"DRA" (space) message & send to 7575

خارجہ پالیسی اور پارلیمنٹ

پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینٹ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور کی نگرانی کیلئے ایک پارلیمنٹری کمیٹی قائم کرے جس میں دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ کی بحالی برائے خارجہ امور اور دفاع کے چیئرمین ، فارن آفس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہوں۔ اس سفارش کا مقصدجہاں ایک طرف حکومت کے سول اور ملٹری اداروں میں خارجہ پالیسی کے شعبے میں کوآرڈینیشن پیدا کرنا ہے، وہاں خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس کی سمت کے تعین میں پارلیمنٹ کے زیادہ سے زیادہ کردار کو یقینی بنانا بھی ہے۔ اس مقصد کے لیے سینٹ میں 22 نکات پر مشتمل ایک رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں خارجہ پالیسی پر پارلیمنٹ کی مانیٹرنگ کیلئے متعدد تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ان سفارشات میں وزارتِ خارجہ میں ایک پبلک ڈپلومیسی آفس کا قیام ، بھارت کے ساتھ بیک چینل بات چیت کا احیاء اور پاکستان کی سرزمین کو دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے سے روکنے کے لیے موثر اقدامات بھی شامل ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد کیلئے 22 نکات پر مشتمل ایک جامع گائیڈ لائن منظور کی گئی ہے۔ ان رہنما اصولوں کی تیاری اورانہیں منظور کرنے میں حکومت اوراپوزیشن‘ دونوں کے نمائندوں نے حصہ لیا ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی پر پارلیمنٹ کی مانیٹرنگ کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ‘ خصوصاً جب سے کشمیر کا موجودہ بحران پیدا ہوا ہے، پاکستان کو سفارتی سطح پرمتعدد حزیمتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مثلاً وزیراعظم نے ستمبرمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے تمام پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہوئے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا پوری تفصیل سے ذکر کیا‘ لیکن عالمی ادارے کے اس ایوان میں‘ جہاں تقریباً 200 کے قریب ممالک کے نمائندہ وفود بیٹھے تھے‘ وزیراعظم کی تقریر کچھ خاص امپیکٹ پیدا نہ کرسکی اور پاکستان کو اقوام متحدہ کے ادارے سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ پوری نہ ہوسکیں۔ حکومت نے کشمیر کاز کو بہتر انداز میں پیش کرنے کیلئے پارلیمنٹیرین پر مبنی جو 22 وفود بھیجے تھے، ان کی طرف سے فیڈ بیک بھی حوصلہ افزا نہیں۔ ہر طرف سے یہ رائے ظاہر کی جا رہی ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی درست سمت میں نہیں چلائی جا رہی اور ملکی مفاد اور عالمی حالات کے مطابق چلانے کیلئے ضروری ہے کہ اسے پارلیمنٹ‘ جسے ملک کے 20 کروڑ عوام نے منتخب کیا ہے، کی نگرانی میں تشکیل دیا جائے۔ خارجہ پالیسی ہو یا ریاستی پالیسی کا کوئی اور شعبہ، دنیا بھر میںاس پر منتخب اداروں یعنی پارلیمنٹ کی اوورسائٹ (Over sight) قائم کی جاتی ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت‘ جو ہمارے ہاں رائج ہے، میںاس قسم کے میکانزم کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ سب سے مقتدر اور بالادست ادارہ ہے‘ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت نہیں پڑ سکی۔ ہماری ماضی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے شعبہ میں اہم اور دور رس نتائج کے حامل فیصلے کرتے وقت پارلیمنٹ کو کبھی بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ مثلاً 1950ء کی دہائی میں جب پاکستان نے دفاعی معاہدے سیٹو اور معاہدہ بغداد (بعد میں سنٹو) میں شمولیت اختیار کرکے سرد جنگ کے دوران امریکہ کا اتحادی بننے کا فیصلہ کیا، تو اس کی اجازت پاکستان کی اسمبلی سے نہیں لی گئی تھی۔ بلکہ یہاں تک کہ ان معاہدات کی دستاویزات کو اسمبلی کے سامنے بھی نہیں رکھا گیا۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں خارجہ پالیسی کی تشکیل اور بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات کے بارے میں تمام فیصلے پاکستان کی وزارت خارجہ کرتی تھی۔ اس کی باگ ڈور فارن سروس کے بیورو کریٹس کے ہاتھ میں تھی۔ بعد میں اور خصوصاً قائداعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب ملکی سیاست میں فوج کے عمل دخل میںاضافہ ہواتو سول بیورو کریسی کے ساتھ ملٹری بیوروکریسی نے مل کر خارجہ پالیسی کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ کا اتحادی بننے کافیصلہ اس سول، ملٹری بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا۔ اس کا اعتراف پاکستان کے پہلے فوجی حکمران، ایوب خان نے اپنی کتاب ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں کیا ہے اور پاکستان کو امریکی سرپرستی کے تحت قائم ہونے والے دفاعی معاہدوں میں شریک کرنے کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان میں خارجہ پالیسی پر پارلیمانی کنٹرول نہ ہونے کی متعدد وجوہ ہیں‘ لیکن سب سے اہم ملک میں بار بار کے مارشل لاء اور سیاست میں فوج کی مداخلت سے جمہوری سیاسی نظام کا تعطل ہے۔ جب بھی فوج نے اقتدار سنبھالا اور مارشل لاء لگایا تو سب سے پہلے اور سب سے کاری ضرب مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں پر لگتی تھی۔ مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد سول حکومت کی بحالی سے بھی پارلیمان تقویت حاصل نہ کرسکی‘ کیونکہ پاکستان کے چاروں فوجی حکمرانوں نے دستوری ترامیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے اختیارات اس حد تک محدود کر دیئے تھے کہ وہ دفاع اور خارجہ پالیسی کے امور میں کوئی موثرکردار ادا نہیں کرسکتی تھی۔ اس کی مثال جنرل ضیاء الحق کے دورمیں منظور کی جانے والی آٹھویں اور مشرف دور میں 17 ویں‘ آئینی ترامیم ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف صدر مملکت کے عہدوں پر متمکن ہونے کے باوجود، پارلیمنٹ کی بجائے فوج کو ہی اپنا حلقہ (Constituency) سمجھتے تھے۔ انہیں پارلیمنٹ پر اعتماد تھااور نہ انہیں اس ادارے کی ضرورت تھی۔ تمام اہم فیصلے‘ جن میں خارجہ تعلقات کے شعبہ میں فیصلے بھی شامل تھے، کور کمانڈرز کانفرنس میں کیے جاتے تھے۔ جنرل مشرف اب بھی بڑے فخر سے فوج کو ہی اپنی کانسٹی ٹیواینسی (Constitucency) سمجھتے ہیں‘ لیکن جمہوریت کی بحالی کے بعد خارجہ پالیسی سمیت دیگر اہم ایشوز کو پارلیمنٹ میں زیربحث لانے کے حق میں آوازیں بلند ہونی شروع ہو گئیں۔ ان کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے سابق دور میں‘ جب سید یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیراعظم تھے، خارجہ پالیسی پر پہلی دفعہ قومی اسمبلی میں بحث کی گئی
تھی۔ خارجہ پالیسی اور دیگر شعبوں میں بھی پارلیمنٹ کے کمزور کردار کی دوسری وجہ ہماری پارلیمنٹ میں ایک مضبوط کمیٹی سسٹم کی کمی رہی ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کے دور سے اب تک ایک متحرک پارلیمانی کمیٹی سسٹم معرض وجود میں آ چکا ہے اور یہ سسٹم آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہا ہے۔ اس وقت سینٹ اور قومی اسمبلی‘ ہر ایک کی 30 سے زائد سٹینڈنگ کمیٹیز ہیں جن کا کام اپنی اپنی وزارت سے متعلقہ بلوںکو چھان بین کے ذریعے حتمی شکل دے کر ہائوس میں پیش کرنا ہے، لیکن پاکستان میں پارلیمانی کمیٹی سسٹم ابھی اتنا فعال اور موثر نہیں، اس کی وجہ بیورو کریسی کا رویہ ہے جس کے تحت بڑے بڑے محکموں اور طاقتور اداروں کے سربراہ اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ خارجہ پالیسی کے بارے میں 22 گائیڈ لائنز پر مشتمل پیکیج کو سینٹ نے اپنے آپ کو کمیٹی آف دی ہول (Committees of the whole) میں منظم کرکے منظورکیا ہے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ پر پورے ہائوس میں بحث ہوئی جس کی صدارت سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی کر رہے تھے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اس قسم کی گائیڈ لائنز پہلا اور منفرد واقعہ ہے۔ اس سے قبل پارلیمنٹ نے خارجہ پالیسی کے شعبے میں اس قدر موثر کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ انتظامیہ کی طرف سے کئے گئے ہر فیصلے کو من و عن منظور کرنا اس کا معمول بن چکا تھا۔ 22 نکات پر مشتمل رپورٹ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل بلکہ اس کی سمت اور عمل درآمد کے بارے میں بڑی بنیادی اور دوررس نتائج کی حامل تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ مثلاً ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا قیام بلاتاخیرعمل میں لایا جائے تاکہ اہم قومی امور پر حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے عوامی نمائندوں کو ان پر اپنی رائے کے اظہار کا پورا پورا موقع مل سکے۔ اگرچہ سینٹ نے ان سفارشات کی تیاری کا کام کشمیر کے موجودہ بحران سے پہلے شروع کردیا تھا، لیکن8 جولائی کو برہان وانی کی شہادت کے بعدکشمیر میں حالات نے جو پلٹا کھایا اور بھارت کی
طرف سے اسے دنیا کے سامنے غلط شکل میںپیش کرنے کی جو کوشش کی گئی‘ اس کے پیشِ نظراس رپورٹ کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے نہتے عوام پر ظلم و ستم ڈھانے اور بنیادی انسانی حقوق کی مسلسل پامالی کے باوجودپاکستان کشمیر پر اپنے موقف اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے حق میں بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل نہیں کرسکا‘ بلکہ دہشت گردی کی بے بنیاد تہمت لگا کر بھارت نے پاکستان کو خود اپنے خطے یعنی جنوبی ایشیا اور عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی جو کوششیںکیں،وہ کافی حد تک کامیاب نظر آ رہی ہیں۔ مثلاً بھارت کے دبائو کے تحت ''سارک‘‘ کے 5رکن ممالک یعنی بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ''سارک‘‘ سربراہی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی۔
پاکستان اور کشمیری عوام کو امید تھی کہ وادی میں بھارت نے ظلم و ستم کا جو بازار گرم کررکھا ہے اور جس کے نتیجے میں 115 کے قریب افراد شہید ہو چکے ہیں اور سینکڑوں چھرے دار بندوقوںکی فائرنگ سے بینائی کھو چکے ہیں، عالمی ادارہ اس کا نوٹس لے گا اور بھارت کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرے گا‘ لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے روایتی تشویش کا اظہار کرنے کے علاوہ اور کوئی اقدام کرنے سے گریز کیا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے کشمیر میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشین بھیجنے کی جو اپیل کی گئی تھی، بھارت کی طرف سے اسے مسترد کرنے کا بھی نوٹس نہیں لیا گیا۔ کشمیر کا مسئلہ ابھی تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے اور1948ء میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حق میں جو قراردادیں منظور کی گئی تھیں، وہ اس ادارے کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ لیکن پاکستان اور کشمیریوں کی مسلسل درخواست کے باوجود اقوام متحدہ نے ان پر عملدرآمد کروانے کی طرف کوئی اقدام نہیں کیا۔ کشمیر کی موجودہ صورت حال کے بارے میں عالمی برادری کی بے اعتنائی کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں سینٹ کی طرف سے 22 نکات پر مشتمل خارجہ پالیسی کیلئے گائیڈ لائنز کی منظوری خاص اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں