"DRA" (space) message & send to 7575

بہار کے انتخابی نتائج اور بھارت کا سیاسی نقشہ

چند ماہ پیشتر جب بھارت کی چوتھی بڑی ریاست بہار میں اسمبلی کے انتخابات کی گہما گہمی کا آغاز ہوا تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ نریندرمودی کی پارٹی بی جے پی کو نتیش کمار اور لالو پرشاد یادیو کی پارٹیوں یعنی جنتا دَل (یو)اور راشٹریہ دَل کے ہاتھوں عبرتناک شکست اْٹھانا پڑے گی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسی ریاست بہار میں صرف اٹھارہ ماہ قبل مئی 2014ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں40میں سے31نشستیں حاصل کر کے بی جے پی کی قیادت میں بننے والے سیاسی اتحاد این ڈی اے نے کلین سویپ کیا تھا۔ نتیش کمار اور لالو پرشاد کی پارٹیاں علی الترتیب صرف دو اور چار سیٹیں حاصل کرسکی تھیں اس کے علاوہ اسی عرصہ کے دوران میں ہونے والے دیگر ریاستی انتخابات(مہاراشٹریہ ،جھارکنڈ،ہریانہ اور جموں وکشمیر)میں بی جے پی نریندرمودی کی قیادت میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی تھی۔البتہ دسمبر2014ء میں دہلی میںہونے والے انتخابات میں بی جے پی کو اروند کجروال کی ''عام آدمی پارٹی‘‘نے بری طرح ہرادیاتھا۔
اس کے باوجود بہار میں اسمبلی کے انتخابی نتائج نے سب کو حیران کردیا ہے۔تقریباً تمام انتخابی سروے سخت مقابلے کی پیش گوئی کر رہے تھے لیکن تین جماعتوں یعنی جنتا دل(یو) راشٹریہ دَل اور کانگرس کے اتحاد نے دوتہائی اکثریت حاصل کرکے تمام اندازے غلط ثابت کردئیے ہیں۔آخر ایسے کون سے اسباب ہیں جن کی بنا پر نریندرمودی کی پارٹی بی جے پی کو بہار سے ہاتھ دھوناپڑے اور بی جے پی کی اسی شکست کا مودی سرکار کے آئندہ عزائم اور بھارت کے مستقبل کے سیاسی نقشہ پر کیا اثر پڑے گا؟
خود لالو پرشاد یادیو کے مطابق تینوں پارٹیوں کے اتحاد''گرینڈ الائنس‘‘ کی کامیابی کی بڑی وجہ اْس کے رہنمائوں اور کارکنوں کی انتھک محنت اور جارحانہ انتخابی مہم ہے بی جے پی کی توجہ بڑے بڑے انتخابی جلسوں اور ریلیوں پر مرکوز تھی جن میں سے دودرجن سے نریندر مودی نے بھی خطاب کیا۔مقامی سطح پر عوام سے رابطہ کرنے اور ڈور ٹو ڈورانتخابی مہم چلانے کی بجائے بی جے پی نے ''مودی ویوModi wave‘‘پر تکیہ کیا۔اس کے مقابلے میں ''گرینڈ الائنس‘‘نے گھر گھر جاکر ووٹ کی درخواست کی۔اس کے تمام رہنمائوں جن میں نتیش کمار اور لالو پرشاد یادیو کے علاوہ کانگرس کی صدر سونیا گاندھی اور راہول گاندھی بھی شامل تھے،نے انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لیا۔لالو پرشاد نے اسمبلی کے تمام یعنی243حلقوں کا دورہ کرکے ہرحلقے میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
مبصرین کے مطابق''گرینڈ الائنس‘‘ کی کامیابی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کے ان ریمارکس نے بڑا اہم کردار اداکیا ہے جن میں اْنہوں نے پسماندہ طبقوں کیلئے کوٹہ سسٹم پر نظر ثانی کی تجویز پیش کی تھی۔بھگوت نے یہ تجویز بہار میں اْونچی ذات کے ہندوئوں کو خوش کرنے کیلئے دی تھی۔لیکن بہار کی آبادی میں دلت،پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے۔آر ایس ایس کے اس بیان کو گرینڈ الائنس نے خوب اْچھالا اور اسے غریب اور پسماندہ ذات کے لوگوں کیلئے خطرے کی گھنٹی قراردیا۔ بی جے پی اور نریندر مودی کی طرف سے وضاحتیں آنے کے باوجود نیچی ذات کے ہندو مطمئن نہ ہوئے اور اْنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر''گرینڈ الائنس‘‘ کے حق میں ووٹ دیا۔اس کے علاوہ گزشتہ اٹھارہ ماہ میں حکمران جماعت بی جے پی اور اس کی حلیف انتہا پسند ہندو جماعتوں یعنی آر ایس ایس،شیوسینا، بجرنگ دَل اور ہندو پریشد نے جس طرح ملک میں اقلیتوں کے خلاف خوف و ہراس اور زندگی کے ہر شعبے میں انتہا پسند ہندو نظریے کو مسلط کرنے کی مہم چلا رکھی ہے، اْس سے عیسائی،مسلمانوں اور سکھوں میں ہی نہیں بلکہ روشن خیال،اعتدال پسند اور سیکولر ذہن رکھنے والے ہندوئوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔کیونکہ اس مہم کے نتیجے میں بھارتی معاشرہ تیزی سے دھڑوں میں تقسیم ہوکرباہمی منافرت اور عدم برداشت کا شکار ہوتاجارہا ہے۔اس کی سب سے نمایاں مثال بھارتی دانشوروں،مصنفین،تاریخ دانوں،فلمسازوں اور سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے سرکاری اعزازات کی واپسی کا سلسلہ ہے جس میں متواتر اضافہ ہورہا ہے۔