"DRA" (space) message & send to 7575

افغان امن عمل: نئی کوششیں

افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں چین کے کردار میں اضافہ ہورہا ہے۔اس کا ثبوت گذشتہ دسمبر کے اوائل میں اسلام آباد میں منعقدہ ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس کے موقع پر ایک چار فریقی رابطہ کمیٹی میں چین کی شمولیت ہے۔رابطہ کمیٹی کے باقی اراکین میں پاکستان،افغانستان اور امریکہ شامل ہیں۔اس کمیٹی کا مقصد افغانستان میں جنگ بندی،امن اورمصالحت کے عمل کو فروغ دینے کیلئے طالبان اور افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت کے درمیان بات چیت کے عمل کو بحال کروانا ہے۔اب تک اس کمیٹی کے بالترتیب دواجلاس اسلام آباد اور کابل میں ہوچکے ہیں۔ تیسر ااجلاس 6فروری کو اسلام آباد میں متوقع ہے۔لیکن بات چیت کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔اس کی وجہ طالبان کی طرف سے پیش کی جانے والی چند شرائط بتائی جاتی ہیں۔ان میں طالبان کے سینئر رہنمائوں کی رہائی اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر عائد چند مالی اور سفری پابندیوں کو ختم کرنا شامل ہے۔تاہم عام تاثر یہ ہے کہ طالبان، افغان حکومت کے ساتھ بات چیت سے کترارہے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں گذشتہ 14برسوں سے جاری خانہ جنگی میں طالبان کا پلڑہ دن بدن بھاری ہوتا جارہا ہے۔اْنہوں نے نہ صرف افغانستان کے طول و عرض میں اپنی موجودگی اور اثر و نفوذ میں اضافہ کر لیا ہے بلکہ افغان نیشنل آرمی اور پولیس پر پے در پے حملے کر کے اْنہیں زبردست نقصان پہنچایا ہے۔امریکہ اور نیٹو افواج کی افغانستان سے واپسی نے افغان نیشنل آرمی اور پولیس کو طالبان کے مقابلے میں اور بھی کمزور کر دیا ہے۔اس کے علاوہ ماضی کے برعکس اْنہیں اب امریکہ کی ہوائی فوج کی مدد بھی حاصل نہیں رہی۔نتیجتاً طالبان کیلئے اب بڑے بڑے حملے کرنا ممکن ہوگیا ہے۔پہلے وہ دوچار یا درجنوں کی تعداد میں اپنے مدِمقابل نیٹو اور افغان فوج پر حملہ کرتے تھے۔اب وہ ہزاروں کی تعداد میں منظم ہوکر حملہ آور ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے افغان نیشنل آرمی کے جانی نقصان میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔مبصرین کے مطابق رواں یعنی سال2016ء افغانستان کی خانہ جنگی کا سب سے زیادہ خونریز سال ثابت 
ہوگا۔پے در پے کامیابیوں سے افغان طالبان کے حوصلے بلند ہیں اور اْن کے مقابلے میں افغان نیشنل آرمی کی لڑنے کی صلاحیت دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے۔طالبان سرد موسم کے اختتام اور موسمِ بہار کے آغاز کا انتظار کر رہے ہیں جس میں مبصرین کے مطابق طالبان گذشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر جنگی کارروائیاں شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس صورتِ حال نے افغان حکومت کو ہی نہیں بلکہ امریکہ اور چین کو بھی تشویش سے دوچار کر دیا ہے۔افغان حکومت کی کوشش ہے کہ موسم سرما کے اختتام سے پہلے طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھالیاجائے تاکہ موسم گرما میں ان کے حملے کی نوبت نہ آئے۔دوسری طرف امریکہ اور چین بھی افغانستان میں خانہ جنگی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔امریکہ کو ڈر ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز نہ ہوا تو افغانستان میں خانہ جنگی خونریز رْخ اختیار کر جائے گی جو نہ صرف افغانستان میں امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کے مفادات کو خطرے میں ڈال دے گی بلکہ پورے علاقہ کا امن اور استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔چین،افغانستان میں خانہ جنگی کے جاری رہنے کو نہ صرف اپنے قومی سلامتی کے مفادات کیلئے نقصان دِہ سمجھتا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ اکنامک کوریڈور کی تعمیر اور افغانستان،ایران اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کے راستے میں بھی وہ اسے ایک رکاوٹ سمجھتا ہے۔چنانچہ افغانستان،امریکہ اور چین تینوں مل کر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔
اور اس مقصد کیلئے ان تینوں ممالک کی طرف سے پاکستان پر اپنے ''منفرد‘‘کردار اداکرنے پر زور دیاجارہا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں چین کے وزیرخارجہ وانگ شی کا ایک بیان ہے جو اْنہوں نے بیجنگ میں دورے پر آئے ہوئے افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے موقع پر دیا ہے۔اپنے اس بیان میں چینی وزیرخارجہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اپنا''منفرد‘‘کردار اداکرے۔مبصرین کے مطابق چینی وزیرخارجہ کا یہ بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ یہ بیان افغان وزیرخارجہ کی موجودگی میں دیاگیا ہے۔افغانستان کی طرف سے ہمیشہ پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کرنے اور اْنہیں افغانستان میں اپنی جنگی کارروائیاں جاری رکھنے کیلئے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔افغان حکومت کا موقف ہے کہ صرف پاکستان ہی افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے۔کیونکہ اْسے افغان طالبان پر غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہے۔امریکہ افغان حکومت کے اس موقف سے اتفاق کرتا ہے اور اب چینی وزیرخارجہ کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین بھی امریکہ اور افغانستان کے ساتھ متفق ہے کہ پاکستان کو طالبان پر اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اْنہیں مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اپنا ''بھرپور‘‘ اور''منفرد‘‘کردار ادا کرنا چاہیے۔
مبصرین کے مطابق یہ صورتِ حال پاکستان کیلئے ایک اہم چیلنج ہے کیونکہ افغانستان کے مسئلے پر امریکہ اور چین کے موقف میں ہم آہنگی میںاضافہ ہورہا ہے اور اگر یہ دونوں ممالک جن کے ساتھ پاکستان کے گہرے اقتصادی اور دفاعی تعلقات ہیں،مل کر پاکستان پراپنا ''منفرد‘‘کردار اداکرنے کیلئے دبائو ڈالیں توپاکستان کیلئے ایک مشکل صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے۔ایک طرف تو پاکستان اور چین کے دوطرفہ تعلقات ہیں جنہیں نہ پاکستان اور نہ چین کسی بھی صورت میں متاثر ہونا دیکھ سکتے ہیں،دوسری طرف افغان طالبان پر پاکستان کے کنٹرول اور اثرورسوخ کا معاملہ ہے جس کے بارے میں اکثر مبصرین کی رائے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جارہا ہے۔اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان رابطے شروع سے چلے آرہے ہیں لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ افغان طالبان پر پاکستان کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔یا یہ کہ پاکستان افغان طالبان کو زبردستی مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے۔حالیہ دنوں میں موصول ہونے والی بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی پوری طرح کوشش بھی کی تھی اور اس کوشش کے نتیجے میں گذشتہ جولائی میں اسلام آباد میں طالبان اور حکومت افغانستان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کا ابتدائی اجلاس ہوا تھا۔اس اجلاس میں پاکستان ،چین اور امریکہ کے نمائندوں نے بھی بطور مبصر شرکت کی تھی۔لیکن ملا عمر کی وفات کی خبر اور اْس کے بعد طالبان کے درمیان دھڑے بندی نے مذاکرات کے راستے میں مشکلات کھڑی کر دی تھیں۔اب طالبان میں سے کوئی دھڑا بھی کھلم کھلا مذاکرات کی حمایت کرکے اپنے حریف دھڑے کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع فراہم نہیں کرسکتا کہ اْس نے دشمن کے ساتھ ہاتھ ملا کر اور جہاد ترک کرکے افغان عوام کی جدوجہد سے غداری کی ہے۔
دوسری طرف تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ افغان اپنے معاملات میں کسی بیرونی طاقت خواہ اس کے ساتھ اْن کے دوستانہ تعلقات ہی کیوں نہ ہوں کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔اور اگر اس قسم کی مداخلت کی جائے تو اس کے خلاف بھر پور مزاحمت کرتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق پاکستان نے افغان طالبان پر اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اْنہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی اور افغان طالبان کا ایک دھڑا جس کی قیادت ملا اخترمنصور کررہا ہے مذاکرات پر آمادہ ہے لیکن اپنے مخالف دھڑے کے خوف سے اس سمت کوئی عملی قدم اْٹھانے پر تیار نہیں بلکہ اس کے برعکس افغان سکیورٹی فورسز اور شہری علاقوں میں اپنے حملے تیز کر کے ''جہاد‘‘کے ساتھ اپنی وفاداری اور ثابت قدمی ثابت کرنے پر تْلا ہوا ہے۔
اس کے جواب میں امریکہ اور افغانستان کی طرف سے پاکستان پر یہ دبائو ڈالا جارہا ہے کہ اگر افغان طالبان پاکستان کے مشورے کو رَد کرکے جنگ جاری رکھنے پر اصرار کریں تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف طالبان کو اپنی سرزمین پر سہولتیں اور دیگر امداد فراہم کرنا بند کردے بلکہ افغانستان اور امریکہ کے ساتھ مل کر افغان طالبان کے خلاف فوجی کارروائیاں کرے۔امریکہ میں افغان امور سے متعلقہ تھنک ٹینک اور ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ اس سال موسم گرما کے آغاز پر افغانستان میں خون ریزی سے بچنے کے دو ہی راستے ہیں؛یا تو افغان طالبان امن مذاکرات شروع کیے جائیں اور طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کیاجائے۔یا پھر امریکہ ،پاکستان اور افغانستان کا ایک مشترکہ آپریشن طالبان کے خلاف شروع کیا جائے جس کا یقینا طالبان مقابلہ نہیں کرسکتے اور وہ کسی بڑے نقصان سے بچنے کیلئے مذاکرات پر آمادہ ہوجائیں گے۔
اس وقت دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کا بھی فوری امکان نظر نہیں آتا۔اور اس سال موسم گرما میں طالبان کی طرف سے ایک بڑا حملہ ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر مذاکرات کیلئے بھر پور کوششیں جاری ہیں۔اور ان میںچین کا کردار نمایاں نظر آرہا ہے۔چین کے ساتھ پاکستان کے خصوصی تعلقات کی روشنی میں موجودہ صورتِ حال پاکستان کیلئے ایک اہم چیلنج ہے۔چین کی طرف سے پاکستان پر نہ صرف افغان۔طالبان مذکرات کے انعقاد میں اپنا ''منفرد‘‘کردار اداکرنے پر زوردیاجارہا ہے۔بلکہ بھارت کے ساتھ بھی ڈائیلاگ بحال کرکے اپنے سب سے بڑے ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کو بہتر اور پرامن بنانے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔چین کی طرف سے ان دونوں محاذوں پر سفارتی سرگرمیاں ،دراصل اس کی نئی علاقائی حکمتِ عملی کا مظہر ہیں۔جس کے تحت چین اپنے ہمسایہ اور اردگرد تمام ممالک کے ساتھ معاشی اور تجارتی روابط کو فروغ دے کر اپنے ہاں معاشی ترقی کے عمل کو تیز کرنا چاہتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے ردِعمل کے طور پر اپنی خارجہ پالیسی کی سٹریٹجک سمت میں کیا تبدیلیاں کی جاتی ہیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں