پنجاب اور سندھ میں منعقد ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات اور اُن کے نتائج پر مختلف پہلوئوں سے تبصرے جاری ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ صِرف میڈیا ہی نہیں بلکہ مُلک کے سیاسی اور ریاستی حلقوں میں بھی اِن انتخابات میں غیر معمولی دِلچسپی کا اظہار کیا گیا۔ اِ س کی تین وجوہ ہیں: ایک یہ کہ یہ انتخابات آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دو سب سے بڑے صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں منعقد ہُوئے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پنجاب اور سندھ کو ''طاقت کا گڑھ‘‘ (Bastion of Power)کا نام دیتے تھے اور اِن ہی دو صوبوں کے عوام نے 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا تھا، جس کی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے وزیراعظم بنے تھے۔ پنجاب اور سندھ سے قبل بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے تھے، لیکن اِن انتخابات کو میڈیا اور مُلک کے پالیسی ساز حلقوں میں اتنی پذیرائی حاصل نہیں ہُوئی تھی۔ پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں غیر معمولی دلچسپی، قومی سیاست میں اِن دونوں صوبوں کی غیر معمولی اہمیت کی رہینِ منت ہے۔
دوسری وجہ ان انتخابات کے نتائج ہیں۔ انتخابات سے قبل بیشتر مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی رائے تھی کہ کراچی میں ایم کیو ایم اندرونِ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں پاکستان مُسلم لیگ (ن) کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر یہ پارٹیاں انتخابات جیت بھی گئیں ، تو اُن کی کامیابی کا مارجِن بہت کم ہوگا۔ مثال کے طور پر کراچی کے بارے میں، جہاں گزشتہ کئی ماہ سے ایم کیوایم رینجرز کے دبائو کا شکار چلی آرہی ہے، اور اُس کے رہنمائوں کے دعووں کے مطابق ایم کیوایم کے رہنمائوں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، اور باقی کارکنوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، عام تاثر یہ تھا کہ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی پر مشتمل اتحاد شہر کی میونسپل کمیٹیوں اور یونین کونسلوں کی نشستوں کی ایک بڑی تعداد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا، اور ایم کیوایم کی نشستیں کم ازکم 50فیصد حد تک کم ہو جائیں گی، لیکن نتائج اندازوں کے بالکل برعکس نکلے۔ ایم کیوایم نے نہ صِرف پہلے کے مقابلے میں بڑی کامیابی حاصل کر کے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دِیے بلکہ جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعتِ اسلامی کراچی کے صدر حافظ نعیم الرحمن ایم کیوایم کے ایک عام کارکُن کے ہاتھوں ہار گئے اور تحریکِ انصاف کے علی زیدی بھی کامیابی حاصل نہ کر سکے ۔ اِن دونوں جماعتوں نے اپنی کامیابی کے بڑے بلند بانگ دعوے کئے تھے، مگر اِن کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اگرچہ اپنے روایتی گڑھ لیاری میں اسے نقصان اُٹھانا پڑا۔
اِسی طرح پنجاب میں پاکستان مُسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جارہی تھی۔ ان توقعات کی بنیاد چند ماہ قبل لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے122اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 144کے ضمنی انتخابات کے نتائج تھے۔ حلقہ این اے 122میں اگرچہ پاکستان مُسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار ایاز صادق اپنے مدِ مقابل تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے، تاہم اُن کی کامیابی کا مارجن بہت کم یعنی صِرف دو ڈھائی ہزار ووٹوں کا تھا، لیکن پی پی 144کی صوبائی نشست، جو پہلے پاکستان مُسلم لیگ (ن) کے پاس تھی، پر تحریکِ انصاف کے امیدوار کی کامیابی ایک بڑا انتخابی اَپ سیٹ تھا، اور اِس کی بنیاد پر توقع کی جارہی تھی کہ بلدیاتی انتخابات میں پاکستان مُسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان برابر کا مقابلہ ہوگا، بلکہ بعض علاقوں خصوصاً شہری حلقوں میں تحریکِ انصاف کی مُسلم لیگ (ن) پر برتری کی اُمید کی جارہی تھی، لیکن نتائج تحریکِ انصاف کیلئے مایوسی کا باعث ثابت ہُوئے۔ پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تینوں مرحلوں میں تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو صوبے کے ہر علاقے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لاہور میں تحریکِ انصاف کے صرف 12امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔ اِسی تیسرے مرحلے کے انتخابات میں راولپنڈی میں بھی تحریکِ انصاف کو بُری طرح شکست ہوئی ۔ صِرف اسلام آباد میں پارٹی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکی۔
