پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور تعاون وقت کی اہم ضرورت ہی نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کی خواہش بھی ہے۔اس لیے کہ دونوں ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں اور جیسا کہ کہا جاتا ہے دوست تبدیل کیے جاسکتے ہیں،ہمسائے نہیں۔جغرافیائی محل وقوع ایک ایسی حقیقت ہے جسے تبدیل کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔آپ پاکستان کو اْٹھا کرشمالی امریکہ یا مغربی یورپ کے خطوں میں فٹ نہیں کرسکتے۔پاکستان جنوبی ایشیا کے خطے میں واقع ہے اور اس نے اسی خطے کا حصہ ہو کر رہنا ہے۔ماضی میں ہم نے اس جغرافیائی حقیقت کو نظر اندا ز کرکے کبھی ''سیٹو‘‘ کارْکن بن کر جنوب مشرقی ایشیا میں گھسنے کی کوشش کی اور کبھی معاہدہ بغداد (بعد میں سنٹو)میں شامل ہوکر مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے ممالک کی صفوں میں کھڑا ہونے کی کوشش کی۔1971ء میںجب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا اور اس نسبت سے جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ ہماراجغرافیائی تعلق بھی ختم ہوگیا،تو ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ اب مشرق یعنی جنوبی ایشیا سے ہماراکوئی تعلق نہیں اور ہم مغرب یعنی مغربی ایشیا کے ممالک مثلاََ ایران،افغانستان،ترکی اور خلیج فارس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیں گے۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان اور ان ممالک کے درمیان سیاسی،سفارتی اور معاشی شعبوں میں تعلقات میں یقینا اضافہ ہوا۔ایران،افغانستان اور ترکی کے ساتھ مل کر پاکستان ای۔سی۔او (E-C-O)کا رْکن بھی ہے جس میں وسطی ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہیں لیکن نہ مٹنے والے تاریخی،جغرافیائی اور ثقافتی ناطوں نے بالآخر پاکستان کو حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا اور 1970ء کی دہائی کے آخری برسوں میں اسے جنوبی ایشیا کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنانا پڑا۔ اس کا سب سے اہم ثبوت 1985ء میں جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون''سارک‘‘ میں پاکستان کی شمولیت تھی جس میں خطے کے دوسرے ممالک کے علاوہ بھارت بھی شامل ہے۔حالانکہ1948ء میں جب بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے علاقائی تعاون کو فروغ دینے کیلئے دہلی میں ایشین ریلیشنزکانفرنس بلائی تھی تو پاکستان نے اس میں شرکت سے انکار کردیاتھا۔
اگرچہ تین دہائیوں کے باوجود''سارک‘‘نے کوئی قابل ذکر ترقی نہیں کی اور اپنے قیام کے موقع پر اس تنظیم نے جوا ہداف مقرر کیے تھے،وہ ہنوز دسترس سے باہر ہیں لیکن ''سارک‘‘میں شمولیت کے بعد پاکستان کی علاقائی شناخت کا مسئلہ حل ہوگیا۔باہر کی دنیا تو ہمیشہ ہمیں جنوبی ایشیا کا ہی ایک ملک سمجھتی تھی،ہم نے بھی یہ طے کر لیا کہ ہمارا فائدہ،نقصان اور مستقبل اسی خطے سے وابستہ ہے۔اس کی وجہ سے پاکستان کے خارجہ تعلقات میں جنوبی ایشیا اور اس خطے کے ممالک کے ساتھ تجارت،ثقافت اور اقتصادی شعبوں میں تعلقات کے فروغ کو ایک نمایاں جگہ دی گئی۔تاہم اس سمت جتنی پیش رفت ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے،وہ نہیں ہوئی۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان چند حل طلب اور دیرینہ مسائل مثلاً کشمیر اور پانی کا مسئلے کی موجودگی ہے۔1985میں جب ''سارک‘‘کا قیام عمل میں لایا جارہا تھا تو بھارت کے اصرار پر اس کے چارٹر میں ایک دفعہ شامل کی گئی کہ رْکن ممالک کے درمیان متنازعہ دوطرفہ مسائل کو ''سارک‘‘ کے فریم ورک کے تحت زیربحث نہیں لایا جائے گا۔اْس وقت اس دفعہ کے حق میں یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ ''سارک‘‘ کی میٹنگزمیں اگر رْکن ممالک کے درمیان دوطرفہ جھگڑوں کو زیرِ بحث لایا گیا تو یہ اجلاس بلکہ ''سارک‘‘ کی تمام توانائیاں اسی بحث کی نظر ہوجائیں گی اور جس مقصد کیلئے ''سارک‘‘ کو قائم کیا جارہا ہے وہ نظروں سے اوجھل رہے گا۔اس لیے فیصلہ یہ ہوا کہ آپس کے جھگڑوں اور دوطرفہ اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے رْکن ممالک باہمی تجارت کو فروغ دیں،آپس میں مواصلاتی رابطے بڑھائیں اور مشترکہ مسائل مثلاً غربت کا خاتمہ،سمگلنگ کی روک تھام،قدرتی آفات کا مقابلہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مربوط پالیسیوں پر مبنی حکمتِ عملی کی تشکیل کریں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جن دوطرفہ متنازعہ جھگڑوں کی وجہ سے ''سارک‘‘ کے چارٹر میں یہ دفعہ شامل کی گئی تھی،اْن سب کا تعلق بھارت اور اْس کے ہمسایہ ممالک سے ہے۔ان میں پاکستان ہی شامل نہیں بلکہ نیپال،بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی شامل ہیں۔ان سب کے ساتھ بھارت کا کوئی نہ کوئی تنازع موجود ہے۔بھارت کی طرف سے اس دفعہ کو شامل کرنے پر اصرار کا مطلب ہی یہی تھا کہ بھار ت کو اندازۃ تھا کہ اْسے ان تمام ممالک کی طرف سے دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس لیے اْس نے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے درمیان اقتصادی،تجارتی تعلقات اور علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے عمل کو دوطرفہ متنازعہ مسائل کے حل سے الگ رکھنے کی شرط منظور کروالی۔جنوبی ایشیا کے ممالک چونکہ اقتصادی لحاظ سے کمزور ہیں اور انہیں اپنے ہاں غربت،پسماندگی او ردیگر مسائل پر قابو پانے کیلئے خطے
کے دوسرے ممالک کی مدد یعنی علاقائی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔اس لیے اْنہوں نے ''سارک‘‘ کی ترقی کی خاطر بھارت کی طرف سے عائد شدہ شرط قبول کرلی۔اور اس طرح چارٹر پر جنوبی ایشیا کے تمام (سات)ممالک کی جانب سے دستخط ہونے کے بعد سارک کا قیام عمل میں آیا۔جنو بی ایشیا کے ممالک نے اس شرط کو اس اْمید پر بھی قبول کیا تھا کہ اس سے ''سارک‘‘ کے تحت علاقائی تعاون کے عمل میں روکاوٹ نہیں پڑے گی اور دوسرے یہ کہ ''سارک‘‘کے تحت علاقائی تعاون کا عمل جوں جوں آگے بڑھے گا،دوطرفہ تنازعات کے حل کیلئے بھی سازگار ماحول کی راہ ہموار ہوجائے گی۔لیکن جلد ہی معلوم ہوگیا کہ دوطرفہ تنازعات خصوصاً پاک بھارت اختلافات کی موجودگی میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ان دونوں ممالک میں ان تنازعات کی وجہ سے کشیدگی اور عدم اعتماد کی فضا کی موجودگی میں ''سارک‘‘ کے تحت علاقائی تعاون کے عمل کا آگے بڑھنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔اگرچہ ''سارک‘‘کے تحت جنوبی ایشیا کو ایک سیفٹا (SAFTA) معاہدے کے تحت ایک فری ٹریڈ ایریا بھی قرار دے دیاگیا۔غیر سیاسی شعبوں مثلاً تعلیم،صحت،مواصلات،قانون اور مواصلاتی رابطوں کے شعبوں میں بھی اہم پیش رفت ہوئی لیکن علاقای تعاون اور خصوصاََ تجارت کے شعبے میں ترقی کی رفتار بہت سست رہی ۔اس کا اندازہ اسی حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ''سارک‘‘ کو قائم ہوئے تیس برس ہوچکے ہیں لیکن رْکن ممالک کی باہمی تجارت ان کی کل تجارت کے 6فیصد حصہ سے بھی کم ہے۔اور جب ہم ''سارک‘‘ کا موازنہ دنیا کے دیگر حصوں میں قائم علاقائی تعاون کی تنظیموں سے کرتے ہیں تو سارک
ایک ناکام تنظیم کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
اس کی سب سے اہم وجہ ''سارک‘‘ کے فریم ورک سے دوطرفہ تنازعات کو الگ کرنا ہے۔وقت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ اپروچ ناکام ہوچکی ہے۔گذشتہ چھ دہائیوں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن اور علاقائی تعاون رْکن ممالک کے درمیان پائے جانے والے دوطرفہ تنازعات اور جھگڑوں کے حل سے جْڑے ہوئے ہیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے نہ صرف ''سارک‘‘کے مطلوبہ مقاصد بلکہ خطے میں امن و استحکام بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔اس حقیقت کی جیتی جاگتی تصویر ہمارے سامنے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کے مسلسل تعطل اور سرحدوں پر فائرنگ کے تبادلے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کی شکل میں موجود ہے۔ ستمبر کے اوائل میں دونوں ملکوں کی سرحدی افواج کے سربراہوں کے درمیان نئی دہلی میں سرحدوں کی خلاف ورزی اور فائرنگ روکنے کیلئے مذاکرات ہوئے تھے۔یہ مذاکرات تین دن جاری رہے۔پاکستان کی طرف سے ڈی۔جی۔رینجرز کی قیادت میں16رْکنی وفد بھیجنے اور ایک وسیع ایجنڈے پر تسلی بخش مذاکرات ہونے سے ظاہر ہوتا تھا کہ اب سرحدوں پر فائرنگ نہیں ہوگی اور2003ء کے سیز فائر معاہدے پر پوری طرح عمل کیا جائے گا۔لیکن مذاکرات ختم ہونے کے دو دن بعد ہی کشمیر میں لائن آف کنڑول کے آرپار فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اور اب تک جاری ہے۔اس میںایک پاکستانی فوجی شہید اور متعدد شہری زخمی بھی ہوچکے ہیں لیکن دونوں ممالک سرحدوں پر امن بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک بنیادی مسئلے یعنی کشمیر کے حل کی طرف نمایاں پیش قدمی نہیں ہوتی پاک،بھارت امن اور اس کے ساتھ علاقائی تعاون ایک سراب رہے گا۔