چند دن پیشتر وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ تین ماہ سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ بھی انہوں نے بتائی تھی اور ان مسائل کا ذکر کیا تھا جن کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات کو اس وقت ایک ڈیڈ لاک کا سامنا ہے۔ ان میں ایف16جیٹ طیاروں کی خریداری کے لیے امریکہ کی طرف سے امدادی رقم کی فراہمی میں رکاوٹ‘ پاکستان کی طرف سے چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری‘ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی نظر بندی کا مسئلہ اور امریکہ کی طرف سے پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار شامل ہے۔ ان کے علاوہ امریکہ کو پاکستان سے یہ بھی شکایت ہے کہ شمالی وزیرستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے نکل کر افغانستان میں امریکی اور افغان فوجیوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنانے والے گروپ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے میں پاکستان ناکام رہا ہے۔ سرتاج عزیز سینیٹ میں اس موضوع پر بحث کو سمیٹتے ہوئے پالیسی بیان دے رہے تھے۔ ان کے بیان سے ظاہر ہو رہا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات بدستور مشکلات کا شکار رہیں گے کیونکہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام پر امریکی اعتراضات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان اس ضمن میں کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں بھی انہوں نے امریکی موقف کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس سلسلے میں امریکہ کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو وہ پاکستان کو فراہم کئے جائیں‘ پاکستان ان کی بنیاد پر کارروائی کرے گا۔ جہاں تک ڈاکٹر شکیل آفریدی کی قید کا تعلق ہے‘ سرتاج عزیز کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی رہائی کا بھی کوئی امکان نہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ نے بھارت کے جن خدشات کو بنیاد بنا کر ایف 16 طیاروں کی خریداری کے لیے امدادی رقم روکنے کا فیصلہ کیا ہے‘ پاکستان نے اس پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ خیال ہے کہ گزشتہ دس برسوں سے بھارت کے ساتھ امریکہ کے قریبی تعلقات کا جو رجحان چلا آ رہا ہے‘ پاکستان اور امریکہ کے درمیان مزید رنجش کا باعث بنے گا۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے یا اس وقت دونوں ملکوں میں دو طرفہ یا کثیر الجہتی بنیادوں پر مختلف شعبوں مثلاً توانائی ‘ صحت‘ تعلیم‘ زراعت‘ آبی وسائل کا انتظام اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف جو تعاون جاری ہے اس میں کسی قسم کی کمی آ جائے گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات اور تعاون دونوں ملکوں کے قومی مفادات کے لیے ضروری ہیں ۔ ان میں اتار چڑھائو نئی یا غیر متوقع بات نہیں۔ پہلے بھی مشکلات آتی رہی ہیں اور آئندہ بھی آتی رہیں گی لیکن پاکستان اور امریکہ تعلقات بدستور قائم رہیں گے۔ ان کی نوعیت بدل سکتی ہے اور اگر1950ء کے عشرے سے اب تک دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات کی نوعیت کافی بدل چکی ہے۔1950ء اور 1960ء کی دہائیوں کے دوران میں پاکستان اور امریکہ فوجی اتحادی تھے۔ اس عرصہ کے دوران میں فوجی تعلقات پر زور زیادہ تھا۔ 1980ء کی دہائی میں افغانستان پر روسی قبضہ تعلقات کی مضبوطی کا باعث بنا اور 9/11کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکھڑا کیا۔ اس دوران تعلقات میں اتار چڑھائو بھی آتا رہا۔ لیکن تعلقات بریک ڈائون کا شکار نہیں ہوئے۔ اس لیے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے جناب سرتاج عزیز کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں مشکلات موجود ہیں لیکن
دونوں ممالک ان تعلقات کو ایک دوسرے کے قومی مفادات کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لیے دو طرفہ بنیادوں پر موجودہ تعاون جاری رہے گا۔
دو طرفہ بنیادوں پر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نہ صرف وسیع بلکہ بڑے گہرے ہیں۔ جن شعبوں میں امریکہ پاکستان کی تکنیکی اور مالی امداد کر رہا ہے‘ ان کا تعلق ہمارے ملک کی معیشت‘ انفراسٹرکچر اور سماجی ترقی سے ہی نہیں بلکہ دفاع اور سلامتی سے بھی ہے۔ نائن الیون کے بعد اس تعاون میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق امریکہ نے 2001ء سے اب تک پاکستان کو 35بلین ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد فراہم کی ہے، اس کے علاوہ پاکستان کو نان نیٹو اتحادی(Non Nato Ally)کی حیثیت سے امریکہ سے رعایتی نرخوں میں اسلحہ اور گولہ بارود خریدنے کی بھی رعایت حاصل ہے۔
