قومی اسمبلی میں رواں سال کے بجٹ میں وزارتِ خارجہ کے لئے مطالبات زر پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سر تاج عزیز نے خارجہ تعلقات کے میدان میں موجودہ حکومت کے ریکارڈ کا ایک ایسا نقشہ کھینچا ہے جس کے تحت دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہر سُو کامیابی اور کامرانی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔ اپنی تقریر میں اُنہوں نے اِس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان عالمی برادری میں الگ تھلگ ہو رہا ہے اور دعویٰ کیا کہ گزشتہ تین برسوں میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، ایران کے ساتھ تعلقات درست سمت میں جا رہے ہیں اور دُنیا میں پاکستان کے لئے خیرسگالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر محبِ وطن پاکستانی چاہے گا کہ جناب سرتاج عزیز جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ سچ ہو۔ لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف تصویر پیش کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنی بے اعتنائی، غفلت، تاخیر اور فیصلہ کرنے میں کمزوری کا موجودہ حکومت نے مظاہرہ خارجہ پالیسی کے شعبے میں کیا ہے، وہ شاید ہی کسی اور شعبے میں کیا ہو۔ اِس کا ذکر تو اپوزیشن نے بھی کیا اور مشیر برائے امورِ خا رجہ کو یاد دلایا کہ ہمارے چار ہمسایہ ممالک میں سے تین کے ساتھ تعلقات خراب ہیں۔ سرتاج عزیز نے دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے تین برسوں یعنی اُن کی حکومت کے دور میں امریکہ سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں جبکہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی گزشتہ 15 برسوں کی تاریخ میں، امریکہ کے وزیر دفاع ایش کارٹر نے اِس نوع کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا کہ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لئے موثر اقدام کیے ہیں۔ ذرا سوچیے، امریکہ کی جانب سے یہ رائے اُس وقت دی جا رہی ہے جب آپریشن ضرب عضب کو دو سال ہو چکے ہیں اور جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 95 فیصد سے زیادہ اہداف حاصل کر لیے گئے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع کی طرف سے پاکستان کے حق میں سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے کے نتیجے میں کانگرس نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی 30 کروڑ ڈالر کی امداد روک دی ہے۔ اِس سے قبل امریکی کانگرس کے ایک اور فیصلے کے
باعث پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ایف ـ 16 لڑاکا طیارے خریدنے کے لئے امدادی رقوم نہ مل سکیں جس کی وجہ سے امریکہ جن آٹھ ایف ـ 16 طیارے پاکستان کے ہاتھ فروخت کر رہا تھا پاکستان وہ نہ خرید سکا۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان جن غلط فہمیوں کی بنا پر باہمی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو رہی تھی، اُن کا سلسلہ عرصے سے جاری تھا۔ موجودہ حکومت کا فرض تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی ان غلط فہمیوں کے تدارک کے لئے سفارتی مہم شروع کرتی، لیکن نہ معلوم کِن وجوہ کی بنا پر حکومت نے اس جانب کوئی قدم نہ اُٹھایا۔ اِس مسئلے پر حکومت کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ اُس نے تین سال بغیر ایک کُل وقتی وزیر خارجہ کے گزارِ دیے ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اُس کے داخلی امن سے ہے۔ داخلی امن اور سرحدوں پر امن کے درمیان گہرا رشتہ ہے۔ افغانستان کے ساتھ ایک طویل اور دشوار گزار سرحد کے بارے میں دونوں ملکوں میں اختلافات اور چھوٹ چھوٹے جھگڑے تو معمول ہیں، لیکن ٹینکوں اور بھاری ہتھیاروں کے ساتھ دونوں ملکوں کی افواج کا آمنے سامنے آ جانا ایک ایسا واقعہ ہے جو اس سے پہلے رُونما نہیں ہوا تھا۔ طورخم سے روزانہ پچاس سے ساٹھ ہزار افراد گزرتے ہیں ان میں سے تقریباً نصف تجارتی سامان کے علاوہ خورد و نوش کی اشیاء مثلاً پھل، سبزیاں، آٹا اور گھی سے لدے ہوئے سینکڑوں ٹرک لے جاتے ہیں۔ جون کے وسط میں یہ سرحد چھ دِن تک بند رہی، اس سے افغانستان کے عوام کو جو تکلیف پہنچی اُس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بڑے بڑے افغان شہروں میں پاکستان کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے جن میں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ پھر بھی سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کامیاب جا رہی ہے۔21 مئی کو بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور کی ہلاکت بلاشبہ پاکستان کی علاقائی سلامتی اور خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن چین کے سوا کسی مُلک نے اس کی کھل کر مذمت نہیں کی۔ اِس کے باوجود سرتاج عزیز کا دعویٰ ہے کہ پاکستان دُنیا میں تنہائی کا شکار نہیں ہو رہا بلکہ پہلے کے مقابلے میں اسے عالمی حلقوں میں زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات حل کرنے کے لئے بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ لیکن گزشتہ پانچ سال سے یہ سلسلہ منقطع ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے انتخابات سے قبل اور فوراً بعد ایسے بیانات دیے تھے، جن سے امید بندھی تھی کہ منقطع مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو سکے گا، لیکن بھارت کی طرف سے نامناسب شرائط کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ ہماری خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ بین الاقوامی برادری پہلے پاکستان اور بھارت دونوں پر غیر مشروط مذاکرات شروع کرنے پر زور دیتی تھی اور مبصرین کی نگاہ میں عالمی برادری کا یہ موقف دراصل بھارت کی سرزنش کے مترادف ہوتا تھا کیونکہ پاکستان تو غیر مشروط اور فوری مذاکرات کے لئے تیار تھا، لیکن اب پاکستان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ممبئی اور پٹھانکوٹ کے بارے میں بھارت کے خدشات کو دُور کرے تاکہ مذاکرات کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا جاسکے۔ سرتاج عزیز صاحب کچھ کہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے خطے میں امن اور سلامتی کے بارے میں عالمی برادری حتیٰ کہ ہمارے برادر مُسلم اور پڑوسی ممالک کی سوچ اور اپروچ پاکستان سے الگ ہوتی جا رہی ہے اور اِس رجحان کو اگر نہ روکا گیا تو دُنیا میں ہی نہیں، خود اپنے خطے میں ہم یکہ و تنہا رہ جائیں گے۔
خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد ریاست کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح و بہبود، سلامتی اور خوشحالی کا فروغ ہوتا ہے۔ جناب سرتاج عزیز کو چاہیے کہ وہ اس معیار پر موجودہ حکومت کی خاجہ پالیسی کا جائزہ لیں۔ گزشتہ تین برس کے ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا میں کوئی نیا دوست نہیں بنایا، بلکہ پرانے دوستوں کو بھی ناراض کیا۔ اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنے چار پڑوسی ممالک میں سے تین پر مداخلت اور تخریبی کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ جن کی دوستی اور دیرینہ تعلقات پر ہمیں ناز ہے وہ ہمیں گھڑے کی مچھلی سمجھتے ہیں۔ نیوکلیئر سپلائز گروپ(این ایس جی) میں بھارت کی شمولیت پر امریکہ کے موقف سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ خارجہ پالیسی کے میدان میں ہر مُلک اپنے قومی مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے۔ عالمی سیاست کے اِسی بنیادی اصول کے پیشِ نظر پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی قومی مفادات کی روشنی میں تشکیل دینی چاہیے۔
لیکن قومی مفادات ہیںکیا؟ پولیٹیکل سائنس کے ایک مشہور پروفیسر ہینز مارگینتھو (Hans Morgenthau) نے اپنی کتاب پالیٹکس اَمنگ نیشنز (Politics Among Nations) میں اسے سٹیٹ پاور کے مترادف قرار دیا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ سٹیٹ پاور سے کیا مراد ہے؟ کیا اِس کا مطلب بڑی بڑی فوجیں اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں مہلک ترین ہتھیار ہیں؟ اگر سٹیٹ پاورکی یہ تعریف درست ہوتی تو سابق سوویت یونین کا شیرازہ نہ بکھرتا، جس کے پاس تیس ہزار کے قریب ایٹم اور ہائیڈروجن بم
تھے اور افرادی قوت، ٹینکوں، ہوائی جہازوں اور دور مار توپوں کے اعتبار سے دُنیا کی سب سے بڑی فوج تھی۔ سوویت یونین کے تجربے او مشرق و مغرب کے درمیان محاذ آرائی کے خاتمے کے بعد سٹیٹ پاور یا قومی مفادات کا جو نیا مفہوم سامنے آیا ہے اُس کے مطابق ایک موثر دفاعی صلاحیت کے علاوہ اصل سٹیٹ پاور عوام ہیں بشرطیکہ عوام تعلیم کے زیور سے آراستہ اور شعور کی قوت سے لیس ہیں، اُن کی اپنی زندگی محفوظ اور آسودہ ہے اور وہ اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل سے مطمئن ہیں، اُن کو اپنے سیاسی نظام پر اعتبار ہے اور ہر حکومت کو وہ اپنی حکومت سمجھتے ہیں۔ حکمران کرسیوں پر اپنی جیبیں بھرنے کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے بیٹھے ہوں۔ نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس نہیں بلکہ اُن کو روزگار کے مواقع میسر ہوں۔ ریاستی ادارے آپس میں کھینچا تانی کی بجائے، اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہوں تو اس صورت میں وہ قوم نا قابلِ تسخیر بن جاتی ہے اور یہی قومی مفاد ہے جس کے فروغ کے لئے خارجہ پالیسی کو بطور آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں قومی مفاد (National Interest) کی ہمیشہ تنگ پیرائے میں تعریف اور حصول کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس ایشو پر کبھی کھُل کر پبلک ڈیبیٹ نہیں ہوئی نہ ہی اس پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بلکہ کسی ایک ادارے، شخص یا گروپ کے مفادات کو قومی مفادات کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے افغانستان میں امریکہ کی جنگ میں پاکستان کو ''قومی مفاد‘‘ کے نام پر ملوث کیا۔ جنرل مشرف نے دہشت گردی کے نام پر امریکہ کا ساتھ بھی ''قومی مفاد‘‘ کی بنیاد پر دیا۔ جب تک پاکستان میں قومی مفادات کو عوامی خواہشات و مفادات کی روشنی میں متعین نہیں کیا جاتا، پاکستان کو خارجہ پالیسی کے شعبے میں ایسے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا جو اُسے آج در پیش ہیں۔