آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق راولپنڈی میں منعقدہ کورکمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ فاٹا میں ملٹری آپریشن 'ضرب عضب‘ تکمیل کے مرحلے میں داخل ہونے والا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے آگے کا سوچا جائے تاکہ آپریشن سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو مستحکم کیا جائے اور ملک میں طویل المیعاد بنیادوں پر امن و استحکام قائم کیا جائے۔ اس سلسلے میں آئی ایس پی آر کے بیان کہا گیاکہ اگرچہ فاٹا میں آپریشن ضرب عضب اختتام پذیر ہونے والا ہے لیکن ایک حکمت عملی کے تحت ملک کے دیگر حصوں میں یہ جاری رکھا جائے گا تاکہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو مکمل طور پر تباہ کیا جا سکے۔ فاٹا میں ضرب عضب کی تکمیل کے بعد جن شعبوں میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، اْن کی نشاندہی کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے تین کا ذکر کیا۔ اندرونی طور پر بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کی گھروں کو بحفاظت واپسی اور بحالی، ملک کے تمام حصوں میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز (IBO) کا اختیار اور سرحدوں کی سخت نگرانی اورکنٹرول کا انتظام (Border (Managment تاکہ بین الاقوامی سرحدوں کے آر پار دہشت گردوں کی آمد و رفت کی روک تھام کی جا سکے۔
جہاں تک آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں بے گھر افراد کی اپنے گھروں کی واپسی کا تعلق ہے، اس کی رفتار تیزکرنے کی ضرورت اور اہمیت سے کسی کو انکار نہیں کیونکہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے یہ افراد صوبہ خیبر پختونخوا میں پونے دوبرس سے مختلف مقامات پر جن میں عارضی طور پر قائم کیے گئے کیمپ بھی شامل ہیں،کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔اس عرصہ کے دوران میں یہ افراد نہ صرف اپنے گھروں،مال مویشی اور جائدادوں سے دور رہے، بلکہ متعدد ضروری سہولتوں سے بھی محروم رہے، خاص طور پر بچوں اور عورتوں کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں بچوں کی تعلیم کا نقصان بھی شامل ہے اس لیے ان بے گھر افراد کی جلد ازجلد واپسی اور تسلی بخش بحالی ایک ایسا فریضہ ہے جس سے حکومت کو کسی صورت پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے۔ باعثِ اطمینان خبر یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے نئے گورنر ظفر اقبال جھگڑا نے کہا ہے کہ اس سال کے آخر یا ہوسکتا ہے کہ اکتوبر تک قبائلی علاقوں کے تمام بے گھر افراد گھروں کو واپس چلے جائیں۔
افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کی سخت نگرانی اور بارڈر مینجمنٹ کی اہمیت پر دوآراء نہیں ہوسکتیںکیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد جسے ڈیورنڈلائن کہا جاتا ہے بلند و بالا چوٹیوں،گھنے جنگلوں اور دشوار گزار راستوں میں گزرنے کی وجہ سے ایک کھلی سرحد(Porous Border) ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس سرحد کو افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے افغانستان آنے جانے کے لئے مکمل طور پر کھول دیا گیا تھا۔اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ڈیورنڈلائن کے آرپار صرف دہشت گردوں کی آمدورفت ہی جاری نہیں بلکہ نگرانی اور کنٹرول کے عدم موجودگی کے باعث اس سرحد کو انسانی سمگلنگ،اسلحہ سمگلنگ اور دیگر ٹرانس نیشنل کرائمز کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اب بھی روزانہ 50 ہزار سے زائد افراد افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے افغانستان آنے جانے کے لئے اس سرحد کو استعمال کرتے ہیں۔ ان میں طالب علم، مزدور، تاجر اور بیمار لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اس قسم کی سرحد کو کنٹرول کرنا صرف ایک ملک یعنی پاکستان کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے پاکستان اور افغانستان دونوں کو مل کر کوششیں کرنی پڑیںگی۔گزشتہ دوسال میں اس مقصد کے لئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر خصوصی اجلاس ہوچکے ہیں اور دونوں ملک اس قسم کے کنٹرول کی ضرورت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک موثر میکانزم کے قیام پر متفق نظر آ رہے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب جون2014ء میں شروع کیا گیا تھا اور اس کی وجہ چند ہائی پروفائل دہشت گردی کے واقعات تھے۔ چونکہ دہشت گردی کے ان واقعات کا تانا بانا قبائلی علاقوں سے ملتاتھا،اس لیے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے اڈوں کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی دبائو میں اضافہ ہو رہا تھا۔ علاقے کی بدلتی ہوئی صورت حال کے پیشِ نظر پاکستان کے لئے اس دبائوکو زیادہ دیر نظر اندازکرنا مشکل تھا۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن، جس میں پیدل فوج کے علاوہ ٹینک، دور مار توپیں، ہیلی کاپٹر اور جدید ترین جیٹ طیارے بھی استعمال کیے جارہے ہیں،کو اس لیے بلاجواز قرار نہیں دیا جاسکتاکہ قبائلی علاقوں میں حکومت یا انتظامیہ نام کی کوئی چیزنہیں۔ لیکن ملک کے چاروں صوبوں میں منتخب نمائندہ حکومتیں موجود ہیں۔ ان حکومتوں کی کارکردگی میں کئی کیڑے نکالے جاسکتے ہیں اور استعداد، صلاحیت اور ڈسپلن کے شعبوں میں صوبائی پولیس کا فوج کے ساتھ موازنہ نہیں کیاجاسکتا‘ مگر ان حکومتوں کو عوام نے ووٹ دے کر حکومت کرنے کا اختیار دیاہے۔ اس کے علاوہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالات فاٹا سے مختلف ہیں۔ ان علاقوں میں انتظامی اور سیاسی خلا نہیں ہے۔ منتخب حکومتوں کے علاوہ صوبائی انتظامیہ کے تجربہ کار اور مستعدد ڈھانچے ہیں۔ پولیس اور صوبائی بیوروکریسی اس کے دواہم ستون ہیں جنہیں اْمور حکومت اور قانون نافذ کرنے کا ایک سوسال سے زیادہ تجربہ ہے۔جہاں کہیں ضرورت پڑتی ہے وفاقی اداروں مثلًا آئی بی، رینجرز بلکہ فوج کی بھی مدد حاصل کرنے کے لئے آئینی دفعات موجود ہیں۔ لیکن بنیادی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپریشن صوبائی حکومت کے تعاون اور اْن کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کو بائی پاس کرکے نہیں۔ جہاں کہیں صوبائی حکومتوں کو بائی پاس کر کے آپریشن جاری رکھنے کی کوشش کی گئی تو نتیجہ اْلٹ نکلا۔ اس کی مثال صوبہ سندھ خصوصاً کراچی کی موجودہ صورت حال کی دی جاسکتی ہے۔ رینجرز دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن، صوبائی حکومت کو بائی پاس کرکے جاری رکھنا چاہتی ہے، یہاں تک کہ مزید اختیارات کے لئے صوبائی حکومت کی رضامندی حاصل کرنے کی بجائے، رینجرز مرکزی حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں رینجرز اور سندھ کی صوبائی حکومت کے درمیان کشیدگی کا ماحول پیدا ہوا ہے جس کا فائدہ دہشت گرد اْٹھا رہے ہیں۔ اس کے برعکس بلوچستان میں جہاں سابق کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل(ر) ناصر خان جنجوعہ کے دور میں فوجی اور نیم فوجی طاقتوں اور سول انتظامیہ کے درمیان تعاون اور قریبی رابطے پر انحصار کرکے انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملی پر عمل کیا گیا، مثبت نتائج برآمد ہوئے او ردہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔
اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ موجودہ دور میں دہشت گردی پیچیدہ اور ہمہ جہتی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لئے جامع اور مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ طاقت کا استعمال اس کا صرف ایک جز ہے۔ باقی اجزا ایک ایسی ڈومین کا حصہ ہیں جس میں فیصلہ سازی کا حق صرف اور صرف پولیٹیکل گورنمنٹ کو حاصل ہے۔ حتیٰ کہ طاقت کے استعمال میں بھی اس کے موقع، حجم اور سمت کا فیصلہ سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہونا چاہیے کیونکہ اس صورت میں ہی طاقت کے استعمال کو آئین اور قانون کے مطابق جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف دوڈھائی برسوں سے جو مہم جاری ہے،اْس کے بارے میں عام تاثر یہ اْبھر رہا ہے کہ اس کی وجہ سے سیاسی وفاقی اور صوبائی حکومتیں آہستہ آہستہ اپنے آئینی اور قانونی اختیارات سے محروم ہوتی جارہی ہیں ۔ نہ صرف صوبائی حکومتیں بلکہ مرکزی حکومت بھی آہستگی لیکن تواتر کے ساتھ اْن کے دائرہ اختیار سے باہر ہورہی ہیں جو آئین اورقانون کے مطابق اْن کی ملکیت ہے۔ اس عمل میں خود حکومتوں کی غفلت، نااہلی اور خراب کارکردگی کا بھی حصہ ہوسکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں سول، ملٹری تعلقات کے خصوصی تناظر میں یہ رجحان نہ صرف جمہوریت بلکہ خود انسدادِ دہشت گردی کی مہم کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی ایک ٹیکنیکل یا قانونی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔اس میں طاقت کا استعمال بھی شامل ہے جو دراصل ایک سیاسی اقدام ہی ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی صورت میں دہشت گردی ملک گیر مسئلہ ہے۔ یہ کسی علاقے، صوبے یا طبقے تک محدود نہیں، اس کے خلاف وہی حکمتِ عملی کامیاب ہوگی جو جامع اور ہمہ جہتی اور ملک گیر ہو۔ اس میں کامیابی کے حصول کی خاطر ضروری ہے کہ حکمتِ عملی موثر ہو، اس لیے ضرب عضب بطور حکمتِ عملی اگر موثر ثابت ہوسکتی ہے تو اسے ضرور اور پورے ملک میں استعمال کرنا چاہیے لیکن اس کو ایک نئی اور وسیع سطح پر لاگو کرنے سے قبل فاٹا میں اس کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ممکنہ غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچا جاسکے۔