وفاقی کابینہ نے جس کی صدارت وزیراعظم نوازشریف نے خود اسلام آباد میں کی‘ اپنے ایک اجلاس میں پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کے قیام میں اگلے سال مارچ تک توسیع کر دی ہے۔ اس سے پہلے اُنہیں پاکستان سے اپنے وطن واپس جانے کیلئے جو ڈیڈ لائن دی گئی تھی وہ اس سال 31 دسمبر کو ختم ہو رہی تھی۔ لیکن افغان مہاجرین کی اکثریت کی رائے تھی کہ باوجود اس کے کہ اُن میں سے سینکڑوں خاندان روزانہ واپس افغانستان جا رہے ہیں۔ 31 دسمبر تک اُن کی مکمل واپسی ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں پشاور میں افغان مہاجرین کا ایک جرگہ منعقد ہوا تھا۔ اس کی صدارت افغانستان میں سابقہ سوویت یونین کے قبضہ کے خلاف تحریک مزاحمت کے دوران شہرت حاصل کرنے والے افغان کمانڈر گلبدین حکمت یار کے بیٹے حبیب اللہ حکمت یار نے کی تھی۔ جرگہ کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اُس میں حکومت پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی کیونکہ اتنے کم عرصہ میں ان کے لیے پاکستان میں تمام سازوسامان لپیٹنا‘ کاروبار ختم کرنا اور عزیزواقارب کے ساتھ واپس جانا ممکن نہیں۔ افغان مہاجرین گزشتہ تقریباً ساڑھے تین دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ اس دوران میں ان کی ایک نسل پل کر جوان اور دوسری پیدا ہو چکی ہے۔ دیکھا جائے تو افغان مہاجرین کی پاکستان میں تین نسلیں رہتی ہیں۔ ایک وہ ہے جو اپنے بچوں کے ساتھ 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے‘ اُن کے ساتھ آنے والے بچے یہیں پل کر جوان ہوئے اور انہوں نے یہیں شادیاں کیں۔ اب اُن کے بچے پاک سرزمین پر پل کر جوان ہو رہے ہیں۔ افغان مہاجرین جن کی اکثریت بنیادی سہولتوں سے محروم کیمپوں میں رہتی ہے ان میں سے بیشتر محنت مزدوری اور چھوٹے موٹے کام کر کے گزراوقات کرتے ہیں لیکن ان میں سے بعض نے پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں مثلاً تجارت‘ ٹرانسپورٹ‘ کنسٹرکشن اور مینوفیکچرنگ میں کروڑوں روپے سرمایہ لگا رکھا ہے۔ افغان مہاجرین کا یہ موقف ہے کہ گزشتہ تقریباً 35 برسوں کے قیام کے دوران افغان مہاجرین نے جو کاروبار پاکستان میں پھیلا رکھا ہے اُسے چھ ماہ کے عرصہ میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ اُن کے ہزاروں بچے پاکستان کے مختلف تدریسی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔ ان تمام روابط کو یکدم منقطع کر کے واپسی کا سفر اختیار کرنا اُن کے بس کی بات نہیں۔ وفاقی حکومت نے ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے افغان مہاجرین کو آئندہ برس مارچ تک ملک میں قیام کی اجازت دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ مہاجرین کی واپسی کا اہتمام کرتے ہوئے پاکستان یا افغانستان دونوں میں یہ تاثر نہ پیدا ہونے دیا جائے کہ انہیں ان کی مرضی کے برعکس وطن میں دھکیلا جا رہا ہے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا تھا جب 1980ء میں افغانستان پر قبضہ کرنے والی سوویت یونین کی فوج کے خلاف افغان مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ اس جنگ سے بچنے کے لیے افغانستان کے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے پاکستان کا رُخ کیا کیونکہ پاکستان قریب ترین ہمسایہ ملک تھا۔ ان افغان مہاجرین کی اکثریت پختون نسل سے تعلق رکھتی تھی اور پاکستان میں رہنے والے پختون باشندوں نے‘ جن کے ساتھ ان کے قریبی خونی تعلقات قائم تھے ‘ انہیں خوش آمدید کہا۔ چونکہ جنرل ضیاء کی حکومت نے 2500 کلومیٹر پاک افغان سرحد کو پوری طرح کھول دیا تھا۔ اس لیے پاکستان میں آنے والے افغان مہاجرین میں پختون کے علاوہ ملک کے شمالی علاقوں سے آنے والے مہاجرین بھی شامل تھے۔ ان میں سے اکثر صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں قیام پذیر ہوئے۔ لیکن کچھ نے اسلام آباد پنجاب سندھ اور کراچی کا بھی رُخ کیا۔ اپنی آمد کے وقت سے ہی افغان مہاجرین پاکستان میں ایک متنازع مسئلہ بنے رہے ہیں۔ جب جنرل ضیاء الحق نے مہاجرین کی شکل میں افغانستان اور مجاہدین کی حیثیت سے پاکستان سے آنے اور جانے والوں کیلئے پاک افغان سرحد کو مکمل طور پر کھول دیا اس وقت بھی قومی سلامتی سے آگاہی رکھنے والے دوراندیش حلقوں نے اسے تشویشناک اور پاکستان کے طویل المیعاد قومی مفاد کے منافی قرار دیا تھا کیونکہ ضیاء الحق کے اس ناعاقبت اندیشانہ اقدام سے ڈیورنڈ لائن عملی طور پر ختم ہو گئی تھی جو کہ کسی صورت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں تھی اور ضیاء الحق نے جس طرح بلا روک ٹوک افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے افغانستان آنے اور جانے کی اجازت دے رکھی تھی اُس سے بعد میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں اور یہ خدشات بعد میں درست ثابت ہوئے پاکستان اور افغانستان دونوں کو سرحد پار سے جس دہشت گردی کا سامنا ہے وہ اس پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے افغان مہاجرین کی‘ جو کہ بنیادی طور پر غیر ملکی باشندے تھے‘ نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں لگائی انہیں ملک کے ہر کونے میں جانے اور کام کرنے کی اجازت تھی۔ صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وہ علاقے جہاں پاکستانی پختون آباد تھے افغان مہاجرین کے پسندیدہ علاقے تھے اب بھی تقریباً پندرہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی بالترتیب 62 فیصد اور 19 فیصد تعداد صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آباد ہے۔ چونکہ یہ علاقے وسائل کے اعتبار سے پہلے ہی کمزور تھے‘ افغان مہاجرین کو جن کی رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ تعداد مل کر 30 لاکھ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے‘ اتنے لمبے عرصہ تک قیام نے ان علاقوں کی معیشت ماحول زمین پانی کے ذخائر جنگلات اور انفراسٹرکچر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی وجہ سے ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔ جب تک سوویت یونین کے خلاف جنگ جاری رہی افغان مہاجرین کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے انتہائی فراخ دلانہ امداد ملتی رہی۔ اتنی فراخ دلانہ کہ اُس وقت افغان مہاجرین کو فلسطین اور ہند چینی کے مہاجرین کے مقابلے میں سب سے زیادہ مراعات یافتہ مہاجرین سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان کی حکومتیں‘ پاکستان کی سٹیٹ ایجنسیاں اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں افغان مہاجرین پر قربان جاتی تھیں اور انہیں اسلام کے ہیرو مجاہد اور غازی کے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن جونہی جنیوا معاہدے (1988) پر دستخط ہوئے اور اس سے اگلے سال روسی فوجوں نے افغانستان خالی کر دیا تو دنیا ہی نہیں امریکہ نے بھی افغان مہاجرین سے آنکھیں پھیر لیں ان کو ملنے والی امداد میں بتدریج کمی آتی گئی حتیٰ کہ گزشتہ تقریباً پچیس برس سے ان کے قیام اورسہولتوں کی فراہمی پر اٹھنے والے اخراجات کا تمام تر بوجھ پاکستان اٹھا رہا ہے۔ اس میں صرف اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی طرف سے ہاتھ بٹایا جاتا ہے۔ لیکن اس ادارے کی طرف سے بھی وسائل کی کمی کی شکایت پر مبنی ایس او ایس متعدد بار عالمی برادری کو بھیجا جا چکا ہے یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستانی معیشت مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کی متحمل نہیں ہو سکتی پاکستان نے ان کی وطن واپسی پر زور دینا شروع کر دیا اور اس مقصد کے لیے یو این ایچ آر سی سے بھی مدد کی درخواست کی ہے پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ ناجائز نہیں ہے۔ 1988ء میں طے پا جانے والے جنیوا معاہدے کی ایک شق ''افغان مہاجرین کی باعزت اور باحفاظت وطن واپسی‘‘ پر مشتمل تھی۔ لیکن اُس وقت پاکستان کی کسی حکومت نے ان کی واپسی پر زور نہیں دیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ افغانستان کی مخدوش اندرونی حالات تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور سبب بھی تھا وہ یہ کہ افغان ہاجرین کے کیمپوں کو افغانستان میں جہادی بھیجنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جب تک افغانستان میں طالبان کی حکومت رہی حکومت پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کی فوری واپسی کا مطالبہ نہیں کیا گیا تاہم طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب حامد کرزئی برسر اقتدار آئے تو پاکستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ اٹھانا شروع کر دیا۔ تاہم جن مشکلات اور رکاوٹوں کی وجہ سے ماضی میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی ممکن نہ ہو سکی۔ وہ مشکلات اور رکاوٹیں بدستور قائم ہیں اس لیے حکومت پاکستان کو گزشتہ چند برسوں میں افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے دی جانے والی ڈیڈ لائن میں کئی بار توسیع کرنا پڑی۔ لیکن اس سال جون میں نہ صرف خیبر پختوخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں بلکہ وفاقی حکومت کی طرف سے بھی افغان مہاجرین کی فوری واپسی کا مطالبہ اٹھایا گیا اور اس کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں چیکنگ اور شناخت کے نام پر افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ اور اُن کے ٹھکانوں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دونوں صوبائی حکومتوں نے اعلان کیا کہ 30 جون تک تمام افغان مہاجرین پاکستان سے نکل جائیں ورنہ بلوچستان سے ایک وزیر کے مطابق انہیں دھکے مار کر پاکستان سے نکال دیا جائے گا۔ کے پی کے میں پولیس نے 2000 کے قریب افغان مہاجرین کو گرفتار کر کے ان میں سے 400 کو زبردستی افغانستان میں دھکیل دیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے افغان مہاجرین کے کیمپوں کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دے دیا اس پر پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے نمائندے نے احتجاج بھی کیا۔ مقام افسوس یہ ہے کہ جماعت اسلامی جس نے مہاجرین میں بین الاقوامی امداد کی تقسیم کا ٹھیکہ حاصل کر کے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا تھا اور عمران خان کی تحریک انصاف جس نے طالبان کی حمایت کر کے کے پی پی کے انتخابات جیتے تھے اس پر خاموش رہیں تحریک انصاف کے وزیراعلی پرویز خٹک افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے میں سب سے آگے تھے لیکن جب کچھ حلقوں کی طرف سے مہاجرین کو واپس بھیجنے کے اس طریقے کو نامناسب قرار دیا گیا اور جماعت اسلامی اور مولانا سمیع الحق نے بھی افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ اور زبردستی کی کارروائیوںکی مخالفت کی تو وزیراعظم نے ان کے قیام میں توسیع کر دی جو کہ ہر لحاظ سے ایک متحسن اقدام ہے۔