پاکستان کے سابق سیکرٹری جنرل خارجہ امور اکرم ذکی نے طویل مدت ملازمت کے اختتام پر جب ملک کی ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی تو اس کی وجہ یہ بیان کی ''سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے سوچا کہ سیاست میں شمولیت اختیار کر لی جائے کیونکہ سیاست واحد پیشہ ہے جس میں حصہ لینے والا کبھی ریٹائر نہیں ہوتا‘‘معلوم نہیں نئی سیاسی پارٹی کا اعلان کرتے وقت سابق چیف جسٹس پاکستان،افتخار محمد چودھری کے سامنے بھی یہی مقصد ہے یا کوئی اورلیکن اپنے کئی اہم پیشروئوں کی طرح سابق چیف جسٹس صاحب بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیںکہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر جو رعب،دبدبہ اور اختیارات اْن کو حاصل تھے،وہ ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ بن کر بھی اْن کے ہاتھ میں رہیں گے۔
افتخار محمد چودھری واحد بیوروکریٹ یا سرکاری ملازم نہیں جنہیں لمبے عرصہ تک سرکاری ملازمت کے مزے لوٹنے کے بعد سیاسی پارٹی بنانے کی سوجھی۔اْن سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خاں،ائیر مارشل اصغر خاں،جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل پرویز مشرف بھی اسی قسم کا تجربہ کر چکے ہیں۔اور یہ تجربہ کیسا رہا وہ سب کے سامنے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوب خاں نے جب اقتدار سنبھالا تو سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں پر بھی پابندی عائد کر دی۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد انہیں احساس ہوگیا کہ اقتدار کو طُول دینے کیلئے ایک سیاسی پارٹی ضروری ہے؛ چنانچہ اُنہیں بنی بنائی سیاسی پارٹی مل گئی جو بعد میں مُسلم لیگ کنونشن کے نام سے مشہُور ہوئی۔ موصوف نے، جو پہلے سیاسی جماعتوں کے سخت مخالف تھے، بڑی خوشی سے اِس پارٹی کی قیادت قبول کر لی۔ مبصرین کی اکثریت کی رائے ہے کہ افتخار محمد چودھری کی پارٹی کو عوام کے کسی طبقے میںبھی پزیرائی نہیں ملے گی۔کیونکہ اْنہوں نے اپنے عہدے میں رہ کر کسی طبقے کے مفادات کی خدمت نہیں کی۔بلکہ جو مسائل سوئوموٹو نوٹس کے تحت ہاتھ میں لیے،اْنہیں بھی حتمی حل تک لے جانے کی بجائے راستے میں ہی چھوڑدیا۔بلوچستان میںگمشدہ افراد کے حوالے سے اْن کی عدالت میں پیش ہونے والے مقدمے کو مثال کے طور رپر پیش کیا جاسکتا ہے۔یہ مقدمہ جس کی سماعت کبھی کوئٹہ اور کبھی اسلام آباد میں ہوئی،اْن افراد کے بارے میں تھا جنہیں مبینہ طور پر سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے گھروں،دفاتربلکہ کھلے بازاروں سے اُٹھایاتھا۔مقدمہ کی سماعت کے دوران معلوم ہوتا تھا جیسے چیف جسٹس ان افراد کو بازیاب کراکردم لیں گے۔لیکن متعدد سماعتوں کے باوجود مقدمے میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔گمشدہ افراد کا مسئلہ جوں کا توں رہا حالانکہ عدالت میں پیش ہونے والے گواہوں نے ذمہ دار افراد کی نشاندہی بھی کردی تھی،مگر جسٹس چودھری کو اْن پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوئی۔
اس کے مقابلے میں جسٹس چودھری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو این آر او کے مسئلے پر مسلسل دبائو میں رکھا۔محض توہین عدالت کے ارتکاب پر ایک منتخب وزیراعظم کو گھربھیج دیا۔پیپلز پارٹی کی حکومت پر جسٹس چودھری نے جو وار کیے اْن میں میموگیٹ کیس ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ایک ایسی دستاویز کی بنیاد پر جس پر نہ تو کسی کے دستخط تھے اور نہ کسی نے اس کی ملکیت کا دعویٰ کیا تھا،جسٹس چودھری نے انکوائری کمیشن بٹھا دیا۔اس انکوائری کمیشن نے صرف ایک مشکوک گواہی کی بنیاد پر فیصلہ دیا۔ملک کی عدالتی تاریخ میں ایسی یک طرفہ اور من مانی کاروائی کی مثال نہیں ملتی۔اس لیے ایک فریق کی طرف سے بطور وکیل پیش ہونے والی عاصمہ جہانگیر نے اسے پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں سیاہ ترین دن سے تعبیر کیا تھا۔
جسٹس چودھری کی پارٹی کا سیاسی فلسفہ اور پروگرام کیا ہوگا؟اس سوال کے جواب میں جسٹس چودھری نے اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایک 25نکاتی مینی فیسٹو جاری کیا ہے۔اس میں سب سے پہلے اور سب سے نمایاں طور پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ''کرپشن میں ملوث لوگوں کیلئے پارٹی کے دروازے بند رہیں گے‘‘دیگر تمام سیاسی جماعتوں کا بھی یہی دعویٰ ہے لیکن عملاً جو کچھ دیکھنے میں آیا وہ دعووں کے بالکل برعکس ہے۔ماضی میں جن کے دامن کرپشن کے الزامات سے داغ دار تھے،اْنہیں نہ صرف اپنی صفوں میں شامل کیا گیا بلکہ پارٹی کے اعلیٰ عہدے بھی اْن کے حوالے کیے گئے۔یہی لوگ پارٹیوں کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں بھی پہنچ گئے۔
جسٹس چودھری اور اْن کی پارٹی پاکستان میں کس قسم کی سیاست کی عَلم بردار ہوگی؟اس سوال کے جواب میں جسٹس چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ اْن کی پارٹی کا مقصد لوگوں کے مسائل حل کرنا ہے اس ضمن میں اْنہوں نے صحت،تعلیم اور زرعی اصلاحات کا خاص طور پر ذکر کیا۔ملک میں سرگرم عمل کسی بھی سیاسی پارٹی کا منشور اْٹھاکے دیکھ لیں،ہر پارٹی نے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے بلند بانگ دعوے کیے ہیں۔اس لیے جسٹس چودھری نے ان شعبوں کا ذکر کرکے کوئی نئی بات نہیں کی۔اصل بات یہ ہے کہ ان شعبوں میں ترقی کیلئے فنڈز کہاں سے آئیں گے؟بجٹ کا80فیصد حصہ تو بیرونی قرضوں اور دفاعی بجٹ کی نذر ہوجاتا ہے حتیٰ کہ حکومتی اور ترقیاتی اخراجات کیلئے ہرسال باہر سے قرضہ لینا پڑتا ہے۔ان حالات میں جسٹس چودھری کے پاس کون سا طریقہ کار ہوگا جسے استعمال میں لاکر وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں برسوں سے جاری زبوں حالی کو ختم کردیں گے۔
جسٹس چودھری پارلیمانی نظام جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام حکومت نافذ کرناچاہتے ہیں۔اس کا اظہار اْنہوں نے کچھ عرصہ پیشتر ایک انگریزی روزنامہ میں شائع ہونے والے مضمون میں کیا تھا۔اس مضمون میں اْنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ قائداعظم بھی صدارتی نظام حکومت کے حق میں تھے۔ چونکہ پارلیمانی طرز حکومت ملک کو درپیش مسائل حل کرنے اور سیاسی استحکام فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے،اس لیے اسے تبدیل کرکے اس کی جگہ صدارتی نظام نافذ کرنا چاہیے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اپنے عہدے کے دوران میں اْنہوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا تھا۔اْنہوں نے اپنے طرزعمل سے ثابت کیا کہ وہ پارلیمانی سیاست پر یقین نہیں رکھتے مثلاً اْن کا مسلسل اصرار تھا کہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ آئین بالادست ہے۔حالانکہ آئین کی تشکیل اور اْس میں ترمیم پارلیمنٹ کا حق ہے، ریاست کے کسی اورادارے کو یہ حق حاصل نہیں۔سید یوسف رضا گیلانی کو عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ نے بطور وزیراعظم چْنا تھا۔اْن کو اْن کے عہدے سے ہٹانے کا اختیار بھی آئین کے مطابق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہی حاصل تھا۔لیکن جسٹس چودھری نے اس کی پروا نہ کرتے ہوئے ایک ایسے وزیراعظم کو، جسے ایوان کے ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، عہدے سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا۔ملک کی پارلیمانی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا واقعہ 1953میں رْونما ہواتھا،جب گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کردیا تھا،حالانکہ اْنہیں پاکستان کی پہلی دستور سازاسمبلی میں اکثریت حاصل تھی۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جن معدودے چند امور پر پاکستانی قوم میں شروع سے ہی مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے اْن میں سے ایک پارلیمانی طرز حکومت ہے۔کیونکہ یہ نظام طویل آئینی اور قانونی ارتقائی عمل کی پیداوار ہے جس میں برصغیر پاک و ہند کے عوام اْن کی سیاسی پارٹیوں اور رہنمائوں کی جدوجہد کے علاوہ بہترین انڈین اور برٹش لیگل مائنڈز کی خدمات شامل ہیں۔اس لیے پارلیمانی نظام نہ صرف سیاسی پارٹیوں بلکہ عوام کا بھی پسندیدہ نظام ہے۔پاکستان کے علاوہ جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں مثلاً بھارت،بنگلہ دیش اور نیپال میں یہی نظام رائج ہے۔پاکستان کے پہلے فوجی حکمران ایوب خاں نے پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ کیالیکن جونہی وہ اقتدار سے محروم ہوئے،یہ نظام بھی دھڑام سے نیچے آگرا۔جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے باالترتیب آٹھویں اور سترھویں آئین ترمیم کے ذریعے 1973کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے کی کوشش کی۔لیکن جب منتخب جمہوری حکومتوں کی شکل میں عوام کو موقع ملا،ان آئینی ترامیم کو ختم کرکے1973کے آئین کی اصل روح یعنی پارلیمانی نظام کو بحال کر دیا گیا۔