"DRA" (space) message & send to 7575

معراج محمد خان‘ ایک منفرد سیاسی رہنما

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مخصوص انداز میں ایک دفعہ کہا تھا کہ غلام مصطفیٰ کھر میرے دائیں اور معراج محمد خان میرے بائیں بازو ہیں۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب معراج محمد خان پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔ پیپلز پارٹی میں انہوں نے شروع سے ہی شمولیت اختیار کر لی تھی‘اسی لیے ان کا پیپلز پارٹی کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ تاہم ان کے سیاسی کیئریر کا آغاز پیپلز پارٹی میں شمولیت سے نہیں ہوا تھا بلکہ وہ اس سے پہلے ہی ایک نڈر‘ بے باک اور دلیر سیاسی ورکر کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست زوروں پر تھی۔ اس کے پیچھے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی نظریاتی اور تنظیمی سوچ اور منصوبہ بندی تھی۔ یاد رہے کہ تقسیم ہند سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل اور مطالبات پر جو چپقلش جاری تھی‘ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اس میں مسلم لیگ کے مطالبات کی حمایت کی تھی۔ اس لیے قیام پاکستان کے بعد نئے ملک میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک حصے کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے نئے نام سے سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت مل گئی۔ لیکن 1950ء کی دہائی میں جب امریکہ اور پاکستان کمیونزم کے خلاف اتحادی بن گئے تو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس کی طلبائ‘ مزدوروں‘ کسانوں اور دیگر طبقات میں فرنٹ تنظیموں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی‘ لیکن کمیونسٹ پارٹی نے زیر زمین رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں‘ صرف تنظیموں کے نام تبدیل کر دیئے۔ ان میں سے ایک تنظیم ڈیمو کریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی‘ اس کا نام نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن رکھا گیا۔ معراج محمد خاں نے اس تنظیم یعنی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے پلیٹ فارم سے شہرت پائی۔ ایوب آمریت کے خلاف جن سیاسی پارٹیوں نے جدوجہد کی، این ایس ایف ان کے شانہ بشانہ کھڑی تھی اور 1960ء کی دہائی کے آخری برسوں میں جب پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سٹوڈنٹ پالیٹکس کا ڈنکا بج رہا تھا‘ پاکستان میں بھی متعدد طلبہ تنظیمیں سیاسی جدوجہد میں بھرپور حصہ لے رہی تھیں۔ ان میں این ایس ایف کا کردار خصوصاً راولپنڈی اور کراچی میں نمایاں تھا۔
معراج محمد خان ایک متحرک انقلابی تھے اور کسی ایسے پلیٹ فارم کی تلاش میں تھے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو زیادہ بھرپور طریقے سے بروئے کار لا سکتے۔ بالآخر انہیں یہ پلیٹ فارم مل گیا اور یہ تھا پاکستان پیپلز پارٹی جس کی بنیاد رکھنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ وہ بھی موجود تھے۔ اگرچہ معراج محمد خان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے اور ان کا شمار پارٹی کے صف اول کے رہنمائوں میں ہوتا تھا‘ لیکن وہ اپنے نظریات پر قائم رہے اور جب کبھی انہیں موقع ملا وہ اس کا اظہار بھی کرتے تھے اور ایسا کرتے وقت وہ بھٹو صاحب کی ناراضگی کی بھی پروا نہیں کرتے تھے۔ مثلاً 1970ء کے انتخابات کے بعد جناب بھٹو نے ایک بیان دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ایشیا سے امریکہ کو ابھی واپس نہیں جانا چاہیے‘ ابھی ایشیا میں امریکی کردار کی ضرورت ہے۔ جناب بھٹو کے اس بیان پر فوری طور پر اور سب سے سخت ردعمل معراج محمد خان کی طرف سے آیا۔ انہوں نے ایشیا (اور جب ہم ایشیا کی بات کرتے ہیں تو ناگزیر طور پر اس میں پاکستان بھی شامل ہوتا ہے) میں امریکہ کے کردار بلکہ موجودگی کی بھی مخالفت کرتے ہوئے جناب بھٹو کے بیان پر سخت احتجاج کیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ بھٹو صاحب کے اس بیان کے تھوڑے عرصہ بعد ہی اگست 1971ء میں امریکی صدر نکسن کے مشیر برائے قومی سلامتی ہنری کسنجر نے پاکستان سے خفیہ طور پر چین کا دورہ کر کے امریکہ اور چین کے درمیان مفاہمت کی بنیاد رکھی۔ چین اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی کے خاتمے اور نارمل تعلقات کے قیام کا پاکستان میں خیرمقدم کیا گیا اور خیرمقدم کرنے والوں میں چند بائیں بازو کے عناصر بھی شامل تھے۔ اس پر بھٹو نے کہا کہ دیکھا‘ اب چین کی طرف سے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے اقدام پر ہر کوئی خوشی کا اظہار کر رہا ہے اور جب انہوں نے کہا تھا کہ ابھی ایشیا میں امریکی موجودگی اور اس کے کردار کی ضرورت ہے تو بہت سے لوگوں نے ناک بھوں چڑھایا تھا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بھٹو نے یہ بیان خوب سوچ سمجھ کے اور جان بوجھ کر دیا تھا اور اس کا مقصد پیپلز پارٹی کی صفوں میں گھسے ہوئے کمیونسٹ انقلابیوں کو اشتعال دلانا تھا تاکہ وہ ردعمل میں خود ہی پارٹی چھوڑ جائیں کیونکہ 1970ء کے انتخابات کے بعد بھٹو اور پیپلز پارٹی کی ترجیحات بدل چکی تھیں۔ اب پارٹی کا مفاد ایجی ٹیشن میں نہیں تھا‘اس لیے اسے ایجی ٹیشن سیاست کے ماہرین کی ضرورت نہیں تھی۔ اب پارٹی کی نظر اقتدار پر تھی جس کے حصول میں کامیابی کے لیے نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی طاقتوں کی خوشنودی ضروری تھی۔ اس لیے انہوں نے ملک کے اندر نہ صرف جرنیلوں سے رابطہ رکھا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی امریکہ کی مخالفت میں لہجے کو نرم کر دیا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف اس موقف پر قائم رہے بلکہ ایک شکست خورد ہ فوج کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کر کے ‘اسے مضبوط بنا کر اور پاکستان کے لیے امریکی ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی ختم کروا کے اس جانب مزید قدم اٹھائے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک مضبوط اور طاقتور فوج کو پاکستان کے 
قومی مفاد میں بہتر سمجھتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے نہ صرف قومی خزانے سے خطیر رقم دفاع کے لیے مختص کی بلکہ 1974ء میں امریکہ کا دورہ کر کے امریکیوں کو پاکستان کے لیے اقتصادی اور فوجی امداد پر راضی کرنا بھی انہی اقدام میں شامل تھا۔ 1971ء میں بھارت کے ہاتھوں شکست اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے باقی ماندہ پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے انتہائی مخدوش صورت حال پیدا کر دی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی دفاع کو مضبوط کر کے اور خارجہ تعلقات میں امریکہ‘ یورپ‘ سوویت یونین اور چین کے ساتھ ساتھ اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے کر جناب بھٹو نے ایک ہاری ہوئی اور مایوس قوم کو بحال کرنے میں جو کارنامہ سرانجام دیا وہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ 1977ء میں نہ صرف اُن کی حکومت کا تختہ الٹا گیا بلکہ 1979ء میں فوجی آمر ضیاء الحق نے انہیں تختہ دار پر بھی لٹکا دیا ۔ امریکہ جس کے حق میں بھٹو بیان دیا کرتے تھے‘ نہ صرف اس سارے کھیل کو خاموش تماشائی بن کردیکھتا رہا، بلکہ بعض لوگوں کے مطابق ان اقدامات میں امریکہ کی رضامندی بھی شامل تھی۔
ایوب خان کے خلاف پاکستان کے دونوں حصوں میں جو عوامی تحریک چلی اور جو بالآخر ملک کے پہلے فوجی آمر کے اقتدار کے خاتمہ پر منتج ہوئی‘ کا سب سے پہلا اور سب سے اہم مطالبہ پاکستان میں ون مین‘ ون ووٹ کی بنیاد پر عام انتخابات کا انعقاد اور پارلیمانی نظام حکومت کی بحالی تھا۔ لیکن بھٹو صاحب صدارتی نظام کے حق میں تھے؛تاہم دیگر سیاسی پارٹیوں اور سیاسی شخصیتوں،جن میں خان عبدالولی خاں اور بلوچی لیڈر شامل تھے، نے بھٹو صاحب کی ایک نہ چلنے دی۔ یہ بھی یاد رہے کہ 1970ء کے انتخابات سے قبل جب چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر مغربی پاکستان میں پرانے صوبے بحال کیے اور بلوچستان کو پہلی مرتبہ ایک صوبے کا درجہ دیا، تو بھٹو صاحب نے اس اعلان کی مخالفت کی تھی۔ اپنے بیان میں اگرچہ انہوںنے ون یونٹ کی حمایت اور سابقہ صوبوں کی بحالی کی مخالفت نہیںکی تھی؛تاہم یہ حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب پاکستان میں ایسا وفاقی نظام چاہتے تھے جس کے پاس غیر معمولی اختیارات ہوں۔ لیکن یہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی فراست اور حالات کے مطابق چلنے کی اہلیت کا ثبوت تھاکہ دوسری سیاسی پارٹیوں سے مشورے کے بعد انہوں نے 1973ء کے آئین کی شکل میں جو سیاسی نظام پاکستان میں نافذ کیا، وہ پاکستان کے پہلے تمام دستوروں کے مقابلے میں زیادہ وفاقی اور صحیح معنوں میں پارلیمانی تھا۔ اس میں چیف ایگزیکٹو کے اختیارات وزیراعظم کے پاس تھے مگر اس کے باوجود ان کا انداز حکمرانی اتھاریٹیرین (Authoritarians) تھا۔ اس قسم کے انداز حکومت میں نظریاتی لوگ وقت کے حکمران کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے اور موقع پرست ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اقتدارمیں آنے کے بعد پیپلزپارٹی سے وہ لوگ رخصت ہوتے گئے جنہوں نے نظریاتی بنیادوں پر بھٹو کا ساتھ دیا تھا اور جلسے جلوسوں اور کارنرمیٹنگز کے ذریعے ملک کے کونے کونے تک پارٹی کا پیغام پہنچایا تھا۔
معراج محمد خان بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے دیکھا کہ اب وہ زیادہ دور تک بھٹو صاحب کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس لیے انہوں نے پیپلزپارٹی سے اپنی راہیںالگ کرلیں۔ اس پر انہیں حسین نقی کی طرح ریاست کا عتاب بھی سہنا پڑا۔ پیپلزپارٹی سے الگ ہو کرمعراج محمد خان نے ''قومی محاذ آزادی‘‘ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی قائم کی، جس کے وہ خود سربراہ تھے۔ لیکن 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں سابق سوویت یونین کی مداخلت کے نتیجے میں امریکہ اور عالمی برادری کی طرف جنرل ضیاء الحق کو جو سپورٹ ملی، اس سے پاکستان میںدائیں بازو کی سیاست کے حامل عناصر اتنے مضبوط ہوگئے کہ ملک میں بائیں بازو کی سیاست کی زیادہ گنجائش باقی نہ رہی۔ معراج محمد خان جب اپنی پارٹی یعنی قومی محاذ آزادی کے پلیٹ فارم سے آگے نہ بڑھ سکے تو انہوں نے ایک اور پاپولسٹ پارٹی یعنی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ لیکن خان صاحب کے انقلابی نظریات نے انہیںاس پارٹی میں بھی زیادہ دیر تک ٹکنے نہ دیا اور وہ 2003ء میں پی ٹی آئی سے الگ ہو گئے۔ عمر کے آخری حصے میںخان صاحب بیماری کی وجہ سے زیادہ فعال نہیں تھے، تاہم ان کا فعال سیاسی کردار پاکستان کی بائیں بازو کی سیاست کا ایک ناقابل فراموش باب رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں