8اگست کو کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کا واقعہ جس میں 74افراد ‘جن میں اکثریت وکلاء کی تھی‘ کے شہید ہونے کا غم تازہ تھا کہ دہشت گردوں نے بلوچستان کے دارالحکومت کو ایک اور شرمناک حملے کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس دفعہ ٹارگٹ پولیس ٹریننگ سنٹر تھا جس کی عقبی دیواروں کو پھلانگ کر اطلاعات کے مطابق تین دہشت گرد عمارت میں داخل ہوئے اور بے خبر زیر تربیت پولیس کیڈٹس کو گولیوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ 61زیرتربیت کیڈٹس نے شہادت پائی اور 117کے قریب زخمی ہوئے ۔
یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے مذہبی انتہا پسندی‘ فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کی جس لہرکا شکار ہے وہ صرف بیرونی ہاتھ کی پیداوار ہے۔ سب کا اتفاق ہے کہ دہشت گردی انتہا پسندی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔اور انتہا پسندی کی بنیاد سیاسی مصلحت پسندی اور موقع پرستی ہے۔ اس کا اظہار پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ہی ہو گیا تھاجب بانیٔ پاکستان قائد اعظم کے خیالات اور نظریات سے روگردانی کرتے ہوئے 1949ء میں پہلی دستور ساز اسمبلی نے مذہبی قوتوں‘ جن میں سے بعض نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی‘ کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے قرار داد مقاصد منظور کی اور مذہبی قوتوں کو موقع دیا کہ پاکستان میں رہنے والوں کو مذہب کی بنیاد پر دو طبقوں یعنی اکثریت اوراقلیت میں تقسیم کردیاجائے۔ اس کے بعد سیاسی اور سیکولر قوتیں برابر پیچھے ہٹتی گئیں اور انتہا پسندی کی طاقتیں تقویت پکڑتی گئیں جن کا نکتہ عروج ہم جنرل ضیاء الحق کے دور میں دیکھتے ہیں۔
بلوچستان میں اگرچہ حالات ایک عرصہ سے خراب چلے آ رہے ہیں لیکن مشرف دور میںنیا اور خطرناک موڑ آیا۔ اس سے قبل بلوچستان کی مزاحمتی تحریک بلوچ سرداروں تک محدود تھی لیکن نواب اکبر بگتی کی ہلاکت کے بعد اس تحریک میں تیزی آئی کیونکہ اس میں پڑھے لکھے اور نوجوان بلوچوں کی بڑی تعداد نے شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی تھی۔ اس کے ردعمل میں پاکستان کی ریاست نے طاقت کے استعمال پر انحصار کیا اور نتیجتاً تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔ اس صورت حال سے دو اورطاقتوں یعنی پاکستانی طالبان کے دھڑوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں نے بھی فائدہ اٹھایا۔ یہ بات نوٹ کرنے والی ہے کہ پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملے کی بیک وقت تین تنظیموں نے ذمہ داری قبول کی ہے۔ پاکستانی طالبان کا ایک گروپ ‘ داعش اور لشکر جھنگوی(العالمی) قطع نظر اس بات کے کہ ان دعوئوں کی حقیقت کیا ہے۔ اب اس حقیقت کا بلا تامل اعتراف کر لینا چاہیے کہ بلوچستان متعدد دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ دہشت گردی کی بڑتی ہوئی کارروائیاں خصوصاً ہزارہ برادری کے اراکین کو متواتر ٹاگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کا نشانہ بنانا غماضی کرتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی اور خودکش حملوں میں کالعدم لشکر جھنگوی کا کردار بڑھتا جا رہا ہے ‘لشکر جھنگوی نے اس سے قبل بھی بلوچستان میں دہشت گردی کی کئی وارداتوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ امن و امان کی بحالی کا مسئلہ ہمیشہ صوبائی دائرہ اختیار میں رہا ہے‘ اسی لیے ہر صوبہ کو اس مقصد کے لیے اپنی پولیس فورس کے قیام کی اجازت حاصل ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 14اکتوبر کو اسلام آباد میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل(ر) ناصرخاں جنجوعہ کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے قائم کردہ کمیٹی کا جو اجلاس ہوا تھا‘ اس میں فیصلہ کیا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں صوبے کلیدی کردار ادا کریں گے اوراس مقصد کے لیے ہر صوبے میں وزیر اعلیٰ کی قیادت میں کمیٹیاں قائم کی جائیں گی تاکہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عملدرآمد کیا جا سکے۔ صوبوں نے دس روز گزر جانے کے بعد بھی اس سمت کوئی قدم نہیں اٹھایا اس لیے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں صوبائی حکومتوں اور خصوصاً بلوچستان کی حکومت سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس نے اس جانب اب تک کیا قدم اٹھائے ہیں؟ یہ ایک عجیب صورتحال ہے کہ جب وفاقی حکومت اپنے ذرائع اور وسائل کے ساتھ‘ پاکستان کے کسی حصے میں دہشت گردی کے خلاف اقدام کرتی ہے تو صوبے اس پر شور مچاتے ہیںکہ مرکز دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں صوبوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے اور یوں صوبائی خود مختاری مجروح ہو رہی ہے۔ لیکن جب ذمہ داری صوبوں پر ڈالی جاتی ہے تو وہ اسے پورا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صوبوں کے پاس دہشت گردی جیسے پیچیدہ اورمشکل چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے نہ تو صلاحیت ہے‘ نہ تجربہ نہ قابلیت اور نہ وسائل۔ صوبوں کی یہ کسمپرسی انگریزوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے جنہوں نے انتظامیہ کی استعداد کار بڑھانے کی خاطر صوبے تو ایک صدی پہلے قائم کر دیے تھے ‘ لیکن انہیں ضروری اختیارات اور وسائل مہیا نہیں کیے اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ انگریز ہندوستان میں اپنے قائم کردہ سیاسی نظام میں صوبوں پر مرکز کو حاصل بالادستی کو کمزور نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آزادی کے بعد صوبائی خود مختاری کے دائرہ اختیار میں کافی وسعت آ چکی ہے اور اس کی سب سے نمایاں مثال اٹھارہویں آئینی ترمیم ہے‘ جس کے تحت 16کے قریب وزارتیں اور 100کے قریب محکمے اورکارپوریشن صوبائی عملداری میں دیے جا چکے ہیں‘ لیکن دو مسائل بدستور موجود ہیں اور ان ہی کی وجہ سے صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار موثر طور پر ادا نہیں کر سکتیں۔ ایک بیورو کریٹک مائنڈسیٹ اور دوسرا صوبوں کے پاس وسائل کی کمی۔ اگرچہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کا دائرہ کافی وسیع ہو چکا ہے‘ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مرکز نے صوبوں کی ذمہ داریوں میں اضافہ تو کر دیا ہے لیکن ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے جن وسائل اور اختیارات کی ضرورت ہے وہ صوبوں کے پاس نہیں۔ یہ سچ ہے کہ امن و امان کے قیام کی ذمہ داری صوبوں پر ہے‘ لیکن دہشت گردی صرف امن و امان کا مسئلہ نہیںبلکہ اس سے کہیں زیادہ بھاری اور پیچیدہ مسئلہ ہے ‘اسے حل کرنے کے لیے صوبائی حکومتیں مطلوبہ وسائل اور صلاحیت کی مالک نہیں‘ اس لیے وفاقی حکومت اگر اس بات کی خواہش مند ہے کہ صوبے نیشنل الیکشن پلان پر پوری طرح عمل کریں تو انہیں تمام ضروری وسائل ‘ذرائع اور اختیارات کا مالک بھی بنایا جائے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مرکزی حکومت اس جنگ سے جسے بجا طور پر پاکستان کے بقاء کی جنگ کہا جا رہا ہے‘ مکمل طور پر بری الذمہ ہو جائے ۔ جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مرکز کی مدد کے بغیر نہیں لڑ سکتے اور مرکزی حکومت پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ وہ صوبوں کے تعاون کے بغیر اس جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتی اس لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کی اولین اور سب سے اہم شرط صوبوں اورمرکز کے درمیان تعاون اورمفاہمت پر مبنی فضا ہے جو بدقسمتی سے اس وقت ملک میں موجود نہیں ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال مرکزی حکومت کی طرف سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے بارے میں ایک واضح اور دو ٹوک پالیسی کا فقدان ہے۔ ایک واضح اور صاف پالیسی کے عدم وجود کی بنا پر صوبوں کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیںاور دہشت گرد اس کافائد اٹھاتے ہیں۔ یہ صورت حال ملک کے تمام صوبوں میں موجود ہے اگرچہ دو سال قبل 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور تمام سیاسی پارٹیوں کے اتفاق رائے سے تشکیل دیا گیا تھا لیکن جب ان پر عملدرآمد کی نوبت آتی ہے تو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ مختلف اداروں کے درمیان بھی ترجیحات کا اختلاف آڑے آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی مصلحتیں اس صورتحال کی ذمہ دار ہیں لیکن خارجہ پالیسی کے شعبہ میں جو کنفیوژن پایا جاتا ہے اور خاص طور پر جہادی گروپوں کو جو سرپرستی حاصل ہے وہ دہشت گردی کے خلاف ہماری قومی جنگ کو بہت متاثر کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف اس صورت جیتی جا سکتی ہے جب پوری قوم کی ایک سوچ ہو گی اور ہم دہشت گردوں کے درمیان امتیاز کرنا چھوڑ دیں گے۔