کولڈ وار (Cold War) یعنی سابق سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی کے زمانے میں جب ہتھیاروں کی کمی پر زور دیا جا رہا تھا‘ تو جرمنی (اْس وقت مغربی جرمنی) کے ایک چانسلر ولی برانت نے کہا تھا کہ ہر ملک ہتھیاروں کی کمی کی بات کرتا ہے مگر کوئی بھی اس پر تیار نہیں۔ کچھ اسی قسم کی صورتِ حال آج کل پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ حکومت ہو یا حکومتی ادارے، سیاسی پارٹیاں ہوں یا مذہبی تنظیمیں، ہر کوئی نہ صر ف دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بات کرتا ہے بلکہ ان کے بیانات سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی کوششوں سے دہشت گردی کی تقریباً مکمل بیخ کْنی کی جا چکی ہے، لیکن زمینی حقائق ان دعووں کی نفی کرتے ہیں۔ دہشت گرد عناصر اور اْن کے پْشت پناہ نہ صرف اب بھی ملک میں موجود ہیں‘ بلکہ 13 دسمبر کو پارہ چنار میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ جہاں چاہیں اور جب چاہیں اپنی مذموم کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ جن لوگوں نے بھرے بازار میں 35/40 کلوگرام وزنی بم کے دھماکے سے 25 سے زائد افراد کی جان لی‘ اور 60 سے زیادہ لوگوں کو زخمی کیا، اْنہوں نے اپنی شناخت کو بھی چھپانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ایجنسی کے لوگوں کو وارننگ دیتے ہوئے آئندہ بھی ایسی کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا۔ کہا جاتا ہے کہ پارہ چنار میں‘ جو ماضی میں بھی فرقہ وارانہ دہشت گردی کا شکار رہا ہے‘ سکیورٹی سخت تھی اور آنے جانے والے تمام راستوں کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی‘ اس کے باوجود دہشت گرد اپنے مقصد میںکیسے کامیاب ہو گئے؟ پچھلے ایک سال میں پارہ چنار میں بم دھماکہ دہشت گردی کا واحد واقعہ نہیں بلکہ کراچی، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے چھوٹے بڑے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری ملٹری آپریشن ''ضرب عضب‘‘ کے سامنے دہشت گردوں نے پسپائی ضرور اختیار کی ہے، تاہم اْن کی صلاحیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اْنہوں نے صرف طریقہ کار بدلا ہے۔ اب وہ بڑے حملے کرنے کے بجائے گھات لگا کر فوج، رینجرز اور پولیس کے سپاہیوں یا قبائلی علاقوں میں حکومت کے حامی رہنمائوں یا امن کمیٹیوں کے اراکین کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان کارروائیوں کا مقصد عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنا اور سکیورٹی ایجنسیوں کے حوصلے پست کرنا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد تشکیل پانے والے نیشنل ایکشن پلان سے عوام کی بہت سی توقعات وابستہ تھیں‘ کیونکہ ملک میں پہلی دفعہ دہشت گردی کے خلاف بیس نکات پر مشتمل ایک جامع حکمتِ عملی ترتیب دی گئی تھی، لیکن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے حالیہ اجلاسوں میں ارکان نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے فقدان کی جس طرح نشاندہی کی‘ اْس سے محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز اس جنگ کو‘ جو پاکستان کے بقا کی خاطر لڑی جا رہی ہے‘ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ بحث میں حصہ لینے والے ارکان پارلیمنٹ نے‘ جن کا تعلق حزب مخالف سے تھا‘ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد تسلی بخش طریقے سے نہیں ہو رہا‘ بلکہ 20 نکات میں سے بعض ایسے ہیں‘ جن پر پروگریس صفر ہے۔ ان میں دو نکات خاص طور پر موضوع بحث بنے رہے... ایک دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان میں پڑھائے جانے والے تعلیمی نصاب میں اصلاحات اور اْن کی سرگرمیوں خصوصاً مالی امداد کے ذرائع کی نگرانی اور دوسرا کالعدم تنظیموں کا نئے ناموں کے ساتھ فعال ہونے کا مسئلہ۔
دینی مدارس کے تعلیمی نصاب میں جدید علوم کو شامل کرکے انہیں قومی تعلیمی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں ایک عرصہ سے جاری ہیں‘ لیکن ملک میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور ان میں بعض مدارس کے ملوث ہونے کے الزامات کی روشنی میں یہ ضروری سمجھا گیا کہ ان کو ریگولرائزکرنے کے لیے ان کی رجسٹریشن کی جائے۔ اس اقدام کا فیصلہ سب سے پہلے جنرل مشرف کے دور میں کیا گیا تھا‘ مگر اس پر عمل درآمد کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس کی سب سے اہم وجہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے مخالفت تھی۔ جب بھی کوئی حکومت اس جانب قدم اْٹھانا چاہتی ہے، یہ جماعتیں آڑے آجاتی ہیں۔ بعض مدارس ان جماعتوں کے لیے نہ صرف سیاسی حمایت بلکہ مالی اعانت اور اخلاقی پُشت پناہی کا ذریعہ بھی ہیں۔ جب کبھی کسی ایشو پر حکومت پر دبائو ڈالنا مقصود ہو تو یہ جماعتیں اپنے اپنے مدرسوں کے طلبا کو سڑکوں پر لے آتی ہیں۔ کوئی بھی حکومت خواہ وہ صوبائی ہو یا مرکزی، ایسی صورت حال کا سامنا کرنے سے گھبراتی ہے کیونکہ جہاں ایک طرف تشدد اور جانی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں ان میں سے بعض جماعتیں مرکز اور صوبوں میں برسرِ اقتدار پارٹی کی اتحادی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ'' اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ‘‘ جو کہ ملک میں تقریباً 40 ہزار مدارس چلانے والے پانچ وفاقوں کی نمائندگی کرتا ہے، کی طرف سے وفاقی وزارتِ داخلہ کو رجسٹریشن کے مسئلے پر یقین دہانی کے باوجود اس سمت کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، کیونکہ مدرسے یا اْن کو چلانے والی سیاسی جماعتیں اول تو رجسٹریشن پر تیار نہیں‘ اور اگر اس پر وہ رضا مندی کا اظہار کرتی ہیں تو اس کے لیے تجویز کردہ حکومتی طریقہ کار سے متفق نہیں۔اس ڈیڈ لاک کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ
صرف غیر رجسٹرڈ مدرسوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ان میں داخل کیے جانے والے بچوں کے کوائف کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ اس کی وجہ سے ان بچوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کے اندیشوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دینی مدارس کے معاملے میں حکومت کی جانب سے بے عملی کے نتیجے میں ایسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے جو آگے چل کر حکومت کے لیے مزید مشکلات اور پیچیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ مثلًا ایک اطلاع کے مطابق پنجاب کے بعض مدرسوں میں ''فاٹا‘‘ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طلبا کو داخل کیا گیا ہے۔ اس قسم کی اطلاعات سے اْن خدشات کو تقویت ملتی ہے جو ملک میں دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک کے بارے میں ظاہر کیے جاتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ اْن کالعدم تنظیموں کا ہے جو اپنی سرگرمیوں پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد ہونے کے بعد نئے ناموں سے سرگرم عمل ہیں۔ اس ضمن میں دو تنظیموں کا پارلیمنٹ میں بحث کے دوران بار بار ذکر کیا گیا۔ ان دونوں تنظیموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دو پُرانی تنظیموں کے نئے نام ہیں۔ ان تنظیموں پر مشرف دور میں پابندی عائد کی گئی تھی لیکن یہ پابندی صرف کاغذوں میں تھی، عملی طور پر ان تنظیموں کی صلاحیت اور کارکردگی پر کوئی اثر نہ پڑا۔ بلکہ بعض حلقوں کے مطابق نام تبدیل کرکے ان تنظیموں نے قومی سیاست میں وہ اہمیت اور رعایت حاصل کر لی جس کا حصول پرانے ناموں کے ساتھ ممکن نہیں تھا۔ مثلًا ضرب عضب سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت نے ''پاکستانی طالبان‘‘ کو بات چیت پر آمادہ کرانے کے لیے جن شخصیات سے مدد کی درخواست کی تھی اْن میں اہل سْنت والجماعت کے سربراہ بھی شامل تھے۔ جماعت الدعوۃ
کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لشکرِ طیبہ کا نیا نام ہے۔ لشکرِ طیبہ پر 2008ء کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ بھارت کی طرف سے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس تنظیم کی سرگرمیوں کو روکنے اور ممبئی حملوں میں اس تنظیم کے نامزد ارکان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ان ارکان پر مقدمہ چل رہا ہے لیکن جس رفتار سے اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے، امریکہ سمیت کئی ممالک اس سے مطمئن نہیں ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان پر پچھلے ایک سال میں عمل درآمد کی سست رفتاری پر پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں ارکان کی تنقید پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل جولائی میں سپریم کورٹ کے تین رْکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کر رہے تھے، مرکزی اور چاروں صوبائی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں۔ فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی ایک پریس ریلیز میں شکایت کی گئی تھی کہ خراب حکمرانی دہشت گردی کے خلاف فوج کی مہم میں مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کا یہ کہنا درست ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد مشترکہ ذمہ داری ہے اور سب سٹیک ہولڈرز جن میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں، حکومتی ادارے یعنی فوج ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیاں، سیاسی پارٹیاں اور سول سوسائٹی شامل ہیں، مل کر ہی اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن حکومت اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی نہیں کر سکتی۔ نیشنل ایکشن پلان میں ایک جامع حکمتِ عملی کے مختلف پہلوئوں کا ذکر کر دیا گیا ہے، لیکن ہر شعبے میں پیش رفت کا انحصار حکومت کے ارادے اور وسائل کو تمام تر توجہ کے ساتھ اس دشمن کے خلاف استعمال کرنے پر ہے۔ اگر اس میدان میں حکومت کوتاہی یا مصلحت کا مظاہرہ کرتی ہے تو اْسے اندرونِ ملک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی جواب دہ ہونا پڑے گا۔