مذہب کے نام پر انتہاپسند ہندوئوں کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کے قتل اور تعلیمی،سماجی اور ثقافتی شعبوں میں انتہا پسند قوم پرستی کے فلسفے''ہندوتوا‘‘کو مسلط کرنے کی کوشش اور ان پر وزیراعظم نریندرمودی کی خاموشی نے نہ صرف نچلی ذات بلکہ دیگر ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں میں بھی اضطراب کی لہردوڑادی ہے۔اس کے تحت آبادی کا ایک بڑا حصہ نریندرمودی اور بی جے پی سے برگشتہ ہوتاچلاجارہا ہے۔بلکہ بھارت کے سنجیدہ حلقوں میں ان پالیسیوںکو ملک کے امن اور اتحاد کیلئے تباہ کْن قراردیا جارہا ہے۔
بہار کے ان انتخابی نتائج کا بھارتی سیاست اور معاشرے پر کیا اثر ہوگا؟اس ضمن میں ایک بات تو یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی کی حکومت کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کے ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دینے کی کوششوں میں تیزی آئے گی۔راشٹریہ جنتادَل اور بہار کے حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹی کے سربراہ لالو پرشاد یادیو نے تو اعلان کردیا ہے کہ وہ ایک ایسے اتحاد کے قیام کیلئے جلد ملک بھر کا دورہ کریں گے۔اس سلسلے میں اْنہوں نے اْن ریاستوں کا خاص طور پرذکر کیا ہے جہاں اگلے سال ریاستی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔مثلاً مغربی بنگال جس کی وزیراعلیٰ اور ترینامول کانگرس کی سربراہ ممتا بینرجی نے نتیش کمار اور لالو پرشاد کو اْن کی کامیابی پر مبارک دیتے ہوئے اسے تاریخی قراردیا ہے۔''عام آدمی‘‘پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال بھی اْن رہنمائوں میں شامل ہیں جنہوں نے بہار میں بی جے پی کی شکست اور ''گریند الائنس ‘‘کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ان دونوں رہنمائوں کی طرف سے لالو پرشاد کی تجویز کی حمایت کا قوی امکان ہے۔سماج وادی پارٹی (ایس۔پی)پہلے ''گرینڈ الائنس‘‘کا حصہ تھی بلکہ اس کے سربراہ ملائم سنگھ یادیو کی تجویز پر ہی ''گرینڈ الائنس‘‘ معرض وجود میںآیا تھا۔بعد میں وہ اس سے الگ ہوگئے۔لیکن اْمید ہے کہ نتیش کمار اور لالو پرشاد یادیو کی قیادت میں''گرینڈ الائنس‘‘کی حیران کْن کامیابی کے بعد وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔اسی
طرح مایاوتی جن کی بھوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)نے اتر پردیش کے حالیہ پنچایتی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے،اپوزیشن کے ایک وسیع تر اتحاد میں شمولیت پرراضی ہوسکتی ہیں بشرطیکہ ''گرینڈ الائنس‘‘کے رہنما ملائم سنگھ یادیو کے ساتھ مایاوتی کے اختلافات کو دور کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
اس لیے بی جے پی کے خلاف ایک وسیع تر جماعتی اتحاد کے قیام کے حق میں معروضی حالات تو موجود ہیں لیکن بھارت جیسے ایک وسیع اور متنوع ملک میں مختلف نظریات،سیاسی پروگرام اور سماجی پس منظر کی حامل جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا مشکل ہے۔اس لیے بہار میں ''گرینڈ الائنس‘‘کی کامیابی کے بعد ایک بی جے پی مخالف وسیع تر سیاسی اتحاد کی کوششوں میں تیزی تو آئے گی لیکن اسے بار آور ہونے میں دیر لگے گی۔
دوسری طرف بہار کے ریاستی انتخابات میں شکست بی جے پی کیلئے یقیناایک بڑا دھچکا ہے لیکن اس سے مرکز میں اس کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ لوک سبھا میں اسے بدستور بھاری اکثریت حاصل رہے گی البتہ ریاستی انتخابات جیت کر راجیہ سبھا(ایوان بالا)میں اکثریت حاصل کرنے کی کوشش ضرور متاثر ہوگی۔جہاں تک آر ایس ایس اور شیوسینا کے انتہا پسندانہ رویے کا تعلق ہے، اْس میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں بلکہ بہار میں شکست کے بعد بی جے پی ان کے سامنے مدافعانہ انداز اپنانے پر مجبور ہوجائے گی۔ان دونوں جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم نریندرمودی پر ''ہندوتوا‘‘کے تابع پالیسیوں کو اپنانے کیلئے دبائو بڑھ جائے گا۔''سنگ پریوار‘‘بہارمیں شکست کی ذمہ داری انتہا پسند اقدامات پر نہیں بلکہ بقول اْن کے بی جے پی کی موجودہ قیادت کی موقع پرستی اور مصلحت پرستی پر ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں