"DRA" (space) message & send to 7575

بہار کے ریاستی انتخابات

بھارت کی ریاست بہار میں اس ماہ243رْکنی اسمبلی کے انتخابات ہورہے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی کی طرف سے اعلان کردہ انتخابی شیڈول کے مطابق یہ انتخابات پانچ مرحلوں میں12اکتوبر سے شروع ہوکر 5نومبر کو مکمل ہوں گے۔آبادی کے لحاظ سے بہار،اْتر پردیش کے بعد بھارت کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد چھ کروڑ اڑسٹھ لاکھ ہے۔بھارت اور اس کے سیاسی عمل میں دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں یہ ریاستی انتخابات خصوصی توجہ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ان انتخابات کو لوک سبھا کے اگلے یعنی2019 ء کے انتخابات کیلئے حکمران جماعت بی جے پی اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان کوارٹر فائنل میچ سے تشبیہ دی جارہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں یعنی للو پرشاد کی راشٹریہ جنتا دل، وزیراعلیٰ نتیش کمار کی جنتا دَل یونائیٹڈ اور کانگرس پر مشتمل ایک گرینڈ الائنس کی طرف سے بی جے پی اور اُس کی حلیف جماعتوں پر مشتمل نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو فیصلہ کُن معرکہ میں چیلنج کیا جارہا ہے۔بھارت کی اپوزیشن پارٹیاں جنہیں 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے بری طرح چت کر دیا تھا،اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی اور اُس کی حلیف جماعتوں کو بھی ان انتخابات کی اہمیت کا احساس ہے۔اس لیے اْن کے صف اول کے رہنمائوں نے گزشتہ دوماہ سے بہار میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ذات برادری اور مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے تقریباََ 10کروڑ آبادی والی اس ریاست میں سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ان رہنمائوں میں بی جے پی کے صدر امیت شاہ بھی شامل ہیں جو اْس وقت سے نریندرمودی کے ساتھ چلے آرہے ہیں جب وہ
گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔امیت شاہ کو 2014ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی فتح کا معمار سمجھا جاتا ہے۔ نریندرمودی نے بہار کے انتخابات کی اہمیت کے پیش نظر انتخابی مہم کی باگ ڈور امیت شاہ کے ہاتھ میں دے دی ہے۔امیت شاہ بہار کے انتہائی پیچیدہ ذات پات کے نظام پر مشتمل سماجی ڈھانچے میں بی جے پی کے حامی ووٹروں کو متحرک کررہے ہیں۔لیکن یہاں بھی بی جے پی نے وہی حکمت عملی اپنائی ہے جو اس نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہونے والے ضمنی / ریاستی انتخابات میں اپنائی تھی۔یعنی ''مودی کارڈ‘‘ کا استعمال۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ 2014ء میں لینڈ سلائڈ وکٹری دلانے والی مودی لہراب بھی توانا ہے۔اور بہار میں اْس کی بنیاد پر گرینڈ الائنس کو شکست دی جاسکتی ہے۔اس لیے مودی صاحب بھی بہار کے انتخابی معرکے میں کود پڑے ہیںاور اب تک اْنہوں نے ریاست کے مختلف مقامات پر چار بڑے جلسوں سے خطاب کیا ہے۔دوسری طرف گرینڈالائنس کے رہنما جن میں موجودہ وزیراعلیٰ نتیش کمار،للوپرشاد کے علاوہ کانگرس کے وائس پریذیڈنٹ راہول گاندھی اور پریذیڈنٹ سونیا گاندھی بھی شامل ہیں،جلسوں سے خطاب کررہے ہیں۔ وزیراعظم مودی نے ستمبر میں بہار کیلئے کھربوں روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا ہے۔بی جے پی ریاست میں دوبڑے دھڑوں یعنی مسلمانوں اور یادیو نسلی گروپ کے درمیان عرصہ سے چلے آنے والے اتحاد کو توڑنے اور یادیو گروپ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔بہار میں کل آبادی کا 18فیصد ہونے کی حیثیت سے مسلمان ہندوئوں کے بعد سب سے بڑا لسانی اور مذہبی گروپ ہے۔ان کے علاوہ اْونچی ذات کے ہندئوں کی تعداد16فیصد، بنیا7فیصد، دلت5فیصد، مہادلت10فیصد، دیگر پسماندہ ذاتیں10فیصد ہیں۔اگر ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ ووٹ دیں تو 60کے قریب حلقے ایسے ہیں جنہیں وہ متاثر کر سکتے ہیں ۔مسلمانوں کے ووٹوں سے پچاس کے قریب انتخابی حلقوں میں فرق پڑ سکتا ہے۔ماضی میں مسلمان یادیو ذات کے لوگوں کے ساتھ مل کر للوپرشاد یادیو کی جماعت راشٹریہ جنتا دَل کی حمایت کرتے آئے ہیں لیکن اس سے اْن کے مفادات کو کوئی خاص تحفظ نہیں ملا۔اس لیے اس دفعہ مسلمانوں نے ایک علیحدہ پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔اس اعلان سے گرینڈ الائنس کے حلقوں میں کھلبلی مچ گئی تھی۔کیونکہ مسلمانوں کے
