الیکشن ٹربیونلNA-122میں عمران خان کے مدِمقابل ایاز صادق کے خلاف دھاندلی کے الزامات تو ثابت نہ کرسکا لیکن انتخابی عملے کی جانب سے بعض بے ضابطگیوں کے ارتکاب کی بنیاد پر2013ء کے انتخاب کو کالعدم قراردے کر نہ صرف NA-122بلکہ قومی اسمبلی کے اس حلقے میں شامل صوبائی اسمبلی کے حلقے PP-147میںبھی دوبارہ انتخابات کا حکم دے دیا۔ایازصادق اور صوبائی حلقہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 2013ء کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے اْمیدوار محسن لطیف اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتے تھے‘ لیکن اْنہوں نے ایسا نہیں کیا۔اس کی بجائے اْنہوں نے بقول اْن کے ''عوام کی عدالت‘‘میں جانے کا فیصلہ کیاکیونکہ اْن کا موقف تھا کہ2013ء کے انتخابات صاف،شفاف اور غیر جانبدارانہ تھے‘اور اس کے نتائج پاکستانی عوام کی اْمنگوں اور خواہشات کے صحیح آئینہ دار تھے،اْن کا دعوی تھا کہ ضمنی انتخابات میں وہ پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوں گے۔
لیکن11اکتوبر کے نتائج فریقین کے دعووں کے برعکس نکلے۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ NA-122میں 53ہزار جعلی ووٹ ڈالے گئے لیکن ایاز صادق نے اپنے مدِمقابل تحریک انصاف کے اْمیدوار علیم خان سے تقریباً ڈھائی ہزارووٹ زیادہ حاصل کرکے عمران خان کے دعوے کو غلط ثابت کردیا۔دوسری طرف مسلم لیگ (ن)بھی اپنے اس دعوے کو سچ ثابت نہ کرسکی کہ ضمنی انتخابات میں وہ پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوکرثابت کرے گی کہ عمران خان نے دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کرنے کے جوالزامات عائد کیے گئے تھے‘ وہ غلط ہیں‘بلکہ صوبائی اسمبلی کی حلقہ PP-147میں مسلم لیگ (ن) کے اْمیدوار محسن لطیف کی تحریک انصاف کے اْمیدوار شعیب صدیقی کے ہاتھوں شکست نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔ان میں سے دوبڑے اہم ہیں۔کیا لاہور جوکہ پاکستان مسلم لیگ(ن)کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ،اس کے ہاتھ سے سرک رہا ہے؟اور حالیہ انتخابی نتائج کی روشنی میں تحریک پاکستان کے چیئرمین عمران خان کا رویہ کیاہوگا؟
NA-122اور PP-147دونوں حلقوں میں کامیاب اْمیدواروں کی صرف ڈھائی اور تین ہزار ووٹوں کی سبقت سے جیت کی اصل وجہ یہ ہے کہ انتخابی معرکے میں فریقین نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے ہر قسم کے روایتی اور غیر روایتی طریقے استعمال کیے گے۔ان میں وسیع پیمانے پر اور مہنگی پبلسٹی جو کہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں‘ اور میڈیا کوریج بھی شامل ہے۔جتنے دن انتخابی مہم جاری رہی ،یوں محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان میں اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔میڈیا نے حسب روایت ایسی ہائپ پیدا کررکھی تھی جیسے ان حلقوں میں انتخابات کے فیصلے پر پورے ملک کے مستقبل کا انحصار ہے۔مسلم لیگ (ن)اور تحریک پاکستان نے بھی اسے اپنی بقا کا مسئلہ بنا رکھا تھا۔ خصوصاً لاہور کے دونوں حلقوں کے انتخابی تنائج کو ان پارٹیوں کیلئے میکmakeیا بریکBreakکے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ لاہور کے ان دونوں حلقوں پر فریقین اور میڈیا کے بھر پور فوکس کے باوجود الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ سرکاری نتائج کے مطابق ووٹوں کا تناسبTurn Outاوکاڑہ کی قومی اسمبلی کی نشست NA-144میں سب سے زیادہ 51فیصد رہا‘جبکہ اس کے مقابلے میں NA-122میں43.10فیصد اورPP-147میں44.2فیصد رہا۔ضمنی الیکشن میں ووٹروں کی دلچسپی کم ہوتی ہے اور اْمیدواربھی انہیں گھروں سے نکالنے کیلئے لمبی چوڑی بھاگ دوڑ سے کام نہیں لیتے‘اس لیے یہ ایک غیر معمولی ٹرن آئوٹ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ان انتخابات میں فریقین نے غیر معمولی سرگرمیوں اور کوشش سے کام لیا ہے۔اس سے ان انتخابات کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
