وزیر اعظم نواز شریف نے مانسہرہ میں ایک پرہجوم جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں مڈٹرم انتخابات کا کوئی امکان نہیں۔ ان کا یہ بھی اصرار تھا کہ مانسہرہ کا جلسہ سیاسی نوعیت کا نہیں‘ بلکہ وہ ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے لیے ان جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے مانسہرہ میں حویلیاں‘ شنکیاری موٹر وے سیکشن اور قدرتی گیس مہیا کرنے کے تین منصوبوں کا حوالہ بھی دیا۔ لیکن اس کے باوجود بعض مبصرین کی نظر میں وزیر اعظم نواز شریف نے دراصل اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اور مانسہرہ کا جلسہ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم ملک کے دیگر حصوں میں بھی اسی نوعیت کے جلسوں سے خطاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان میں پنجاب کے علاوہ سندھ اور بلوچستان بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف بھی ملک کے مختلف حصوں میں جلسے جلوسوں کے پروگرام کا اعلان کر چکی ہے۔ کرپشن کے نام پر عوامی رابطہ کی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اس کے لیے سندھ میں ریلیاں نکالی گئی ہیں۔ لاہور میں یکم مئی کے موقع پر جلسہ بھی اسی عوامی رابطے کی ایک کڑی تھی۔ مبصرین کے نزدیک پاکستان کی ان دو بڑی اور حریف پارٹیوں کی طرف سے عوامی رابطے کی یہ مہم اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں مڈٹرم انتخابات جلد ہونے والے ہیں لیکن کیا واقعی انتخابات کا امکان ہے؟
جو حلقے اس سوال کا جواب ہاں میں دیتے ہیں ان کا خیال ہے کہ چونکہ موجودہ حالات مسلم لیگ (ن) کے حق میں ہیں۔ اسی لیے وہ مڈٹرم انتخابات کے ذریعے ایک تازہ عوامی مینڈیٹ حاصل کر کے حزب اختلاف خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ڈالے جانے والے دبائو کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکتی ہے۔ مثلاً سیاسی طور پر مسلم لیگ(ن) ایک مضبوط پوزیشن میں ہے۔ اب تک جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ان میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ مرکز اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی مستحکم حکومتیں قائم ہیں۔ امن و امان اور سکیورٹی کی صورت حال اگرچہ مثالی نہیں۔ لیکن وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کے اس بیان سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ ملک میں دہشت گردی اور خودکش حملوں میں نمایاں کمی واقعہ ہوئی ہے۔ پاکستان کی معیشت اب بھی متعدد مشکلات کا شکار ہے اور قومی برآمدات میں اضافہ کی رفتار بہت سست ہے‘ تاہم وزیر خزانہ کی کوششوں سے معیشت کو استحکام حاصل ہوا ہے‘ اگرچہ اس میں تیل کی انتہائی کم قیمتیں اور دوست ممالک کی طرف سے امداد کا زیادہ ہاتھ ہے۔ مہنگائی اب بھی زیادہ ہے تاہم اس میں تیزی سے اضافہ نہیں ہو رہا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت بھی مستحکم ہے اور ملک میں زرمبادلہ کے کافی ذخائر موجود ہیں۔ سیاسی محاذ پر بھی حالات حکومت کے لیے سازگار ہیں۔ اگرچہ اپوزیشن کی طرف سے پانامہ لیکس کی روشنی میں وزیر اعظم پر دبائو ڈالا جا رہا ہے‘ تاہم پارلیمنٹ میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی‘ وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کرنے کے مسئلے پر‘ تحریک انصاف کا ساتھ دینے پر تیار نہیں۔ چونکہ اپوزیشن بٹی ہوئی ہے اور حکومت مضبوط ہے۔ اس لیے وزیر اعظم نواز شریف کے لیے مڈٹرم انتخابات کے ذریعے مزید پانچ سال کے لیے مینڈیٹ حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔
تاہم جن دلائل کی بنا پر مڈٹرم انتخابات کو ناگزیر سمجھا جا رہا ہے‘ ان میں دلائل کی روشنی میں مڈٹرم انتخابات کے امکان کو رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر حکومت مضبوط ہے اور اپوزیشن باہمی اختلافات کا شکار ہے اور اس وجہ سے وہ حکومت گرانے کی پوزیشن میں نہیں‘ تو حکومت کو مڈٹرم انتخابات کا رسک لینے کی کیا ضرورت ہے؟ اگرچہ تحریک انصاف پاناما لیکس کے مسئلے پر سیاست کے درجہ حرارت کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے‘ تاہم اس بات کے کوئی آثار نہیں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر آ کر حکومت کو مڈٹرم انتخابات پر مجبور کر سکے۔ اب تک اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں‘ کسی ایک نکتے پر اکٹھی نہیں ہو سکیں۔
تاریخی لحاظ سے بھی پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے جن ملکوں میں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے‘ رضا کارانہ طور پر مڈٹرم یا قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کروانے کی روایت تقریباً ناپید ہے اور اگر کبھی ایسا اقدام کیا بھی گیا ہے تو نتائج حکومت وقت کی توقعات کے برعکس برآمد ہوئے ہیں۔ مثلاً ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ1977ء میں قبل از وقت انتخابات کروانے کا فیصلہ بھی عین ان ہی دلائل کی بنیاد پر کیا تھا جو آج کی صورت حال کے مطابق مڈٹرم انتخابات کے حق میں پیش کی جا رہی ہیں۔ مثلاً 1977ء کے اوائل میں یہ تاثر عام تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی مخالف جماعتوں کی صفوں میں اتحاد نہیں بلکہ آپس میں دست و گریباں ہیں(بعد میں ایئر مارشل اصغر خاں نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن نے یہ تاثر جان بوجھ کر جناب بھٹو صاحب کو گمراہ کرنے اور قبل از وقت انتخابات کروانے پر آمادہ کرنے کے لیے پیدا کیا تھا) مارچ 1977ء کے پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی اپوزیشن متحد ہو گئی اور پھر جو نتائج سامنے آئے‘ وہ سب کے سامنے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جناب بھٹو نے بھی قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کا فیصلہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور سری لنکا کی وزیر اعظم مسز بندرانائیکے کی تقلید میں کیا تھا۔ اسے محض حسن اتفاق کہہ لیجیے۔ تاہم جنوبی ایشیا کے ان تینوں ممتاز رہنمائوں کے فیصلوں کے نتائج ان کی توقعات کے برعس نکلے۔ اس کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں مثلاً بھارت اور نیپال میں اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے سے قبل کئی انتخابات ہوئے‘ مگر اِن کی وجوہ اور تھیں۔ رضا کارانہ طور پر نہ تو مڈٹرم اور نہ قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ سابق بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت کے دوسرے دور میں اپوزیشن پارٹی بی جے پی نے کانگرس حکومت کو تقریباً مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ اور بیشتر مبصرین بھارت میں 2011-12ء میں مڈٹرم انتخابات کو ناگزیر سمجھتے تھے۔لیکن ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اپنی حکومت کی پانچ سالہ معیاد پوری کی اور 2014میں بھارت میں پارلیمانی انتخابات ہوئے۔
چند حلقے موجودہ صورتحال کا 1993ء کی صورت حال سے موازانہ کر رہے ہیں جب صدر غلام اسحاق خاں اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان چپقلش کے نتیجے میں اس وقت کے چیف آف دی سٹاف جنرل وحید کاکڑ کو مداخلت کرنی پڑی اور وزیر اعظم اور صدر دونوں کو گھر جانا پڑا۔ لیکن 1993ء اور موجودہ صورتحال میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس وقت آئین کی دفعہ 58-2(b)کی تلوار حکومت کے سر پر لٹک رہی تھی۔ اب صدر کے پاس وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بغیر اسمبلیوں کو برخاست کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اس لیے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو 1993ء جیسا کوئی خطرہ نہیں۔ وزیر اعظم کی پارٹی کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے‘ مسلم لیگ(ن) کی وفاقی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کی موجودہ آئینی‘ منتخب اور جمہوری حکومت کو اس حد تک پذیرائی حاصل ہے‘ کہ کسی طالع آزما کو اسے برطرف کر کے ایک غیر جمہوری حکومت قائم کرنے کے بارے میں کئی بار سوچنا پڑے گا۔