علیحدہ ہونے سے براہ راست بی جے پی کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مسلمانوں نے گرینڈ الائنس کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے نتیش کمار اور للو پرشاد پر مشتمل اتحاد کو تقویت ملے گی۔ لیکن اس کے باوجود بیشتر انتخابی سروے بی جے پی کی کامیابی کے امکانات کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہار کی ریاست جو للو پرشاد کے طویل دور میں بدامنی،لاقانونیت اور حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے پورے بھارت میں بدنام تھی، تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ 2010ء کے ریاستی انتخابات میں للو پرشاد کی جماعت راشڑیہ جنتا دَل کو بْری طرح شکست ہوئی تھی اور اْسے243اسمبلی نشستوں میں سے صرف 22 نشستیں ملیں۔ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دَل یونائیٹڈ اور بی جے پی علی الترتیب 115اور91نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹیاں بن کر اْبھری تھیں۔اور ان ہی دوپارٹیوں نے مل کر حکومت تشکیل دی اور نتیش کمار مشترکہ طور پر وزیراعلیٰ بنے۔نتیش کمار کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اْنہوں نے اپنے دور میں بہار میں نہ صرف لاقانونیت ختم کی بلکہ ریاست کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا۔یہاں تک کہ بہار کو گجرات کے مقابلے میں ترقی اور خوشحالی کے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔نتیش کمار کی انتظامی صلاحیتوں اور بہار میں اْن کی کامیابی سے متاثر ہوکر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اْن کو صوبے کے دورے کی دعوت بھی تھی اور وہ پنجاب میں تشریف بھی لائے تھے۔ لیکن بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ نتیش کمار کے دور میں بہار میں امن و امان کی بہتر صورت حال اور ترقیاتی عمل کی کامیابی دراصل اْن کے ساتھ بی جے پی کے اتحاد اور تعاون کی رہین منت تھی۔ نتیش کمار کی جنتا دَل یونائیٹڈ اور بی جے پی کے راستے اْس وقت جدا ہوگئے جب این ڈی اے نے 2014ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں نریندرمودی کو وزیراعظم کے عہدے کیلئے نامزد کیا۔نتیش کمار کا موقف تھا کہ بھارت کو ایسا وزیراعظم چاہیے جو سیکولر سوچ کا مالک ہو تاکہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اتفاق اور امن سے رہ سکیں۔ نتیش کمار کے نزدیک نریندرمودی انتہا پسند ہندو ذہنیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ وزیراعظم بنے تو بھارت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا۔ ملک میں مذہب کے نام پر تشدد میں اضافہ ہوگا (جو کہ بدقسمتی سے مودی کے موجودہ دور میں سچ ثابت ہورہا ہے) جب اْن کی رائے کے برعکس این ڈی اے نے نریندرمودی کو وزیراعظم کے عہدے کیلئے نامزد کردیا تو نتیش کمار اپنی پارٹی جنتا دَل (یونائیٹڈ)سمیت این ڈی اے سے الگ ہوگئے۔
اس کے مقابلے میں بی جے پی کی طرف سے نتیش کمار پر سیاسی موقعہ پرستی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اْنہوں نے بی جے پی کی مخالفت میں اپنے پرانے حریف للو پرشاد کو گلے لگا لیا ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ نتیش کمار اور للو پرشاد کا اتحاد غیر فطری ہے اور بہار میں اسے بی جے پی کے مقابلے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ جہا ں تک کانگرس کا تعلق ہے۔ اُس کے امیدوار41ریاستی نشستوں پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں؛ تاہم اُن کی کامیابی کی بہت کم اْمید ہے۔گذشتہ ریاستی انتخابات یعنی2010ء میں کانگرس کو صرف چار نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔اس دفعہ بھی اْسے 5سے زیادہ نشستیں حاصل ہونے کی اْمید نہیں۔
''این ڈی اے‘‘ اور گرینڈ الائنس دونوں کی انتخابی حکمتِ عملیوں میں چھوٹی اور پسماندہ ذاتوں کی حمایت حاصل کرنے پر زور دیا جارہا ہے جو سیاسی اتحاد ان کی حمایت حاصل کرے گا وہ الیکشن جیت لے گا۔ ان ذاتوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بی جے پی حسب معمول مودی کی ذات کے علاوہ نوجوان طبقے‘ ترقیاتی عمل کو تیز کرنے اور قوم پرست ہندوتوا پر جبکہ گرینڈ الائنس میں شامل سیاسی جماعتیں سیکولرازم، بی جے پی کی موجودہ ناکام پالیسیوں خصوصاََ کاشتکاروں کو پہنچنے والے نقصانات تشدد اور عدم برداشت کے فروغ، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ جیسے مسائل کو اْجاگر کر رہی ہیں۔ پانچ مرحلوں میں ہونے والے انتخابات جب اگلے ماہ ختم ہوں گے تو ان کا نتیجہ صرف اس بات کا فیصلہ نہیں کرے گا کہ اگلے پانچ برس کیلئے ریاست بہار میں کون حکومت کرے گا، بلکہ اس سے پورے بھارت کی سیاست پر اہم اثرات مرتب ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں