ایک غیر ملکی فورم پر انٹرویو میں سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے پاکستان میں مروجہ سیاسی نظام کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بار بار مارشل لا کے نفاذ کی اصل وجہ یہ ہے کہ جمہوری حکومتیں عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہیں۔ اسی وجہ سے لوگ فوج کو اقتدار سنبھالنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ پاکستان میں رائج جمہوری نظام ملک کے معروضی حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس میں چیکس اور بیلنسز نہیں ہیں‘ اس لیے فوج کو مجبوراً کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہو سکتا ہے کہ موجودہ نظام مسائل کا حل نہیں پیش کرتا‘ اسے بدل کر نیا نظام لانے کی ضرورت ہے۔ جنرل مشرف کے ان خیالات پر کسی کو حیرانی نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے دور اقتدار میں وہ کئی بار اس قسم کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ تین سال تک براہ راست آمرانہ اختیارات استعمال کرنے کے بعد انہوں نے 2002ء میں جس لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) کے تحت عام انتخابات کروائے تھے‘ وہ ان کے پسندیدہ سیاسی نظام‘ یعنی چیکس اور بیلنسز کے عین مطابق تھا۔ اس نظام کے تحت پارلیمنٹ کے بعض اہم اختیارات سربراہِ مملکت یعنی صدر کو منتقل کر دیے گئے تھے۔ اس کے لیے آئین میں (17ویں) ترمیم کی گئی جس کے تحت صدر اپنی صوابدید کے مطابق اسمبلیاں برخاست کرنے اور مرکز اور صوبوں میں کچھ تبدیلیاں کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا تھا۔ 17ویں ترمیم جنرل مشرف کے پیش رو جنرل ضیا کی آٹھویں ترمیم (آرٹیکل (b)2۔58) سے مختلف نہیں تھی‘ لہٰذا جنرل مشرف کو سوچنا چاہیے کہ عوام کے منتخب نمائندوں نے آٹھویں ترمیم کی طرح 17ویں ترمیم کو بھی دفن کرکے عوام کے اختیارات واپس عوام کے نمائندہ ادارے یعنی پارلیمنٹ کے حوالے کر دیے تھے۔ اپنے بیان میں انہوں نے جو کچھ کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ 17ویں ترمیم سے بھی آگے سوچ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ موجودہ آئین میں مطلوبہ چیکس اور بیلنسز کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ 1973ء
کے آئین کو منسوخ کیے بغیر ان کی مرضی کا سیاسی نظام پاکستان میں رائج نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر بھی کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان کے ہر فوجی آمر نے ''آئین‘‘ کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا ہے۔ اس کی ابتدا ایوب خان سے ہوئی تھی‘ جس نے بیک جنبش قلم 1956ء کے آئین کو منسوخ کرکے براہ راست مارشل لا نافذ کر دیا تھا‘ حالانکہ اس کی تشکیل میں بانیان پاکستان یعنی پہلی دستور ساز اسمبلی کی 9 برسوں پر محیط شبانہ روز محنت شامل تھی۔ امریکہ کے ایک مشہور مصنف ایلن میگراتھ (Allen Macgrath) نے اپنی کتاب Destruction of Democracy in Pakistan میں لکھا ہے کہ 1956ء کے آئین کی تشکیل کسی معجزے سے کم نہیں تھی‘ کیونکہ دنیا میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی‘ جہاں ایک ملک کے دو حصوں‘ جو ایک دوسرے سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہوں‘ کو ملا کر ایک قوم بنا دیا گیا ہو۔ امریکی مصنف کے مطابق پہلی دستور ساز اسمبلی کا یہ کارنامہ امریکہ کے فائونڈنگ فادرز کے کارنامے سے بھی بڑا تھا۔ لیکن ایوب خان نے اس آئین کو منسوخ کرکے پاکستان میں قومی اتحاد کی بنیاد کو مسمار کر دیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان متحد نہ رہا‘ کیونکہ اتحاد کی علامت یعنی آئین کو ختم کر دیا گیا تھا۔ ایوب خان نے عوامی تائید سے بنے ہوئے آئین کی جگہ اپنا ذاتی آئین ملک پر ٹھونسنے کی کوشش کی‘ لیکن اسے یعنی 1962ء کے آئین کو گیارہ برس کی آمریت کے بعد عوام نے مسترد کر دیا۔ 1962ء کے آئین کی وقعت کا یہ حال تھا کہ خود اس کا خالق یعنی ایوب خان اقتدار چھوڑتے وقت اس کی پاسداری نہ کر سکا‘ اور آئین کے مطابق حکومت کی باگ ڈور سپیکر قومی اسمبلی فضل القادر چودھری کے سپرد کرنے کی بجائے پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کے ہاتھ میں دے دی‘ جس نے ایک منٹ ضائع
