکستان سے بھارت اور بھارت سے پاکستان فنکاروں‘ دانشوروں اور کھلاڑیوں کا آنا جانا عام تھا۔ پاکستان سے بھارت جانے والے زائرین اور بھارت سے پاکستان آنے والے زائرین خصوصاً سکھوں کے لیے سرکاری طور پر اہتمام کیا جاتا تھا (جو اب بھی کیا جاتا ہے)۔ اس طرح دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات ہر شعبہ زندگی میں معمول کے راستے پر گامزن تھے‘ مگر بھارت نے ستمبر 1965ء میں پاکستان پر حملہ کر کے پاکستانی عوام کے ذہنوں میں دشمنی کا ایک ایسا تاثر پیدا کیا کہ نہ صرف تمام روابط منقطع ہو گئے‘ بلکہ آئندہ کیلئے بھی دوستی اور تعاون کے امکانات بھی ختم ہو کر رہ گئے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ 1965ء کی جنگ مسلط کر کے بھارت نہ صرف پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر کاری ضرب لگانا چاہتا تھا‘ بلکہ اسے اس حد تک کمزورکرنا چاہتا تھا کہ وہ آئندہ اپنے دفاع کے لیے یا کشمیری عوام کی حمایت میں کوئی موثر اقدام نہ کر سکے۔
سوم‘ 1965ء کی جنگ پاکستان کی تاریخ خصوصاً خارجہ پالیسی کے شعبہ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے آثار تو 1965ء کی جنگ سے پہلے ہی نمایاں ہونے شروع ہو گئے تھے‘ اس عمل کا آغاز اس وقت ہوا جب 1962ء میں چین‘ بھارت سرحدی جھڑپ کے نتیجے میں پاکستان کے قریبی اتحادی امریکہ نے پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر بھارت کو وسیع پیمانے پر جنگی سازو سامان مہیا کیا۔ امریکہ کے اس اقدام پر پاکستان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور عوامی جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت نے امریکی ناراضگی کی پروا کیے بغیر چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنا شروع کر دیے تھے۔1963ء میں پاک چین سرحدی معاہدہ اور اسلام آباد‘ بیجنگ کے درمیان ہوائی سروس شروع کرنے کا فیصلہ اسی پالیسی کا نتیجہ تھے۔ تاہم 1965ء کی جنگ نے پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی پر مہر تصدیق ثبت کر دی کیونکہ جنگ کا آغاز ہوتے ہی امریکہ نے پاکستان کو ہتھیاروں اور فوجی سازو سامان کی سپلائی بند کر دی؛ حالانکہ سرکاری طور پر پاکستان نہ صرف امریکہ کا اتحادی تھا بلکہ امریکی سرپرستی میں تشکیل دیئے جانے والے دفاعی معاہدوں یعنی سیٹو اور سنٹو کا بدستور رکن بھی تھا۔ لیکن امریکہ نے ان تعلقات کی موجودگی میں پاکستان کو فوجی امداد بند کر دی جو کہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف اقدام تھا۔
ستمبر 1965ء میں پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑے اور عسکری شعبے میں برتری کے حامل دشمن کا مردانہ وار اور بہادری سے مقابلہ کیا۔ ہمارے جوانوں اور افسروں نے جان کی پروا کیے بغیر ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کیے۔ اس بہادری اور ایثار کا نتیجہ تھا کہ بھارت1965ء کی جنگ میں پاکستان پر حملہ کر کے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا وہ نہ کر سکا۔1965ء کی جنگ نے ثابت کر دیا کہ اگر جذبہ حب الوطنی اور شوق شہادت ہو تو بے سروسامانی بھی آڑے نہیں آتی اور جب فوجیں دفاع وطن جیسے عظیم مقصد کے لیے میدان میں اترتی ہیں تو شہری بھی پیچھے نہیں رہتے۔1965ء کی جنگ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ بھارت نے پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں پر اچانک حملہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے بھارت سے ملحقہ سرحدوں پر رہنے والے شہریوں کو وسیع جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن سرحدوں کے آس پاس رہنے والے لوگ اس نقصان سے گھبرائے نہیں‘ بلکہ اسے وطن عزیز کے دفاع اور سلامتی کے لیے ایک قربانی سمجھ کر خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک کی بہادر افواج کے ساتھ مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ہر ممکن امداد فراہم کی۔1965ء کی جنگ کے دوران اپنے اپنے فرائض انجام دینے والے سرکاری ملازم‘ محنت میں مصروف مزدور اور کسان بھی لائق ستائش ہیں کیوں کہ ان کی بدولت حکومت اور ریاست کا کاروبار چلتا رہا‘ فوج کے حوصلے بلند رہے اور عوام مشکلات کا شکار نہیں ہوئے۔ اسی لیے اس جنگ کو ایک مکمل جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