اسلام آباد میں وزیر اعظم محمد نواز شریف اور سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے درمیان کراچی آپریشن اور اس میں رینجرز کے کردار کے بارے میں پیدا ہونے والے مسائل پر اطمینان بخش ملاقات سے جہاں ان لوگوں کو خوشی ہو گی‘ جو ملک میں جمہوریت کے پودے کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ وہاں ان حلقوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہو گی‘ جنہیں پاکستان میں جمہوریت ایک آنکھ نہیں بھاتی اور جو ہر وقت اس کی بساط الٹانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔
اگرچہ اس ملاقات کے بعد کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم اطلاعات کے مطابق یہ ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ وزیر اعظم نے سندھ کے وزیر اعلیٰ کی باتوں کو خوب کان لگا کے سنا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار بھی موجود تھے۔ ملاقات ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد وقت جاری رہی۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ سندھ کو کراچی آپریشن کا کپتان کہتے ہوئے، سندھ میں رینجرز کی کارروائیاں جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن اپنے حتمی ٹارگٹ کے حصول تک جاری رہے گا اور اس کی سربراہی بدستور وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس رہے گی۔ اس دوران میں جو مسائل اور غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں، انہیں دور کرنے کیلئے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں وزیر اعظم کی ہدایت پر کراچی کا دورہ کریں گے۔
ملاقات کے دوران اور اس کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ کی باڈی لینگوئج سے ظاہر ہوا کہ وہ وزیر اعظم کے ساتھ سندھ کے مسئلے پر مذاکرات سے کافی مطمئن ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ وفاق نے سندھ کے موقف کو یکسر رد نہیں کیا‘ بلکہ دونوں کے موقف کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسا راستہ نکالنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آئینی اور قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد سے مطابقت رکھتا ہو‘ کیونکہ کراچی میں رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کی بنیادی ذمہ داری صوبائی حکومت کے حصہ میں آئی ہے، جس نے دستور پاکستان کے آرٹیکل 147 کے تحت اپنی مدد کیلئے انہیں
بلایا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت حکومت سندھ کو رینجرز کے قیام کی مدت اور اس کے دائرہ کار کی حدود متعین کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اس قسم کی صورتحال میں صوبائی حکومت کے اختیارات میں اور بھی اضافہ کر دیا گیا ہے‘ یعنی رینجرز کو صوبے میں ایک مخصوص ٹاسک کیلئے بلانے کے بعد لازمی ہے کہ اس اقدام کی 60 دن کے اندر صوبائی اسمبلی سے توثیق کروائی جائے۔ رینجرز کے مسئلے پر یہ ایک بنیادی نکتہ ہے اور وفاقی حکومت اسے نظرانداز نہیں کر سکتی۔ یہ درست ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے باوجود پاکستانی وفاق کے ڈھانچے کے تحت اب بھی صوبوں کے مقابلے میں مرکز کو زیادہ اختیارات حاصل ہیں‘ بلکہ اسے بالادستی حاصل ہے اور متعدد دفعات کے تحت مرکز صوبوں میں مداخلت کر سکتا ہے، لیکن وفاقی وزیر داخلہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ 1950ء کی دہائی سے 2015ء تک سندھ اور پنجاب کے دریائوں پر پلوں اور پشتوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، اور اب مرکز کسی صوبائی حکومت کی اتنی آسانی سے چھٹی نہیں کروا سکتا، جتنی آسانی کے ساتھ 1935ء کے ایکٹ کے تحت ایسا کرنا ممکن تھا۔ اب اس قسم کے اقدامات کے راستے میں نہ صرف آئینی اور قانونی رکاوٹیں حائل ہیں بلکہ ماضی میں ایسے اقدامات کے سیاسی مضمرات بھی اس قسم کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کیلئے کافی ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں مرکز کی طرف سے صوبائی معاملات میں براہ راست مداخلت ایک معمول بن چکا تھا۔ نہ صرف سندھ، پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخوا) میں حکومتوں کو برطرف کرکے گورنر راج نافذ کیے گئے، بلکہ مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش) جہاں 1954ء میں صوبائی انتخابات کے نتیجے میں ایک پاپولر حکومت برسر اقتدار آئی تھی‘ یونائیٹڈ فرنٹ کی حکومت کو برطرف کر کے گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ مرکز کی طرف سے صوبائی حکومتوں کے خلاف اس قسم کے یکطرفہ اقدامات سے ملک اور قوم کو جو سیاسی خمیازہ بھگتنا پڑا، وہ سب کے سامنے ہے۔ سندھ میں جئے سندھ کی تحریک، سرحد میں
پشتون قوم پرستی کی لہر اور مشرقی پاکستان میں انتہائی صوبائی خود مختاری کا نعرہ انہی پالیسیوں کی پیداوار کہا جا سکتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات کو اسی پرانے طریقہ سے حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں‘ اور بجائے اس کے کہ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کیا جائے، دھمکیوں سے کام نکالنا چاہتے ہیں۔ حکومت سندھ کی طرف سے رینجرز کے دائرہ کار کو متعین کرنے کے جواب میں ''دیگر آپشنز‘‘ استعمال کرنے کی دھمکیاں اسی سوچ کی آئینہ دار ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں پر واضح ہونا چاہیے کہ ماضی میں اس قسم کے اقدامات سے مرکز اور صوبوں کے درمیان جو شکوک و شبہات اور بدگمانیاں پیدا ہو چکی ہیں، وہ ابھی تک دور نہیں ہوئیں۔ پاکستان میں قومی یک جہتی کا عمل اب تک اگر آگے نہیں بڑھ سکا، تو اس کی سب سے بڑی وجہ ماضی میں مرکزی حکومتوں کی طرف سے صوبائی معاملات پر یکطرفہ اور غیر دانش مندانہ اقدامات ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے مرکز اور صوبوں میں فاصلے بڑھے اور قومی یکجہتی کی منزل دور ہوتی گئی۔
تاہم اسلام آباد میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ کی تسلی بخش ملاقات سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں ایک الگ اور مثبت سوچ رکھتے ہیں اور ماضی کی غلطیوںکو دہرانے کی بجائے، ان تعلقات کی تاریخ میں ایک نئے باب کو رقم کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کی اس سوچ کے آثار، کراچی آپریشن کی ابتدا پر ہی ظاہر ہو گئے تھے جبکہ کچھ حلقوں اور ایک سیاسی پارٹی کی مخالفت کے باوجود انہوں نے رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کی باگ ڈور حکومت سندھ اور صوبے کے وزیر اعلیٰ کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد بھی جب وزیر اعظم نے کراچی کا دورہ کیا یا کسی بھی تقریب میں کراچی آپریشن اور اس میں رینجرز اور پولیس کے کردار پر بات کہنے کا موقع آیا تو وزیر اعظم نے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شاباش دی، وہاں وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی انہوں نے ان کا جائز کریڈٹ دیا۔
کراچی آپریشن میں سندھ کی منتخب اور جمہوری حکومت کے جائز کردار کو کھلے عام اور مسلسل تسلیم کرنے کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف نے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دے کر اور بلوچستان اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی اکثریت ہونے کے باوجود نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنا کر پاکستان میں وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات میں ایک صحت مند روایت قائم کی ہے۔ موجودہ حالات میں اس قسم کی روایات کی سخت ضرورت ہے‘ کیونکہ ان سے جمہوریت مستحکم ہو گی اور عوام کا حکمرانی کا خواب شرمندہء تعبیر ہوگا۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان روایات پر عمل پیرا ہو کر ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں‘ کیونکہ یہ حقیقت سب پر عیاں ہو جانی چاہیے کہ خواہ لاء اینڈ آرڈر کا عام مسئلہ ہو یا دہشت گردی کا گمبھیر چیلنج اس جنگ میں بنیادی اور فیصلہ کن کردار وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کو ادا کرنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ صوبوں کے شہروں، دیہات، کھیتوں اور میدانوں میں لڑی جائے گی اور اس میں کامیابی کیلئے صوبوں کا تعاون کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ بے شک قانون نافذ کرنے والے وفاقی ادارے اور فورسز اس جنگ میں ہراول دستے کا کام کریں گے، لیکن انہیں لاجسٹک سپورٹ صوبوں نے فراہم کرنی ہے۔ وفاقی فورسز مثلاً رینجرز اور دیگر نیم فوجی دستوں کو اپنی کارروائیاں موثر طریقے سے جاری رکھنے کیلئے جس سازگار بلکہ مددگار ماحول اور سہولیات کی ضرورت ہے، وہ صوبوں نے مہیا کرنا ہیں۔ کوئی بھی وفاقی فورس صوبوں کو بائی پاس کرکے موثر ثابت نہیں ہو سکتی۔ جنگ میں فوج اور عوام کا وہی تعلق ہوتا ہے جو مچھلی اور پانی کا۔ جس طرح پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی، اسی طرح عوامی مدد کے بغیر مسلح افواج دشمن کو شکست نہیں دے سکتیں۔
خوش قسمتی سے اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں اوروفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے اور اسے جڑ سے اکھاڑ دینے کی ضرورت پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور اس قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا۔ اس پر عمل درآمد سب کی ذمہ داری ہے۔ خود وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بیس میں سے دس نکات صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی بہت حد تک صوبوں کے تعاون پر منحصر ہے۔ اس لئے وفاقی حکومت اگر چاہتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت مقرر کیے گئے تمام اہداف حاصل ہوں تو اسے صوبوں کے بارے میں دھمکی نہیں بلکہ مفاہمت کی بنیاد پر پالیسی اپنانی چاہیے۔