9دسمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی پانچویں ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس کا بنیادی مقصد افغانستان اور اُس کے اردگردواقع ایشیائی ممالک کے درمیان علاقائی تعاون اور مواصلاتی رابطوں کو فروغ دے کر نہ صرف افغانستان میں بلکہ پورے خطے میں امن، ترقی اور استحکام کا حصول تھالیکن بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور افغان صدر اشرف غنی کی اسلام آباد آمد اور کانفرنس میں شرکت نے دُنیا کی توجہ کانفرنس کے اصل مقصد سے ہٹا کر پاک بھارت اور پاک افغان دو طرفہ تعلقات پر مرکُوزکر دی۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ کئی ماہ سے اِن دونوں ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سخت کشیدہ چلے آرہے تھے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر آئے روز فائرنگ کے تبادلے سے دونوں طرف سے کشیدگی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جولائی میں رُوس کے شہر ''اُوفا‘‘ میں شنگھائی تعاون کی تنظیم ''ایس سی او‘‘ کے سربراہی اجلاس کے موقعہ پر وزیرِاعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کے درمیان ملاقات میں دونوں ملکوں کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز کے درمیان مذاکرات کا جو فیصلہ ہُوا تھا‘ اُس پر عمل درآمد نہ ہو سکا بلکہ دہلی میں ہونے والی اِس ملاقات کی تنسیخ کے بعد پاکستان اور بھارت نے باہمی مذاکرات کے مسئلے پر اپنے موقف کو اور بھی سخت کر دیا تھا۔ بھارت کا اصرار تھا کہ اِس سطح پر مذاکرات میں صِرف دہشت گردی کے مسئلے پر بات چیت ہوگی جبکہ پاکستان نے دہشت گردی سمیت تمام تصفیہ طلب اُمور پر بات چیت کا مطالبہ کیا۔ اطلاعات کے مطابق ''اُوفا‘‘ میں نواز شریف اور نریندرمودی کے درمیان ملاقات اور اِس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز کی ملاقات کے فیصلے کے پس پردہ رُوس اور چین کی کاوشوں نے اہم کردار
ادا کیا تھا۔ امریکہ بھی اِن کاوشوں کا حامی تھا کیونکہ دُنیا کے یہ تینوں بااثر مُلک گزشتہ تقریباً دو سال سے پاک بھارت مذاکراتی عمل کے معطّل چلے آنے سے تشویش سے دو چار تھے۔ دونوں مُلکوں کے درمیان رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا تھاجس کا براہ راست فائدہ انتہا پسندوں اور دہشت گرد عناصر کو پہنچ رہا تھا۔ بین الاقوامی برادری کسی ایسے موقعہ کی تلاش میں تھی جس سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان اور بھارت کو ایک دفعہ پھر مذاکراتی میز پر بٹھایا جا سکے۔ اسلام آباد میں ہونے والی ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس نے یہ موقعہ فراہم کر دیا۔ رُوس چین اور مغربی ممالک کی مشترکہ کوششیں رنگ لائیں۔ بھارت کی طرف سے کانفرنس میں شرکت کیلئے وزیرِخارجہ سشما سوراج کو بھیجنا پہلا اور اہم اقدام تھا۔ اس کیلئے بنکاک میں پاک بھارت نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ اور اجیت ڈووُل کے درمیان کامیاب ملاقات نے زمین ہموار کی تھی۔
دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی کی اسلام آباد آمد اور کانفرنس میں شرکت بھی ایک اہم اور فیصلہ کُن اقدام تھا، جِسے سُشما سوراج کی اسلام آباد آمد اور کانفرنس میں شرکت کی طرح پاک افغان تعلقات میں ایک بریک تُھرو کا نام دیا جا سکتا ہے۔ افغان صدر کو بھی اسلام آباد میں لانے کیلئے مختلف سطح پر کی جانے والی سفارتی کوششوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اِس سلسلے میں پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر ہونے والی بین الاقوامی سربراہی کانفرنس کے موقعہ پر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی کوششیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اِس کانفرنس میں امریکی صدر بارک اوباما اور دُنیا کے دیگر ممالک کے سربراہان کے ہمراہ پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی بھی شرکت کر رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے پیرس کانفرنس سے قبل اپنے دورئہ برطانیہ کے دوران وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون سے پاک افغان مصالحت میں کردار ادا کرنے اور خاص طور پر اسلام آباد کانفرنس میں افغان صدر کی شرکت کو ممکن بنانے کی خصوصی درخواست کی تھی۔ وزیرِاعظم نوازشریف کی اِس درخواست پر برطانوی وزیرِاعظم نے پیرس کانفرس کے موقعہ پر اپنی موجودگی میں وزیرِاعظم نواز شریف اور صدر اشرف غنی کی ملاقات کروائی تھی۔ اِس ملاقات سے جو کہ اطلاعات کے مطابق نہایت خوشگوار ماحول میں ہُوئی‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دُوری کم ہوئی اور اِس کے نتیجے میںصدر اشرف غنی نے اسلام آباد کانفرنس میں خود شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔
پیرس کانفرنس سے قبل پاکستانی پشتون رہنمائوں کے ایک وفد نے کابل کا دورہ کیا اور صدر اشرف غنی سے ملاقات بھی کی۔ اِس وفد میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان، پختون خواہ مِلّی عوامی پارٹی کے صدر مُحمود خان اچکزئی اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیر پائو بھی شامل تھے۔ اِس دورے کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے مابین پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور ڈیڈ لاک کا خاتمہ تھا۔ اطلاعات کے مطابق وفد کے ارکان نے صدر اشرف غنی کو پیرس میں وزیرِاعظم نواز شریف سے ملاقات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ اسلام آبادکانفرنس میں افغان صدر کی شرکت اور پاک افغان تعلقات میں بہتری کیلئے راہ ہموار ہو سکے۔
اسلام آباد میں ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس کے انعقاد کے موقعہ پر پاک بھارت اور پاک افغان تعلقات میں خوشگوار پیش رفت کے پیچھے امریکہ اور چین کی کوششوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ اِس سلسلے میں اکتوبر میں وزیرِاعظم نواز شریف کے دورئہ امریکہ کے دوران صدر اوباما اور دیگر امریکی حکام سے اُن کی بات چیت خصوصی اہمیت کی حامل تھی۔ وزیرِاعظم نوازشریف کے دورے کے موقعہ پر امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا تھا، اُس میں واضح کر دیا گیاتھا کہ وزیرِاعظم نوازشریف اور اُن کے وفد کے ساتھ امریکی حکام کی بات چیت کا فوکس علاقائی سلامتی ، خصوصاً افغانستان کی بگڑتی ہُوئی صورتِ حال ہوگا۔ وزیرِاعظم کے دورے سے قبل شمالی افغانستان میں قندوز پر طالبان کے عارضی قبضے کا واقعہ رُونما ہو چکا تھا۔ اِس کے علاوہ افغانستان کے دیگر علاقوں میں بھی طالبان کے حملے تیزی پکڑ چکے تھے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ ‘ جِس نے افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر اپنی باقی ماندہ دس ہزار فوج کو واپس بلانے کا پروگرام مئوخر کر دیا تھا، نے وزیرِاعظم نواز شریف کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا اور افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے میں پاکستان کے مثبت کردار پر زور دیا۔ وزیرِاعظم کے دورے کے بعد چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے بھی امریکہ کا دورہ کیا اور اِس دورے کے دوران میں اُنہوں نے صدر اوباما کے سوا امریکہ کے تقریباً تمام اہم رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں جن میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر‘ سیکرٹری خارجہ جان کیری ، وزیرِ دفاع ایش کارٹر اور نائب صدر جو بائڈن شامل ہیں۔ اِن امریکی رہنمائوں نے بھی افغانستان کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ پر افغانستان میں امن کی راہ ہموار کرنے پر زوردیا۔ کیوں کہ افغانستان میں جاری خانہ جنگی سے ''داعش‘‘ کے اثرورسوخ میں اضافہ ہو رہا تھاجوکہ طالبان سے بھی زیادہ انتہا پسند اور بے دریغ ثابت ہُوئے ہیں۔
جنوبی ایشیا اور خصوصاً پاک بھارت تعلقات کے بارے میں چین کی پالیسی میں کافی مُدّت سے مثبت تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں۔چونکہ چین کی تمام تر توجہ اپنے ہاںمعاشی ترقی پر ہے اِس لئے وہ اپنے ہمسایہ خطوں میں امن، استحکام اور تعاون کو ضروری سمجھتا ہے ۔ اپریل میں ''پاک چائنا اکنامک کاریڈور ‘‘ کے منصوبے پر دستخط کرنے کے بعد جنوبی ایشیا اور خصوصاً پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کا خاتمہ چین کیلئے اور بھی اہم بن چکا ہے کیوں کہ نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان بلکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون کے بغیر بھی''پاک چائنا اکنامک کاریڈور‘‘ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اِن دونوں مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے چین نے بھی اپنی سفارتی کوششیں شروع کر رکھی تھیں۔ ''اُوفا‘‘ میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کے درمیان دونوں مُلکوں کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز کی دہلی میں مُلاقات کا فیصلہ، چینی سفارتی کوششوں کا پہلا مظہر تھا۔ یہ ملاقات تو نہ ہو سکی لیکن چین نے اپنی سفارتی کوششوں کو ترک نہیں کیا اور اعلیٰ سطح پر نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے ساتھ بھی رابطے جاری رکھے۔ نومبر کے دوسرے ہفتے میں چین کے سنٹرل ملٹری کمیشن کے نائب چیئرمین فان چنگ ہانگ نے پاکستان کا دورہ کیا ۔ اِس دورے کا مقصد اِن دونوں ملکوں کے ساتھ چین کے دوستانہ روابط اور علاقائی امن اور سلامتی کے قیام میں مشترکہ کوششوں کو تیز کرنا تھا۔ اپنے دورے کے دوران میں چینی رہنما نے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل سے بھی ملاقات کی۔ اِس سے قبل افغانستان کے بارے میں چین کے نئے نمائندہ خصوصی ڈینگ شی جُن نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھااور وزیر اعظم نواز شریف کے خصوصی مشیر برائے خارجہ اُمور طارق فاطمی سے افغانستان اور علاقائی سلامتی کے مسائل پر بات چیت کی تھی۔
اسلام آباد میں ''ہارٹ آف ایشیا ‘‘ کانفرنس کے اختتام پر پاکستان اور بھارت میں معطّل شدہ مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان توقع سے بھی زیادہ خُوشگوار اور مثبت پیش رفت ہے۔ اِس کا کریڈٹ بنیادی طور پر دونوں مُلکوں کی سیاسی قیادت کی بصیرت اور دُوراندیشی کو جاتا ہے، لیکن بین الاقوامی برادری خصوصاً چین، رُوس، امریکہ اور برطانیہ کی پسِ پردہ کوششوں کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