اندرونِ سندھ پاکستان مسلم لیگ (ف)، مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی کا مقابلہ کیا جا رہا تھا۔ اور عام خیال یہ تھا کہ اعلیٰ قیادت کی صوبے میں غیر موجودگی سے ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ پیپلز پارٹی صوبے کے دیہی علاقوں میں اپنے سال ہا سال سے چلے آنے والے مقام کو کھو دے گی، کیونکہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے جاگیردار خاندان اپنی وفاداریاں بدلنے کے لئے پرتول رہے تھے،بلکہ صوبائی حکومت کی نااہلی اور کرپشن کے قِصے اتنے عام ہو چکے تھے کہ عام ووٹرز بھی اُن سے متاثر نظر آرہے تھے لیکن انتخابی نتائج نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا کہ اندرونِ سندھ بدستور پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے۔ ذوالفقار مرزا فیکٹر بھی اپنا کام نہ کر سکا۔ بدین کے شہری حلقوں میں ذوالفقار مرزا کے حامیوں کی محدود کامیابی، صوبہ گیر سطح پر پیپلز پارٹی کی وسیع کامیابی کے سامنے سورج کے سامنے چراغ ثابت ہُوئی۔
بلدیاتی انتخابات میں غیر معمولی دِلچسپی اور اِن کے نتائج پر تبصروں کے سلسلے کے ابھی تک جاری رہنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ انتخابات اپنی تقریباً ڈیڑھ سو سال پرانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی بنیادوں پر منعقد ہُوئے اور ان میں سیاسی پارٹیوں نے اپنے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دِیئے، جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران پارٹی سِمبل استعمال کئے، اِس لئے اِسے سیاسی پارٹیوں کے درمیان طاقت آزمائی کے مظاہرے کی حیثیت سے لیا جا رہا تھا۔ چونکہ یہ انتخابات ایک ایسے وقت پرمنعقد ہُوئے جب موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں اپنی آدھی مُدت پوری کر چکی ہیں اِس لئے ان انتخابات کو آئندہ یعنی 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات کی ریہرسل بھی سمجھا جاتا ہے۔
اگرچہ انتخابی سیاست میں ڈھائی سال کی مدت بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے اور اِس دوران میں کئی سیاسی نشیب و فراز وقوع پذیر ہو سکتے ہیں، لیکن بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور اب تک موجودہ سیاسی حالات کی روشنی میں صاف نظر آتا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم ، اندرونِ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مُسلم لیگ (ن) کو فی الحال کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں اور غالب امکان یہی ہے کہ 2018ء کے قومی انتخابات میں بھی یہ تینوں پارٹیاں اپنے موجودہ حلقوں میں پھر سے برسرِ اقتدار آ جائیں گی۔ اگر اِس پیش گوئی میں کوئی جان نظر آتی ہے تو یہ تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے بُری خبر ہو سکتی ہے، کیونکہ 2013ء کے انتخابات کے بعد سے اب تک ، خصوصاً گزشتہ ایک سال سے کراچی، سندھ اور پنجاب میں بالترتیب ایم کیوایم ، پیپلز پارٹی اور پاکستان مُسلم لیگ (ن) کو عوام کی طرف سے دِیے گئے مینڈیٹ سے محروم کرنے کی جو بھرپور کوششیں کی گئیں، وہ بُری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ کراچی میں ایم،کیو،ایم ، سندھ میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی واضح کامیابیوں کی مختلف تشریحات پیش کی جا رہی ہیں۔ کراچی میں ایم کیوایم کی فقیدالمثال کامیابی کے پیچھے الطاف حسین کی شخصیت اور ایم کیوایم کے کارکنوں کی محنت اور ڈسپلن کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی کی غیر معمولی کامیابی کی وجہ اندرونِ سندھ میں ایک متبادل سیاسی قوت کی عدم موجودگی کو بتایا جارہا ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا سہرا لاہور، راولپنڈی اور صوبے کے دیگر شہروں میں چلنے والی میٹرو بسوں کے سر باندھا جا رہا ہے۔ یہ سب تشریحات اپنی اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں، مگر یہ بلدیاتی انتخابات میں اِن تینوں جماعتوں کی غیر متوقع، غیر معمولی کامیابی کو صرف جزوی طور پر واضح کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر اِن نتائج کے پیچھے کراچی ، سندھ اور پنجاب کے عوام کی بھاری اکثریت کا وہ ردِ عمل ہے جسے اُنہوں نے مختلف حلقوں کی جانب سے ان تینوں جماعتوں کو 2013ء کے انتخابات میں دِئیے گئے مینڈیٹ سے محروم کرنے کی کوششوں کے خلاف دیا ہے۔ اِس لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ پنجاب اور سندھ کے ان بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے 2013ء کے قومی انتخابات کے نتائج پر مُہر تصدیق ثبت کی ہے، اور گزشتہ انتخابات کو متنازعہ بناکر اِن تینوں جماعتوں کے مینڈیٹ کو جعلی قرار دینے کی جو مختلف کوششیں ہو رہی ہیں، پاکستان کے ان دو سب سے بڑے صوبوں نے ان کوششوں کو بُری طرح رد کر دیا ہے ۔ اِس کا اثر یقینا آنے والے انتخابات پر بھی پڑے گا۔