حلقہ NA-122میں مسلم لیگ (ن)کے اْمیدوار ایازصادق کی بمشکل کامیابی اور اسی حلقے میں شامل صوبائی نشست پر اس کے اْمیدوار محسن لطیف کی ہار سے بعض تجزیہ نگار یہ نتیجہ اخذ کررہے ہیںکہ لاہور میں مسلم لیگ کی مقبولیت میں کمی اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اگر لاہور‘ جسے پاکستان کی سیاست کا دل کہا جاتا ہے‘ کو قومی سیاست کا بیرومیٹر سمجھا جائے تو پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں مسلم لیگ(ن)کی پوزیشن کمزور اور اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ان انتخابی نتائج کے بعد تحریک انصاف کا جوردِعمل سامنے آیا ہے اْس سے محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اور اْن کی پارٹی اس تاثر کو نہ صرف درست سمجھتی ہے بلکہ اْنہیں یقین ہے کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت عوام کی حمایت سے محروم ہوچکی ہے‘لیکن ضروری نہیں کہ یہ تاثر درست ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح قومی انتخابات کے مقابلے میں صوبائی انتخابات اور مقامی انتخابات کے محرکات مختلف ہوتے ہیں‘اسی طرح ضمنی انتخابات میں ووٹرز اپنے پسندیدہ اْمیدوار کے حق میں فیصلہ کرتے وقت مخصوص ترجیحات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ان ترجیحات کا تعلق زیادہ تر مقامی حالات اور انتخاب میں حصہ لینے والی شخصیات سے ہوتا ہے۔اس کی واضح ترین مثال اوکاڑہ کی نشست NA-144 پر انتخابی معرکہ ہے جس میں دونوں سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان مسلم لیگ(ن)اور تحریک پاکستان کے اْمیدواروں کے مقابلے میں ایک آزاد اْمیدوار نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔لاہور کے انتخابی حلقوں کے مقابلے میں اوکاڑہ میں تحریک انصاف کی کارکردگی انتہائی مایوس کْن رہی۔
لاہور کے انتخابی نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے اپنی انتخابی کارکردگی کو بہتر کیا ہے۔مئی2013ء کے انتخابات کے مقابلے میں تحریک انصاف نے زیادہ منظم طریقے سے انتخابات میں حصہ لیا‘اور اسی وجہ سے ایاز صادق کو صرف دوہزار چار سو تینتالیس (2,443)ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل ہوسکی۔
ضمنی انتخابات میں اگرچہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی کو سراہا اور انتخابی نتائج کوتسلیم کرنے کااعلان کیا ہے‘ لیکن ساتھ ہی اپنے تحفظات کا بھی اعلان کردیا ہے‘بلکہ یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ انتخابی عمل کے آخری مرحلے پر حلقہ NA-122سے تحریک انصاف کے ووٹروں کے نام انتخابی فہرستوں سے نکال کر NA-122 سے باہر حلقوں میں منتقل کر دیے گئے تھے۔اس کے علاوہ اسی آخری مرحلے میں مسلم لیگ(ن)کے حامی ووٹروں کے نام باہر سے لا کر NA-122کے حلقے کی ووٹرز لسٹوں میں شامل کیے گئے ہیں۔تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں تحقیقات کررہی ہے اور ثبوت سامنے آنے پر وہ مناسب کارروائی کرے گی‘جس میں NA-122کے انتخابی تنائج کو الیکشن ٹربیونل میں چیلنج کرنا بھی شامل ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف تحقیقات اور ثبوت سے پہلے الزام تراشی کی روایت سے ابھی تک دستبردار نہیںہوئی۔اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کی طرف سے حلقہ NA-122میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کیلئے درخواست بھی دائر کی گئی۔اس سے مبصرین یہ نتیجہ اخذ کررہے ہیں کہ تحریک انصاف NA-122کے انتخابی نتائج کو متنازع بنا کرملک میں سیاسی بحران کی کیفیت کو بدستور قائم رکھنا چاہتی ہے۔اس سے عمران خان غالباََ دومقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ایک یہ کہ مسلم لیگ (ن)کی حکومت کے پائوں نہ جمنے دیے جائیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد نہ کرسکے‘کیونکہ اس صورت میں وہ آئندہ انتخابات میں بہتر کارکردگی کامظاہرہ کرسکے گی۔اور دوسرے جارحانہ انداز ِسیاست اختیار کرکے تحریک انصاف کے پُرجوش اور انتہائی موٹی ویٹڈ( Motivated)کارکنوں کا لہو گرم رکھنے کا بہانہ تلاش کیاجاسکے۔پاکستان مسلم لیگ(ن)کے حلقوں کے مطابق گذشتہ برس وزیراعظم محمد نوازشریف کے استعفے کے حصول میں ناکامی اور پانچ ماہ کے دھرنے کے بے نتیجہ خاتمے کے بعد،عمران خان کیلئے لاہور کے ضمنی انتخابات میں شکست سیاسی واٹرلْو ثابت ہوگا‘لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔آنے والے دنوں میں ملک بدستور سیاسی بحران اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار رہے گا۔