''حکومت نے (پاناما لیکس پر تحقیقاتی کمیشن) کے ٹی او آرز پر مثبت جواب نہ دیا تو عین ممکن ہے کہ عید کے بعد عمران خان اور پیپلز پارٹی ایک ہی کنٹینر پر اکٹھے کھڑے ہوں‘‘۔ یہ بیان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران دیا ہے۔ اعتزاز احسن پاناما لیکس کی روشنی میں آف شور کمپنیوں کے قیام میں ملوث پائے گئے پاکستانی شہریوں کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے مجوزہ کمیشن کے لیے ٹی او آرز متعین کرنے والی 12رکنی پارلیمانی کمیٹی میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس کمیٹی کا قیام17مئی کو عمل میں آیا تھا۔ اب تک اس کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں لیکن فریقین میں ٹی او آرز پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ گزشتہ سوموار کی بے نتیجہ میٹنگ کے بعد متحدہ اپوزیشن نے اعلان کیا تھا کہ اگر حکومت نے اپوزیشن کی طرف سے تجویزکردہ ٹی او آرز پر مثبت جواب نہ دیا تو آئندہ اس پر بات چیت بے کار ہو گی۔ اپوزیشن کے مطابق حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی اور اپوزیشن کی طرف سے ٹی او آرز میں شامل سب سے اہم نکتے پر یعنی تحقیقات کا آغاز وزیر اعظم نواز شریف سے ہو‘حکومت ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی صورت حال میں اپوزیشن میں شامل بڑی سیاسی جماعتوں نے عید کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ چند وفاقی وزراء کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپوزیشن کی طرف سے تحریک شروع کرنے کی دھمکی پر کافی پریشان ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے اپوزیشن کے بعض رہنمائوں کو جن میں سینیٹر اعتزاز احسن بھی شامل ہیں‘ خاص تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے اور دوسری طرف وہ کچھ سیاسی جماعتوں کو توڑنے کی کوشش میں بھی مصروف ہیں۔ اسی سلسلے میں وفاقی وزیر برائے ریلوے سعد رفیق اور وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے 12جون کو لاہور میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے ملاقات کر کے انہیں حکومت کی طرف سے تیار کردہ ٹی او آرز کے ڈرافٹ پر راضی کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن حکومتی ٹیم سراج الحق کو قائل کرنے میں ناکام رہی بلکہ جماعت اسلامی کے امیر نے حکومت پر غیر سنجیدہ موقف اختیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کرپشن کے خلاف عید کے بعد لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم کرپشن کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے حکومت اور اپوزیشن دونوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ احتساب سے پہلو تہی کر کے اپنی اپنی کرپشن چھپانا چاہتی ہیں۔''حکومت وزیر اعظم کا احتساب نہیں چاہتی اور اپوزیشن اپنے بڑے بڑے رہنمائوں کو احتساب سے بچانا چاہتی ہے۔ ہم سب کا احتساب چاہتے ہیں جن میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں‘‘۔ سراج الحق نے یہ اعلان کر کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ یا تو جماعت اسلامی کرپشن کے خلاف لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو اپوزیشن کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے یا پھر عید کے بعد حکومت کے خلاف تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے جس احتجاجی تحریک کو شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے‘ اُسے پری ایمپٹ کرنے کی یہ ایک کوشش ہے۔ کیونکہ جو لوگ جماعت اسلامی کی انتخابی سیاست کی تاریخ سے واقف ہیں انہیں یقین ہے کہ جماعت اسلامی کبھی مسلم لیگ (ن) کے خلاف نہ تحریک چلائے گی اور نہ ایسی تحریک کا حصہ بنے گی‘ جس کا مقصد مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا خاتمہ ہو۔ اس لیے کہ مسلم لیگ (ن) کی حمایت کے بغیر اس کے اہم ترین رہنما بھی انتخابات خصوصاً پنجاب میں سیٹیں نہیں جیت سکتے۔2013ء کے انتخابات میں یہ بات ثابت ہو گئی۔ جماعت اسلامی کا ایک موثر حصہ خصوصاً پنجاب چیپٹر‘ تحریک انصاف کی بجائے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہاتھ ملانے کو ترجیح دیتا ہے اور مسلم لیگ (ن) میں بھی ایک طاقت ور حلقہ اس کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے‘ لیکن کے پی کے میں جماعت اسلامی کو حکومت میں شمولیت سے جو سیاسی فائدہ حاصل ہے اس کی بنا پر جماعت اسلامی عمران خان کو چھوڑ کر میاں نواز شریف کے کیمپ میں جانے سے ہچکچاتی ہے‘ ورنہ نظریاتی اعتبار سے جماعت اسلامی تحریک انصاف کی بجائے ن لیگ کے زیادہ قریب ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے اصل وجۂ پریشانی پیپلز پارٹی کا جارحانہ موقف ہے۔ تحریک انصاف کی طرح پیپلز پارٹی بھی وزیر اعظم کے مواخذے سے پاناما لیکس تحقیقات کی ابتدا کرنا چاہتی ہے اور اس مطالبے کو منوانے کے لیے عمران خاں کے ساتھ تحریک چلانے پر تیار ہے۔