کئے بغیر اسے منسوخ کرکے پاکستان کا دوسرا مارشل لا لگا دیا۔ ایوب خان کے خلاف ملک کے دونوں حصوں میں جو عوامی تحریک شروع ہوئی تھی اس کا سب سے اہم مطالبہ پاکستان میں پارلیمانی طرز حکومت کی بحالی تھا‘ لیکن یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ اپنی ملاقات میں صدر کے لیے خصوصی اختیارات کا مطالبہ کیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن نے یحییٰ خان کو انتقال اقتدار کے بعد صدارت کے عہدے کی پیشکش کی تھی۔ اس پر یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمن سے پوچھا کہ بحیثیت صدر اس کے کیا اختیارات ہوں گے؟ جس پر شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ وہی جو برطانوی نظام کے تحت بادشاہ یا ملکہ کے ہوتے ہیں۔ یحییٰ خان چونکہ برطانوی نظام سے ناواقف تھا‘ اس لیے اس نے اپنے مشیروں سے پوچھا کہ برطانیہ میں ملکہ یا بادشاہ کے کیا اختیارات ہوتے ہیں؟ جب انہوں نے بتایا کہ اس صورت میں تو وہ بالکل بے دست و پا ہوں گے تو انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی عوامی لیگ کو انتقال اقتدار کی پیشکش واپس لے لی۔ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے بعد جب ملک میں سیاسی بحران نے شدت اختیار کی تو یحییٰ خان نے اپنے اقتدار کا سورج ڈوبنے سے پہلے ایک آئین دیا تھا‘ جسے زندہ رہنے کے لیے بہت کم عرصہ میسر آیا کیونکہ بھارت کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد انہیں مسند اقتدار سے نیچے اترنا پڑا۔ پاکستان کے آخری دو فوجی حکمرانوں یعنی ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمرانہ حکومتوں کے باوجود 1973ء کا آئین قائم رہا‘ ان دونوں فوجی آمروں نے آئین کو منسوخ کیے بغیر بالکل غیر آئینی حکومتوں کے قیام کی راہ نکال لی تھی اگرچہ اس کے لیے انہیں آئین کا حلیہ بگاڑنا پڑا‘ مگر دونوں لمبے عرصہ تک حکومت پر قابض رہے۔ ایوب خان سے لے کر مشرف تک پاکستان کا ہر فوجی حکمران پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کا مخالف رہا ہے۔ اس کی تین اہم وجوہ ہیں: پارلیمانی نظام عوامی اقتدار اعلیٰ کے اصول پر قائم ہے اور پارلیمنٹ میں اس عوامی اقتدار کا سمبل ہے۔ ملک کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیر اعظم کو اس کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے‘ لیکن فوجی آمروں کی ڈکشنری میں جوابدہی یا اکائونٹیبلٹی کا لفظ ہی موجود نہیں۔ دوسرے‘ پارلیمانی نظام میں ہر ادارہ‘ خواہ وہ فوج ہی کیوں نہ ہو، پارلیمنٹ کے ماتحت ہوتا ہے۔ لیڈر آف دی ہائوس یعنی وزیر اعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں صرف پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ فوجی حکمرانوں کو یہ نظام پسند نہیں کیونکہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال میں کسی دوسرے فرد یا ادارے کو شریک نہیں کرنا چاہتے۔ تیسرے‘ پارلیمانی نظامِ حکومت میں فوج کو سول اتھارٹیز کے ماتحت ہو کر کام کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کے تمام فوجی حکمرانوں نے مختلف توجیحات پیش کرکے پارلیمانی نظام حکومت کو عوام کی نظروں میں گرا کر اسے بدلنے کی کوشش کی۔ ایوب خان کا دعویٰ تھا کہ اگر پاکستان میں پارلیمانی نظام قائم رہا تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ حالانکہ بیشتر سیاسی مبصرین دانشوروں اور سکالرز کی یہ متفقہ رائے ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عمل کو تیز کرنے میں سب سے اہم کردار ایوب خان کے مارشل لا (1958ء) اور اس کے صدارتی آئین (1962ء) نے ادا کیا۔ ضیاء الحق کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام حکومت اسلامی نظام کے نفاذ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن خود جماعت اسلامی‘ جو اس کی سب سے بڑی حمایتی پارٹی تھی اور اس کے ساتھ شریک اقتدار بھی رہی‘ کا موقف ہے کہ جتنا نقصان ضیاء الحق نے اسلام کو پہنچایا اتنا کسی ڈکٹیٹر نے نہیں پہنچایا۔ پاکستان میں اس وقت انتہا پسندی‘ تشدد‘ ٹارگٹ کلنگ‘ عدم برداشت‘ بھائی چارے کے فقدان کا جو کلچر فروغ پا رہا ہے‘ ضیاء الحق کے دور کے تحفے ہیں۔ جنرل مشرف نے گڈ گورننس کے فقدان کو پارلیمانی جمہوریت کا سب سے بڑا فالٹ قرار دیا ہے لیکن ان کے اپنے دور میں گڈ گورننس کا اگر جائزہ لیا جائے تو عوام بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور دوسرے مسائل کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کو قتل کرکے بلوچستان میں بحران کی بنیاد رکھی اس کے اثرات باقی ہیں۔ دوسرے‘ فوجی حکمرانوں کی طرح مشرف نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری سیاسی نظام کی بیخ کنی کا آغاز کر دیا تھا۔ 1973ء کے آئین کے متبادل نظام حکومت کے لیے جو اس نے نظریاتی بنیاد پیش کی اس کا نام اس نے یونٹی آف کمانڈ اور چیکس اور بیلنسز رکھا تھا۔مشرف کے مجوزہ سیاسی نظام کے بارے میں اس کے دور میں جو مختلف افواہیں گردش کرتی رہیں‘ ان میں ایک یہ بھی تھی کہ 1973ء کے آئین میں ترمیم کرکے منتخب وزیر اعظم کے ساتھ صدارت کا عہدہ چیف آف دی آرمی سٹاف کے لیے مختص کر دیا جائے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر مشرف کو اپنے اقتدار کو طول دینے کا موقع مل جاتا‘ تو 1973ء میں دیے گئے پارلیمانی نظام کی جگہ عملی طور پر ایک صدارتی نظام رائج ہو جانا تھا‘ کیونکہ صرف ایسے نظام کے تحت ہی ایک فوجی حکمران کی بلا شرکت غیرے مقتدر رہنے کی خواہش پوری ہو سکتی تھی۔