اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہر سال عالمی ادارے کے ہر رکن ملک کو دنیا کو درپیش اہم مسائل پر اپنا نقطہ نظر اور اپنی پالیسیوں پر اظہار خیال کا موقع دیا جاتا ہے۔ اسی لیے وزیراعظم نوازشریف کی تقریر میں جہاں پاکستان کی ترجیحات کا ذکر ضروری تھا‘ وہاں عالمی سطح کے مسائل مثلاً ماحولیات میں تبدیلی‘ غربت‘ مہاجرین اور دہشت گردی پر اپنے ملک کے موقف کا اظہار بھی ناگزیر تھا۔ چنانچہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں مشرق وسطی میں جنگ اور اس کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کا بھی ذکر کیا جو پناہ کے حصول کے لیے یورپ کا رُخ کر رہے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ برسوں میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور معاشی ترقی کے محاذ پر جو کامیابیاں حاصل کی ہیں انہیں بھی گنوانا لازمی تھا تاکہ پاکستانی معیشت کی صحت اور اس کے سکیورٹی اداروں کی استعداد کے بارے میں دنیا کے یقین اور اعتماد کو مستحکم کیا جا سکے۔ لیکن چونکہ وزیراعظم جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے ایک ایسے وقت روانہ ہوئے جب کشمیر پر بھارتی قبضہ کے خلاف علانیہ بغاوت کا سماں ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز اسے کچلنے کے لیے طاقت کا بھرپور استعمال کر رہی ہیں اس لیے وزیراعظم کی تقریر میں کشمیر کی موجودہ صورتحال کشمیری عوام کی قربانیوں اور بھارت کی طرف سے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے ذکر کو خاص طور پر جگہ دی گئی ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ وادی کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے پاکستان میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت پر سخت عوامی دبائو ہے کہ کشمیر میں ظلم و ستم کو بند کروایا جائے۔ جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے چنانچہ وزیراعظم نے عالمی برادری کو پاکستان کی سخت تشویش سے آگاہ کیا اور یہ بھی کہا کہ کشمیر کی صورتحال نے جنوبی ایشیا میں امن کے لیے سخت خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کی بات ہے تو اس سلسلے میں وزیراعظم نے اقوام متحدہ کو یاد دلایا کہ آج سے 68 برس قبل اسی ادارے نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ کشمیری عوام اُس وقت سے اُس گھڑی کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب اُنہیں اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیا جائے گا چنانچہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ اب وہ وقت آ پہنچا ہے اور کشمیری عوام جنہوں نے پہلے ہی اس کاز کے لیے ان گنت قربانیاں دے رکھی ہیں اب مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے اقوام عالم کو آگاہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے بالکل درست فرمایا کہ وادی کشمیر کے چاروں کونوں سے عوام آزادی کا مطالبہ لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ فائرنگ اور کرفیو کے باوجود بھارتی حکومت اُن کے جذبہ حریت کو دبانے میں ناکام ثابت ہو چکی ہے اس صورتحال میں اقوام متحدہ کو ایک خاموش نماشائی بن کر کھڑا نہیں رہنا چاہیے انہوں نے صحیح صورتحال اور حقائق معلوم کرنے کیلئے اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر میں ایک تحقیقاتی کمشن بھیجنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ پاکستان اس قسم کے کمشن سے بھرپور تعاون کرے گا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کیا۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر عالمی برادری کو بجاطور پر تشویش ہے اور متعدد ممالک کی طرف سے اس تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ اُن کی تشویش کا بڑا سبب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر بڑھتی ہوئی کشیدگی دونوں ملکوں کے درمیان تصادم پر منتج نہ ہو جائے۔ چونکہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اس لیے یہ تصادم پاک بھارت ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں نہ صرف یہ دونوں ممالک ناقابل تصور تباہی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک ایٹمی جنگ دیگر خطوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس خدشے کے پیش نظر بین الاقوامی برادری خصوصاً اُن ملکوں جن کے جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام سے اہم مفادات وابستہ ہیں کی رائے یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مزید کشیدگی کو روکا جائے اور دونوں ملکوں کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ کشمیر سمیت تمام دیگر مسائل کے حل کیلئے دو طرفہ بات چیت شروع کریں۔ بین الاقوامی برادری کے اس موڈ کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بھارت کو جموں و کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کیلئے غیر مشروط بات چیت کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں میں اب تک بات چیت نہ ہونے کی وجہ بھارت کی طرف سے عائد پیشگی شرائط ہیں جنہیں قبول کرنا پاکستان کے بس میں نہیں۔ وزیراعظم کی اس پیشکش سے جہاں ایک طرف پاکستان کے پُرامن عزائم سامنے آ جاتے ہیں وہاں بھارت کی طرف سے پاکستان کو سفارتی محاذ پر الگ تھلگ کرنے کی مہم بھی ناکام ہو گی۔ وزیراعظم کی اس پیشکش سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان
بھارت کے ساتھ اپنے تمام اختلافات پرامن بات چیت کے ذریعے دور کرنا چاہتا ہے اگر اس مقصد کی طرف اب تک کسی قسم کی پیشرفت نہیں ہوئی تو اس کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے جس کی طرف سے بات چیت کے آغاز کیلئے ناقابل قبول پیشگی شرائط عائد کی جاتی ہیں۔ وزیراعظم کی تقریر کا وہ حصہ جس میں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کا ذکر کیا ہے یہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بجاطور پر کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنا نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے دنیا کی کسی قوم نے نہیں اٹھایا۔ اسی سلسلے میں انہوں نے شہید ہونے والے فوجی جوانوں افسروں پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے جوانوں اور افسروں کا خاص طور پر ذکر کیا اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ دنیا کو دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں کسی اور ملک نے نہیں دیں اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن ضرب عضب اور پاک افغان سرحدوں پر تقریباً دو لاکھ کے قریب فوج کی تعیناتی کا بی ذکر کیا اس کے علاوہ انہوں نے عالمی رہنمائوں کے نوٹس میں یہ بات بھی لانا ضروری سمجھا کہ پاکستان نیشنل ایکشن پلان کے تحت جسے عوام کی مکمل حمایت اور سکیورٹی فورسز کا بھرپور تعاون حاصل ہے اپنے ہاں سے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ دہشت گردی کسی ایک ملک یا خطے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اس لیے دنیا کے تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ ایک ہمہ گیر اور جامع حکمت عملی کے تحت اسے ختم کرنے کی
کوشش کریں۔ پاکستان نے اس جدوجہد میں اپنے حصے سے کہیں زیادہ حصہ ڈالا ہے اور عالمی برادری کو اسے تسلیم کر کے پاکستان کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے دنیا کو یہ پیغام بھی دینا ضروری تھا کہ پاکستان اندرونی طور پر مضبوط اور ترقی کے راستے پر گامزن ملک ہے۔ اس مقصد کے لیے وزیراعظم نے اپنی تقریر میں اُن تمام کامیابیوں کا ذکر کیا جو پاکستانی عوام نے جمہوریت کے فروغ اور معیشت کے استحکام کے شعبوں میں حاصل کی ہیں۔ ان تفصیلات کو بیان کرنے کا مقصد عالمی برادری کا پاکستان کی معیشت پر اعتماد کو بڑھانا ہے۔
مجموعی طور پر اگر جائزہ لیا جائے تو وزیراعظم کی یہ تقریر جرأت مندانہ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندانہ بھی تھی۔ خصوصاً کشمیر کے مسئلے پر وزیراعظم نے کھل کر بات کی ہے اور پاکستان کے اس دیرینہ موقف کو دہرایا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مکمل درآمد سے ہے اور یہ کہ پاکستان کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹے گا نہ اپنے دفاع پر کسی قسم کا سمجھوتہ قبول کرے۔ وزیراعظم کا اشارہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف تھا جس کی وجہ سے پاکستان مختلف حلقوں کی طرف سے دبائو کا شکار ہے ۔وزیراعظم نے برملا اعتراف کیا کہ قومی ترقی کے اہداف اور عوام کی خوشحالی کی منزل حاصل کرنے کیلئے پاکستان کو سرحدوں کے اندر اور سرحدوں کے باہر امن کی ضرورت ہے۔ تقریر میں بھارت کو غیر مشروط مذاکرات کی دعوت پاکستان کی امن پسندی کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ مختصراً یہ کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں پاکستان مخالف عناصر کے لیے سخت وارننگ دی ۔ بین الاقوامی برادری کے سامنے کشمیر کے کیس کو نہایت مدبرانہ اور موثر طریقے سے پیش کیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے مگر اپنے اہم مفادات کے دفاع کے لیے بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