"DRA" (space) message & send to 7575

پیپلزپارٹی میں تنظیم نوکی کوشش

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میدان سیاست میں آنے کے بعد آہستہ آہستہ پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں اور اسے ایک دفعہ پھر متحرک اور مثبت سیاسی قوت بنانے کیلئے جن اقدامات پر ایک عرصہ سے زور دیا جا رہا تھا‘ وہ کر رہے ہیں۔ ان میں پارٹی کی تنظیم نو کیلئے عام کارکنوںکی طرف سے تجاویز کے حصول کی ایک سنجیدہ کوشش بھی شامل ہے۔ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ کے مطابق چیئرمین بلاول نے تمام کارکنوںکو چھ سوالات پر مبنی ایک سوال نامہ بھیجا ہے جن کے جوابات کی روشنی میں پارٹی کا آئندہ لائحہ عمل، حکمت عملی اور پروگرام وضع کیا جائے گا تاکہ وقت حاضرہ کے تقاضوں کی روشنی میں پارٹی کے پلیٹ فارم سے جو بھی اپیل جاری کی جائے ‘وہ معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً پارٹی کے روایتی ووٹ بینک یعنی مزدروں، کسانوں، نوجوانوں اور نچلے درمیانے طبقے کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔
تنظیم صرف پاکستان پیپلزپارٹی کا ہی مسئلہ نہیں، بلکہ جماعت اسلامی اور کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑ کرملک کی ہر پارٹی کو یہ مسئلہ درپیش رہا ہے‘ لیکن پیپلزپارٹی کو درپیش اس مسئلے کے چند خصوصی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی کو اپنے قیام کے ساتھ ہی ایوب خان کے خلاف جاری عوامی جدوجہد کا نہ صرف حصہ بننا پڑا بلکہ اس کی قیادت بھی اپنے ہاتھ میں لینا پڑی اور پھر 1971ء کی پاک بھارت جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ اسے باقی ماندہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنا پڑی۔ اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ترجیح، پارٹی نہیں بلکہ حکومت بن گئی۔ اس کا سب سے نمایاں اثر عام ورکرز اور لیڈروں کے درمیان فاصلوں میں اضافہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ‘جن کی ذات سیاست، فراست، فلسفہ اور ویژن پارٹی کا سب سے قیمتی سرمایہ تھا، پارٹی کی تنظیم پر اس لئے توجہ نہ دے سکے کہ وہ ایک شکست خوردہ اور مایوس قوم کا مورال بلند کرنے کیلئے حکومت اور ریاستی ڈھانچے کومضبوط بنانے میں مصروف رہے‘ حالانکہ اس عرصے کے دوران ہی ڈاکٹر مبشر حسن جیسی قد آور شخصیتیں پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہیں۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے یہ بھی عذر پیش کیا جاتا ہے کہ انہیں ایک طویل عرصہ تک جنرل ضیاء الحق کے استبداد کا سامنا کرنا پڑا اور اس دوران میں نہ صرف تنظیم بلکہ پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی اثر پڑا‘ لیکن سیاسی پارٹیاں اپنی سرگرمیوں یا تنظیمی امور کے لئے حکمرانوں کی اجازت کی محتاج نہیں ہوتیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو روس میں بالشویک کمیونسٹ پارٹی لینن کی قیادت میں انقلابی پارٹی کے طور پرابھر کر سامنے نہ آتی‘ یا چینی کمیونسٹ پارٹی مائوزے تنگ کی قیادت میں کبھی انقلاب چین نہ لا سکتی۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے آپ کو ایک مضبوط اور موثر تنظیم بنانے کی طرف توجہ کبھی بھی نہیں دی اور اگر اس طرف کبھی کوئی قدم اٹھایا بھی تو اسے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا۔ مثلاً 1985ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو امریکہ سے پاکستان تشریف لائی تھیں تو انہوں نے نہ صرف پارٹی کی تنظیم کو مضبوط کرنے بلکہ پارٹی کے اداروں کو فعال بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے پارٹی کے تحت ایک اکیڈمی کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس میں پارٹی کے کارکنوں کو سیاسی‘ تعلیمی اور انتخابی مہم کے بارے میں تربیت فراہم کرنے کا پروگرام شامل تھا۔ لیکن مئی 1988ء میں جنرل ضیاء کے ہاتھوں محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی اور اس کے بعداگست 1988ء میں طیارہ کے حادثہ میںخود جنرل صاحب کی ناگہانی موت نے پاکستان میں ایک ایسی ہنگامی صورت حال پیدا کردی کہ پارٹی کی تنظیم اور اس کے اداروں کے قیام کا مسئلہ کھٹائی میں پڑ گیا ‘ کیونکہ نئے پارلیمانی انتخابات سر پر آ پہنچے تھے۔ لیکن اس دوران پارٹی سے کچھ کوتاہیاں بھی سرزد ہوئیں جن کا آگے چل کر اسے خمیازہ بھگتنا پڑا۔ سب سے بڑی کوتاہی پارٹی آرگن ''روزنامہ مساوات‘‘ کی سلوڈیتھ (Slow death) تھی۔ پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے جولائی 1970ء میں روزنامہ مساوات کا اپنے ہاتھوںسے افتتاح کیا تھا۔ اس اخبار نے نہ صرف 1970ء کے انتخابات میں پارٹی کی کامیابی یقینی بنانے میں مدد دی بلکہ پورے مغربی پاکستان میں پارٹی کے کارکنوں میں شعور پیدا کرکے انہیں ایک مربوط سیاسی قوت میں ڈھالنے کا بھی کارنامہ سرانجام دیاتھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں روزنامہ مساوات کو ایک موثر اخبار بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ حکومت کی توجہ اورعنایات کا رخ ٹرسٹ کے اخبار کی طرف زیادہ تھا۔ 
دراصل پاکستان میں پیپلزپارٹی کو جس مسئلے کا سامنا ہے، اس قسم کی صورت حال بھارت میں کانگرس، نیپال میں کانگرس،اور سری لنکا میں سری لنکا فریڈم پارٹی کو درپیش ہے۔ پیپلزپارٹی کی طرح ان تمام سیاسی پارٹیوں نے جس عہد میں سیاسی شعور حاصل کیا وہ سوشلزم اور بائیں بازو کے نظریات کی بالادستی کا دور تھا۔ اگرچہ کٹر مارکسسٹ معنوں میں یہ طبقاتی سیاسی پارٹیاں نہیں تھیں لیکن انہوں نے اس کو بطور نعرہ استعمال کیا‘ عملی طور پر کچھ کرکے نہیں دکھایا۔ نتیجتاً ان جماعتوں کا ووٹ بنک ان پارٹیوں کی طرف شفٹ ہوگیا جو ترقی اور شفافیت کا نعرہ لگاتی ہیں۔ بھارت میں 2014ء کے انتخابات میں کانگرس کی عبرتناک شکست اور بی جے پی کی عدیم المثال کامیابی کا یہی راز ہے۔ جس زمانے میں یہ پارٹیاں کامیابی اور ہر دلعزیزی کی موج پر سوار تھیں وہ زمانہ سامراج مخالف اور یورپی نوآبادیاتی نظام کے زوال کا تھا۔ یہ زمانہ صدر ناصر احمد سوئیکارنو، پنڈت نہرو،چواین لائی، ماوزے تنگ، فیڈل کاسٹرو اور چی گویرا کا زمانہ تھا۔ دنیا کے کونے کونے میں ان کے نظریات اورکارناموں کی گونج تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایشیا افریقہ اور لاطینی امریکہ میں نو آبادیاتی نظام پسپائی اختیار کر رہا تھا اور ان خطوں میں ایک کے بعد دوسری قوم مغرب کے استعماری نظام کی غلامی سے آزادی حاصل کر رہی تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس کے ایجنڈے میں برلن اور تائیوان کی بجائے فلسطین، کانگو، ہوڈیشیا (موجودہ زمبابوے) جنوب مغربی افریقہ (موجودہ نمیبیا) اور جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے مسائل شامل ہوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عالمی فورم یعنی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے نیو انٹرنیشنل اکنامک آرڈر کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے عالمی سرمایہ دارانہ نظام ہر طرف سے گھرا ہوا تھا۔ اس عہدے کی ایک سمت تھی اور اس کی گھن گرج میں ایک پیغام یعنی روح پنہاں تھی۔ جس نے اس ہمت کو دیکھ لیا اور روح کو پہچان لیا‘ وہ ہیرو بن گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسا ہی ہیرو تھا‘ جس نے جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک سہگل کے مطابق تاریخی عمل کو صحیح طور پر سمجھا اور اپنے آپ کو اس کا حصہ بنایا۔ اس طرح وہ پاکستان کا ہی نہیں بلکہ پوری تیسری دنیا کا ہیرو بن گیا۔
لیکن اب اس عہد کو گزرے کئی دہائیاںبیت چکی ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کو دفن ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ پہلے عالمی سیاست پر دو سپر طاقتوں کی بالادستی قائم تھی اب دنیا میں چین، یورپی یونین اور کئی اور ممالک کی صورت میں نئے مراکزِ قوت پیدا ہو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر دہشت گردی، داعش اور انتہا پسندی جیسے چیلنج پیدا ہو چکے ہیں جن سے‘ خود امریکی صدر بارک اوباما کے نزدیک‘ نمٹنا کسی ایک ملک بشمول امریکہ کے بس کی بات نہیں۔ اب دنیا محاذ آرائی کی بجائے تعاون کی طرف جا رہی ہے۔ سرمایہ قومی حدود کو پار کرکے نفع بخش منڈیوں کی طرف رخ کر رہا ہے۔ پڑھا لکھا نوجوان طبقہ خصوصاً جنوبی ایشیا میں روزگار اور بہتر معیار زندگی کا متلاشی ہے۔ ان کی حمایت صرف اس سیاسی پارٹی کو حاصل ہوگی جو اس طبقے کی ضروریات، خواہشات اور امنگوں پر پورا اترے گی۔ غالباً اسی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے ورکرز سے آئندہ پروگرام اور حکمت عملی کیلئے رائے مانگی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں