بھارتی میڈیا کو غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کرنے میں خاص مہارت حاصل ہے۔ یکم جولائی کو ڈھاکہ کے ایک ریستوران پر پانچ دہشت گردوں نے حملہ کر کے گاہکوں کویرغمال بنا لیا۔ بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران پانچوں دہشت گردوں کے علاوہ 20افراد بھی ہلاک ہو گئے ۔ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے اس واقعہ کی بھر پور مذمت کی گئی اور بے گناہ افراد کی ہلاکت پر بنگلہ دیش کی حکومت سے پاکستانی حکام نے افسوس کا اظہار کیا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی میڈیا کے ایک مخصوص حصے نے ڈھاکہ میں دہشت گردی کے اس واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کی خبروں کو کیوں اتنا اونچا اچھالا ۔ اس کا ایک واضح سبب یہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے باہمی تعلقات آج کل ایک مشکل دورسے گزر رہے ہیں گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے بعض رہنمائوں کو 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔ پاکستان میں اس پراحتجاج کیا گیا تھا جسے بنگلہ دیش کی حکومت نے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف قرار دیا تھا۔ بھارت کی ہر حکومت کی خواہش ہے کہ بنگلہ دیش میں چین اور پاکستان اپنا اثرورسوخ قائم نہ کر سکیں۔ کیوں کہ اس طرح بھارت خلیج بنگال کے راستے جنوب مشرقی ایشیا ‘ ہند چینی اور اس سے آگے ایشیا بحرالکاہل کے علاقے تک جو رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے بنگلہ دیش کے شمال مشرق میں بھارت کی جو سات ریاستیں واقع ہیں ان سے براہ راست مواصلاتی رابطہ برقرار رکھنے کے لیے بھی بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات کا خواہش مند ہے۔ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس بنگلہ دیش کا سرکاری دورہ بھی کیا تھا‘ اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد سے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف طویل المیعاد بنیادوں پر اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے‘ بلکہ بنگلہ دیش کے راستے بھارت نے اپنی شمال مشرق ریاستوں کو رسد‘ سامان اور روز مرہ استعمال کی اشیاء پہنچانے کے لیے راہداری کی سہولت بھی حاصل کر لی ہے۔ ان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات کو اور بھی مضبوط بنانا چاہتا ہے بنگلہ دیش کے بارے میں اس کی سفارت کاری کا سارا زوراس بات پر ہے کہ یہاں نہ چین اور نہ پاکستان کو قدم جمانے کا موقع دیا جائے۔ بھارت کی یہ کوتاہ اندیشانہ پالیسی ایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ بنگلہ دیش ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اسے ہر ملک کے ساتھ اپنے قومی مفاد کے تابع تعلقات استوار کرنے کا حق ہے۔
اسی سوچ کے تحت بھارتی میڈیا کے اس مخصوص حصے نے 2013ء کے اوائل میں کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی سرحدی فوجوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا۔ بھارت کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں سرحد کے اس پار پاکستان کا جو جانی اور مالی نقصان ہوا اسے مکمل طور پر نظر اندازکر کے ‘ پاکستان کی جوابی کارروائیوں کو بھارتی میڈیا نے جلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا اور ہیڈ لائینز کے طورپر ٹی وی چینلز نے اسی طرح نشر کیا کہ دونوں ملکوں میں پہلے سے موجود کشیدگی میں خطرناک اضافہ ہوا۔ اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے بعد‘تنازعات پر گفت وشنید کا جو سلسلہ شروع ہونے والا تھا وہ نہ ہو سکا۔ اسی طرح ان ہی دنوں میں چین کے ساتھ ملنے والی سرحد پر کچھ چینی فوجی اس علاقے میں آ گئے‘ جسے بھارت اپنا سمجھتا ہے‘ چینی فوجی اس علاقے میں تھوڑی دیر قیام کے بعد واپس چلے گئے لیکن بھارتی میڈیا نے اس واقعہ کو اسی طرح اچھالا‘ جیسے چین نے بھارت پر حملہ کر دیا ہے حالانکہ اس قسم کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں اور بھارت کے صدر پرناب مکھرجی کہہ چکے ہیںکہ ان کی نوعیت جارحانہ نہیں‘ بلکہ ان کا بڑا سبب دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسی سرحد ہے‘ جو متنازع ہے اور اس کی صحیح طور پر اور حتمی نشان دہی نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود بھارتی میڈیا نے واویلا مچاتے ہوئے اس وقت کے کانگرسی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر چین کے مقابلے میں کمزوری دکھانے کا الزام لگایا۔ یہ الزام صرف چین کے حوالے سے نہیں بلکہ پاکستان کے بارے میں بھی ڈاکٹر من موہن سنگھ کی پالیسی کے حوالے سے لگایا گیا تھا۔ بھارتی میڈیا نے لائن آف کنٹرول اور چین کے ساتھ بھارتی سرحد پر واقعات کو اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا کہ بھارت میں یہ تاثر عام ہو گیا کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی کانگرسی حکومت ان دو ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں بزدلی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور یہ کہ پاکستان اور چین دونوں نے بھارت کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے‘ جس کا توڑ ایک نئی اور مضبوط حکومت ہے بعد میں ثابت ہوا کہ بھارتی میڈیا نے اپنی خبروں اور تبصروں میں یہ انداز جان بوجھ کر اختیار کیا تھا۔ اس کا مقصد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نامزد امیدوار نریندر مودی کی 2014ء کے پارلیمانی انتخابات اس کی حریف پارٹی کانگرس کے خلاف کامیابی کی راہ ہموار کرنا تھا کیونکہ اپنی انتخابی مہم میں نریندر مودی نے کانگرس کی حکومت پر جو الزامات عائد کیے ان میں پاکستان اور چین کے بارے میں بھارت کی کمزور خارجہ پالیسی اپنانے کا الزام بھی شامل تھا۔ یہ الزام عائد کرتے ہوئے نریندر مودی نے بھارتی عوام سے وعدہ کیا کہ کامیابی کی صورت میں وہ پاکستان اورچین دونوں کے خلاف سخت رویہ اختیار کریں۔ جو کہ فی الواقع انہوں نے کیا کیونکہ مئی2014ء کے انتخابات جیت کر نریندر مودی نے بطور وزیر اعظم بھارتی فوجوں کو لائن آف کنٹرول پر سخت جوابی کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کی تھیں۔ یہ ایک جارحانہ انداز تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے اس کی ذمہ داری بھی پاکستان پر ڈال دی۔