دہشت گردی کے خلاف تعاون اور افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے لیے مدد اور سپلائی فراہم کرنے کے عوض پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ(Coalition Support Fund)کے تحت جو امریکی امداد نقد صورت میں فراہم کی جاتی ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد اس فنڈ کے تحت امداد کا سلسلہ رک گیا ہے۔ تاہم پاکستان کو سٹریٹجک ڈائیلاگ کے تحت امریکہ کی طرف سے مختلف شعبوں میں امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ اس میں توانائی کا شعبہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مثلاً 2013ء تک امریکی مدد سے پاکستان میں 900میگاواٹ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو ا۔ یہ اضافہ مظفر گڑھ اور جام شورو بجلی گھروں کی توسیع اور تربیلا ڈیم سے بجلی کی پیداواری صلاحیت بہتر بنانے سے ممکن ہوا۔ تعلیم‘ صحت اور ماحولیات کے شعبوں میں امریکی تکنیکی اور مالی امداد اس کے علاوہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس تعاون سے پاکستان کو بہت فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی خواہش ہے کہ یہ تعاون جاری رہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں یعنی آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے پاکستان کو جو امداد مل رہی ہے اس میں امریکہ کے کردار کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے پاکستانی برآمدات کے لیے امریکہ سب سے بڑی منڈی ہے اور پاکستان امریکہ کو اپنی برآمدات میں مزید اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ یہ ہماری معیشت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ جنوبی ایشیا خلیج فارس‘ بحرہ ہند اور مشرق وسطیٰ کے خطوں میں اس وقت جو صورت حال موجود ہے اس کے پیش نظر پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اور ایک منظم اور بڑی فوج کے ساتھ 20کروڑ آبادی والا ملک‘ پاکستان اس پورے خطے کی سلامتی اور استحکام میں موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس لیے مشکلات اور اختلافات کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تعاون جاری رہے گا۔ صدر اوباما کی حکومت اپنے ملک کے قومی مفادات کے لیے پاکستان کے قریبی تعلقات کی اہمیت تسلیم کرتی ہے۔ اس لیے ان کی حکومت نے کانگریس کی مخالفت کے باوجود پاکستان کو ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔ تاہم کانگرس کے بعض بااثر حلقوں کی طرف سے پاکستان کی بعض پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اور انہی حلقوں کی طرف سے مخالفت کی بنیاد پر پاکستان کو ایف 16طیارے خریدنے کے لیے جو امدادی رقم فراہم کی جانے والی تھی‘ وہ روک دی گئی ہے۔ لیکن امید ہے کہ یہ رکاوٹ بھی دور کر لی جائے گی۔ پاک امریکہ تعلقات کی گزشتہ تقریباً 60سال کی تاریخ اور مستقبل کی طرف اشارہ کرنے والے موجودہ رجحانات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ اخذ کرنا غلط نہیں ہو گا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات بھی جاری رہیں گیاور باہمی مفاد پر مبنی تعاون بھی جاری رہے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات اسی وجہ سے ناگزیر ہیں کہ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے۔ اس کی پالیسیاں اور نکتہ نظر اس کے عالمی مفادات کے تابع ہیں۔ پاکستان کے مفادات علاقائی نوعیت کے ہیں۔ خصوصاً مشرقی اور مغربی سرحدوں کے پار سے لاحق خطرات پاکستان کے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔ امریکہ بھی ان خطرات کی موجودگی کا ادراک رکھتا ہے مگر وہ انہیں اپنی عالمی حکمت عملی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ جبکہ پاکستان اسے اپنی نیشنل سکیورٹی کے مقاصد کے تحت دیکھتا ہے۔ اس بنیادی اختلاف کے باوجود دونوں ملکوں میں اشتراک اور تعاون نہ صرف ممکن بلکہ ناگزیر ہے کیونکہ دونوں ملک خطے میں امن ‘ ترقی اور استحکام کو ضروری سمجھتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو یقین ہے کہ باہمی تعاون سے نہ صرف خطے میں اس کے قیام میں مدد ملے گی بلکہ خوشحالی کے لیے ترقی ے نئے راستے نکلیں گے۔ جہاں تک بعض مسائل مثلاً ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا تعلق ہے‘ امریکہ کو معلوم ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں کوئی دبائو قبول نہیں کرے گا۔ مگر تعاون کی راہیں مسدود نہیں ہوں گی کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی بڑے مضبوط رشتے قائم ہیں۔ جہاں تک باقی مسائل کا تعلق ہے‘ پاکستان میں جمہوری نظام کے استحکام سے ان پر بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان سوچ اور اپروچ کا فرق بتدریج کم ہوتا چلا جائے گا۔