سینیٹر اعتزاز احسن کے علاوہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری اس مطالبے پر مصر ہیں کہ تحقیقات میں نہ صرف وزیر اعظم کو شامل کیا جائے‘ بلکہ اس کا آغاز ہی وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات سے ہو۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کے ساتھ ٹِیم اَپ ہونے سے روکنے کے لیے بڑی کوشش کی ہے اور اس مقصد کے لیے شریک چیئرمین زرداری کی حمایت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی ہے؛ تاہم یہ کوشش ناکام ہو چکی ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کی طرف سے پیپلز پارٹی کے خلاف بیان بازی سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پیپلز پارٹی سے قطعاً مایوس ہو چکی ہے۔ اس مشکل صورت حال کی ذمہ داری خود وزیر اعظم نواز شریف پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے سندھ میں وفاقی ایجنسیوں کو اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو بے دست و پا کرنے سے نہیں روکا۔ سندھ کی حکومت اور پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے اس رویے کو کبھی معاف نہیں کر سکتی۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی زور شور سے مخالفت کر کے آصف علی زرداری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بگڑے ہوئے تعلقات کو بحال کرنے کا راستہ ہموار کر رہے ہیں‘ کیونکہ بااثر حلقوں کی قربت اور خوشنودی حاصل کرنے کا سب سے آسان اور موثر طریقہ مسلم لیگ ن اور وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کی مخالفت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری سے زیادہ بہتر یہ کام رحمان ملک اپنے بیانات کے ذریعے سرانجام دے رہے ہیں۔ اعتزاز احسن نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ اگر ٹی او آرز پر حکومت کا یہی رویہ رہا تو عید کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما ایک ہی کنٹینر پر کھڑے ہوں گے؛ تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ بیان حکومت پر محض دبائو ڈالنے کے لیے دیا گیا ہے یا واقعی پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اگر یہ درست بھی ہے تو بتانا پڑے گا کہ اس تحریک کا حتمی مقصد کیا ہو گا؟ یعنی اپوزیشن کے ٹی او آرز قبول کرنے پر حکومت کو مجبور کرنا یا وزیر اعظم نواز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹانا ۔
ایک نجی ٹی وی چینل سے انٹرویو میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے بیان سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی موجودہ پولیٹیکل سیٹ اپ کو اپ سیٹ کرنے کی سازش میں شریک نہیں ہو گی، لیکن عمران خان کے نزدیک اصل مسئلہ ہی موجودہ سیٹ اپ ہے جو بقول ان کے دھاندلی کے ذریعے وجود میںآیا ہے۔اسے ری پلیس کرنا ہی عمران خان کا اصل ہدف ہے۔ یہی مقصدحاصل کرنے کے لیے دو سال قبل انہوں نے دھرنا دیا تھا اور اب اُسی کو حاصل کرنے کے لیے پاناما لیکس کی آڑ میں حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنا چاہتے ہیں اور چونکہ ان میں وزیر اعظم کے خاندان کے افراد ملوث پائے گئے ہیں اس لیے وزیر اعظم پر دبائو ڈالنے کا یہ ایک اچھا موقع ہے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے‘ تحقیقات میں وزیر اعظم کی شمولیت بلکہ تحقیقات کا آغاز انہی سے شروع کرنے کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ لیکن اپنے موقف کو تسلیم کروانے کے لیے تحریک انصاف کا کہاں تک ساتھ دے گی؟ اس کے بارے میں اغلب رائے یہ ہے کہ پیپلز پارٹی صرف ایک حد تک ہی تحریک انصاف کا ساتھ دے گی۔ سید خورشید شاہ نے واضح کر دیا ہے کہ پارٹی جہاں محسوس کرے گی کہ تحریک کے نتیجے میں تیسری قوت کی مداخلت کا امکان بڑھ رہا ہے‘ پیپلز پارٹی پیچھے ہٹ جائے گی کیونکہ یہ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی۔ سید خورشید شاہ کا یہ بیان عمران خان اور شیخ رشید کو یقیناً پسند نہیں آیا ہوگا اور اس بیان کے بعد اگر عمران خان نواز شریف کے خلاف تحریک میں پیپلز پارٹی پر بدستور انحصارکی پالیسی جاری رکھیں گے تو انہیں ایک اور سیاسی دھچکے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ٹی او آرز پر حکومت کے غیر لچک دار رویے کے خلاف اپوزیشن کے سخت ردعمل اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی کے باوجود اول تو اس بات کا امکان کم ہے کہ اپوزیشن متحد ہو کر حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کا متفقہ فیصلہ کرسکے گی اور اگر یہ فیصلہ کر بھی لیا گیا تو اس میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا دیر تک ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنے کا امکان کم ہے کیونکہ ایک طرف دونوں پارٹیوں کی سوچ ایک دوسرے کی سوچ سے الگ ہے‘ اور دوسرے پیپلز پارٹی کی دو اہم حلیف جماعتیں اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام(ف) اس تحریک کے ذریعے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہوںگی۔